(مرد مجاہد مفتی سلمان ازہری)۔
ازقلم: امام علی مقصود فلاحی۔متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔ان اندھیروں کا جگر چیر کے نور آئے گا،تم ہو فرعون تو موسیٰ بھی ضرور آئے گا۔اللہ نے اس کائنات کو جب سے وجود بخشا ہے، حق و باطل کے درمیان تب ہی سے اختلاف رہا ہے، کبھی حق کا ڈنکا بجا ہے تو کبھی باطل نے سر اٹھایا ہے، کبھی باطل کا ڈنکا رہا ہے تو حق نے اسی دبوچا ہے۔اور یہ سلسلہ ہر زمانے اور ہر دور میں رہا ہے، جب بھی کوئی حق کا منکر، جب بھی کوئی خدا کامنکر، جب بھی کوئی رسول کا منکر، جب بھی کوئی قرآں کا منکر، جب بھی کوئی حدیث کا منکر ابھرا ہے تو اسکا خاتمہ ضرور ہوا ہے، کوئی نہ کوئی مرد مجاہد اٹھا ہے اور اسے ٹھکانے لگایا ہے۔قارئین! آج کل ایک فتنہ بڑی تیزی سے بڑھتا نظر آرہا ہے، باطل کا سر اٹھتا نظر آرہا ہے، ناموس رسالت پر وار کیا جارہا ہے۔لیکن میں نے کہانا کہ جب بھی باطل کا سر اٹھتا ہے تو حق کا ڈنکا بجتا ہے۔کیونکہ جب بھی کوئی فرعون جنم لیتا ہے تو ساتھ ہی ساتھ موسیٰ بھی ضرور آتا ہے۔ان دھیروں کا جگر چیر کے جب نور آتا ہے۔تو فرعون کے ساتھ موسیٰ بھی ضرور آتا ہے۔اگر آپ تاریخ کے اوراق کو کھنگالیں تو جہاں بھی کسی ملعون نے ناموس رسالت پر کیچڑ اچھالا ہے تو کسی نہ کسی مرد مجاہد نے ضرور اسے ٹھکانے لگایا ہے۔کیونکہ ہر دور میں اہل ایمان نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے ساتھ پیار و محبت کی لازوال داستانیں رقم کی ہیں، اور ایسی محبت کی مثالیں قائم کی ہیں جسے سن کر یا پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، ایسے ایسے مرد مجاہد پیدا ہوئے ہیں جو خود اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر شاتم رسول اور گستاخ رسول کو جہنم رسید کرکے خود کو شہادت کا جامہ پہنایا ہے۔نتھو رام نامی شخص نے جب انگریزی زبان میں تاریخ اسلام نامی کتاب لکھی اور اس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں نا زیبا تبصرہ کیا۔ تو مسلمانوں نے اس شاتم رسول کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی مگر نتیجہ صفر رہا۔ لیکن جب ہزارہ کے ایک نوجوان عبد القیوم کو اس گستاخانہ حرکت کی خبر ملی، تو اس کی ایمانی غیرت وحمیت کے سمندر میں وہ جوش آیا کہ اس نے عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے دوران ہی دھاردار چاقوسے اس گستاخ رسول پر حملہ کردیا اور موقع پر ہی اس کا قصہ تمام کردیا۔ عبد القیوم کو سزائے موت ہو گئی، مسلمانوں کے ایک وفد نے ان کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرانے کیلئے علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ سے در خواست کی اگر وہ اپنے اثر ورسوخ کا استعمال کریں تو وائسرائے سے مل کران کی سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل کرواسکتے ہیں۔ علامہ نے وفد کی باتیں سن کر یہ دریافت کیا کہ کیا عبد القیوم کمزور پڑ گیا ہے؟ وفد کے ارکان نے کہا کہ عبد القیوم کمزور کیوں پڑتا، اس نے تو عدالت میں ہر بار اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے اور وہ علی الاعلان یہ کہتا ہے کہ میں نے شہادت اپنی زندگی کی قیمت پر خریدی ہے۔ یہ سن کر علامہ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے:’’ جب وہ ( عبد القیوم) کہہ رہا ہے کہ میں نے شہادت خریدی ہے تو میں اس کے اجر وثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں ؟ کیا تم یہ چاہتے ہوکہ میں ایسے مسلمان کیلئے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی ہے اور مر گیا تو شہید ہے۔اسی طرح سوامی شردہا نند جس کا اصل نام منشی رام تھا اور وہ مسلمانوں کے خلاف فرنگی سازشوں کا الہکار تھا۔ تحریک خلافت کے زمانے میں ہندو مسلم اتحاد کی جو فضا برسوں کے اندر پیدا ہوئی تھی، شردھا نند اور اس کے چیلوں نے چند مہینوں میں اسے نفرت و انتشار میں بدل دیا۔ یہ لوگ گاؤں گاؤں پھیل گئے اور اسلام پر کیچڑ اچھالنے لگے۔ حد یہ کہ ان لوگوں نے براہ راست ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے شروع کر دیئے۔ شردھانند کے ایک چیلے نے ’’جڑپٹ‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں حضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر انبیائے کرام علیہم السلام کی شان میں اس قدر سخت گستاخیاں بالکل عریاں الفاظ میں کی تھیں کہ اس خباثت کا تصور بھی مشکل ہے۔ شردھانند کی لگائی ہوئی آگ ہر طرف بھڑک رہی تھی اور جاں نثاران مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل تڑپ رہے تھے۔ پھر کیا ہوا؟ یوپی کے ضلع بلند شہر سے ایک نوجوان عاشق رسول اٹھا اور اس نے رسالت ماب پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرنے والے اس گروہ کے سرغنہ کا قصہ پاک کرنے کی ٹھان لی۔ شمع رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ پروانہ غازی عبدالرشید تھا۔ ایک غریب مگر معزز گھرانے کا یہ فرزند جس کی خوش قسمتی پر کائنات ہمیشہ ناز کرے گی، دہلی سے افغانستان روانہ ہوا، اور وہاں سے ایک پستول خرید کر لوٹ آیا۔ 17 دسمبر 1926ء4 کو شردہانند دہلی میں اپنے مکان پر موجود تھا کہ غازی عبدالرشید ریوالور لے کر دن دہاڑے اس کے اشرم میں جا پہنچا۔ پستول نکالی اورچھ گولیاں اس ملعون کے سینے میں پیوست کردی اور یوں بیسیویں صدی کے ایک بہت بڑے فتنے کی کہانی اپنے بھیانک انجام کو پہنچ گئی۔شرد ہانند کے قتل کے جرم میں عدالت نے غازی عبدالرشید کو پھانسی کی سزا دی اور ملت اسلامیہ نے اپنے اس قابل فخر سپوت کو ’’شہید اسلام‘‘ اور عاشق رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم کے خطاب سے نوازا۔معلوم ہوا کہ جب بھی ناموس رسالت پر پر حملہ ہوا ہے تو کوئی نہ کوئی مرد مجاہد ضرور اٹھا ہے۔اسی طرح اکیسویں صدی میں بھی جب ایک گستاخ رسول ابھرا اور شان رسالت کو مسلسل ٹارگیٹ بناتا رہا اور مسلمانوں کو ٹارچر کرتا رہا، انکے دلوں کو ٹھوس پہنچاتا رہا، تو ایک بندہ خدا کھڑا ہوا اور اس ملعون شخص نرسنگھا نند سرسوتی کے خلاف جب مقدمہ درج کیا اور اسے گرفتار کرنے اور اسے روکنے کے لئے آواز اٹھایا تو خود اس کے خلاف ہی مقدمہ درج ہو گیا، جبکہ وہ نرسنگھا نند اب تک کھلے سانڈ کی طرح گھومتا رہا اور مسلسل اسلام اور مسلمان اور نبی پاک کو نشانہ بناتا رہا تو ایک مرد مجاہد مفتی سلمان ازہری کھڑا ہوا اور یہ کہا کہ اے سرسوتی بہت ہوگئی نفرت بازی، بہت ہو گئے بحث و مباحثے، بہت ہو گئے گرفتاری کے مقدمے۔ اب کچھ نہیں کرنا ۔آ ! تو بھی آ میدان میں، میں بھی آتا ہوں میدان میں۔اب بحث و مباحثے نہیں کیئے جائیں گے، اب مقدمے پر مقدمے نھیں کیئے جائیں گے، اب جو ہوگا وہ آر پار کا فیصلہ ہوگا۔وہ اس طرح کہ تو اپنی ساری مذہبی کتابوں کو لیکر آئے گا اور میں کلام پاک لیکر انشاءاللہ حاضر ہوں گا۔پھر ایک آگ لگائی جائے گی اور اس میں تو بھی داخل ہوگا اور میں بھی داخل ہوں گا جو صحیح سلامت رہے گا اسی کے دین کی بات ہوگی، پھر اسی کے دین کو برحق مانا جائے گا۔اگر تجھے اعتبار ہے اپنے مذہب پر تو آ ! میدان میں میں بھی آتا ہوں۔ قارئین ! یہ چیلنج کرنا ہی تھا کہ سرسوتی کا بیان آیا جس میں وہ کہا کہ میں اس چیلنج کے لئے تیار ہوں ، بتا کہاں آنا ہے ؟ کس تاریخ کو آنا ہے؟بعدازاں مرد مجاہد سلمان ازہری کے ایمانی سمندر میں اور جوش آیا، اس نے کہا کہ جگہ تو خود تیرے چیلے نے رام لیلا میدان مقرر کی ہے۔ رہی بات تاریخ کی تو سن لے ! سترہ رمضان یوم الفرقان سید الأیام حق کو باطل کے درمیان فرق کرنے والے دن تیس (٣٠) اپریل کو تیار رہنا۔اور رام لیلا میدان میں پہنچ جانا ! میں بھی آؤں گا پھر دونوں ایک آگ میں چلیں گیں جو جلے گا وہ مرے گا جو بچے گا وہ رہے گا، یعنی کہ جو سلامت رہے گا اسی کے دین کو مانا جائے گا اسی کی بات مانی جائے گی۔ قارئین! عصر حاضر کا یہ سب سے بڑا چیلنج نظر آرہا ہے۔ کیونکہ اس سے قبل جب اس طرح کے واقعات سامنے آئے ہیں جس میں نبی کی ذات کو نشانہ بنایا گیا ہے تو اس سانحہ کو یاتو بحث و مباحثے یا تو حکومتی قانونوں یا پھر قتل بالحق کے ذریعے اس سانحہ کو سلجھایا گیا ہے لیکن یہ ایک ایسا معاملہ ہے جو دور ابراہیمی کو یاد دلانے جا رہا ہے، حق باطل کا اعلان کرانے جارہا ہے، ساری دنیا کو ہلانے جارہا ہے، ایک آگ کا دریا بہا نے جارہا ہے۔اخیرا میں تمام مسلمانوں سے عاجزانہ التماس کرتا ہوں کہ وہ اپنے سارے جھگڑوں کو پس پشت رکھتے ہوئے اس مردِ مجاہد مفتی سلمان ازہری صاحب کے لئے بارگاہ ایزدی میں دعا گو ہوں کہ بار الھی اس مرد مجاہد کو کامیاب کرے، اسکی محنت کو قبول فرمائے، اور اپنے دین کی حفاظت کے خاطر اور اپنے محبوب کے محبت کے خاطر اس نرسنگھا نند سرسوتی کو جلا کر خاک کرکے اور اسلام کا پرچم بلند کردے۔آمین یارب العالمین۔