✍️: سمیع اللہ خان
اسماعیل ہانیہ کو بزدلانہ طریقے سے شہید کرکے اسرائیل سوچ رہا تھا کہ اس نے حماس کو معذور کردیا ہے لیکن کل حماس کی کمیٹی نے یحیٰی سنوار کو حماس کا نیا چیف منتخب کرکے اسرائیل و امریکہ کے وجود کو اندر سے دہلا دیا ہے۔
کیونکہ یحییٰ سِنوار کی شخصیت یہودیوں کے لئے ایسے ہی ہیبت تناک ہے جیسے لشکرِ کفار کے لیے کسی زمانے میں” ضرّار بن الازور ” ہوا کرتے تھے
اسرائیل اور امریکا دونوں کا گمان تھا کہ یحیٰی سنوار کو وہ قتل کرچکے ہیں ۔ اس طرح حماس نے اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد اپنے پہلے ہی اقدام سے اسرائیل پر نفسیاتی فتح حاصل کرلی ہے ۔ یحییٰ سِنوار کا حماس چیف منتخب ہونے کا مطلب ہے کہ حماس نے امریکہ و اسرائیل کی سازو سامان سے لیس مشہور انٹیلیجنس کو زبردست شکست دی ہے ۔
یحییٰ سِنوار وہ جنگجو شخصیت ہے جسے اسرائیلی یہودیوں کے لیے ڈراؤنا خواب اور بھوت سمجھا جاتا ہے، اب تک حماس کی کمان ایک ایسی شخصیت کے ہاتھوں میں تھی جس کا مقام و مکان معلوم تھا جس سے گفتگو اور مذاکرات کے دروازے کھلے ہوتے تھے بلاشبہ اسماعیل ہانیہ ایک بہادر مجاہد تھے نیز ان کی شخصیت میں بہت ہی اثر پذیر سفارتی طاقت بھی تھی لیکن یحییٰ سِنوار مختلف ہیں وہ مذاکرات کی میز پر پہلے بندوق رکھتے ہیں پھر گفتگو شروع کرتے ہیں ۔ سفارتی شخصیت کو اسرائیل نے قتل کردیا ہے لہذا اب اسے جنگجو لڑاکا سے مذاکرات کرنے ہوں ۔
اسرائیل کو اسماعیل ہانیہ کی شہادت پر سزا دینے کے لیے اس سے زیادہ کارگر طریقہ کوئی نہیں ہوسکتا کیونکہ اب اسرائیل و امریکا کو مذاکرات کے لیے ڈھونڈ ڈھونڈ کر یحییٰ سِنوار کے پاس پہنچنا ہوگا، وہ یحییٰ سِنوار جس کی تصویر کو اسرائیل نے اقوامِ متحدہ میں لہرا کر عالمی دہشتگرد کا تعارف کرایا تھا جسے ختم کرنے کے لیے بیس سالوں میں اسرائیل و امریکا نے بےشمار چھاپے مارے اور چار مرتبہ یحییٰ سِنوار کے گھر پر بمباری کی ۔ جس کی لوکیشن معلوم کرنے میں موساد و سی آئی اے دس سالوں سے ناکام ہیں_
یحییٰ سِنوار، زیر زمین سرنگوں سے لشکر کشی، سیکوریٹی انٹیلیجنس اور گوریلا جنگ کے بےحد ماہر ہیں اور بےخوفی ایسی کہ ابلیس و فرعون پناہ مانگیں اسرائیلی یہودیوں کے خلاف اپنی سنگدلی کے لیے بھی مشہور ہیں وہ دشمن پر رحم نہیں کرتے بلکہ اسے زیر کرنے میں یقین رکھتے ہیں اسی لیے سنوار کے قائد منتخب ہونے کی خبر شیطان کے بیٹے نیتن یاہو پر بجلی کی طرح گری ہے۔
یحییٰ سِنوار کی ولادت 1962 میں خان یونِس کے ایک رفیوجی کیمپ میں ہوئی جہاں اسرائیلی مظالم سے تباہ حال فلسطینیوں نے پناہ لی تھی۔ ان کے خاندان کو یہودیوں نے مجدالعسقلان سے 1948 میں بےدخل کردیا تھا۔
یحییٰ سِنوار کی ابتدائی تعلیم خان یونِس کے ایک اسکول میں ہوئی اور اس کےبعد انہوں نے اسلامی یونیورسٹی آف غزہ سے عربی زبان میں ڈگری حاصل کی ۔ دوران تعلیم وہ کبھی اسٹوڈنٹس آرٹس کمیٹی کے سیکریٹری رہے ، کبھی کھیل کمیٹی کے سیکریٹری تو کبھی صدر و نائب صدر برائے اسٹوڈنٹ کاؤنسل آف اسلامک یونیورسٹی غزہ ۔
یحییٰ سِنوار اسکول اور یونیورسٹی کے دور سے ہی عالم اسلام کے حالات و مسائل پر اسلامی زاویہ نگاہ سے بےباک و شاندار گفتگو کرنے والے اور لکھنے والے ” اسلامسٹ ” کے طور پر مشہور تھے۔
1983 میں یحییٰ سِنوار پہلی بار سیکوریٹی آف دی کال غزہ تحریک میں شیخ احمد یاسین کی سربراہی میں شریک ہوئے ۔
1986 میں شیخ احمد یاسین نے یحیٰی سنوار اور دیگر منتخب اسلامسٹ نوجوانوں کو جہاد والدعوہ آرگنائزیشن تشکیل دینے کی ذمہ داری سونپی، اس تنظیم میں یحییٰ سِنوار سب سے زیادہ مقبول ہوئے۔
1982 سے 1988 تک یحییٰ سِنوار نے اسرائیلیوں کے خلاف بےشمار حملوں اور ٹکراؤ کی قیادت کی ، یحییٰ سِنوار کے حملے ہمیشہ چونکانے والے اور دشمنوں کو بوکھلاہٹ میں مبتلا کرنے والے ہوا کرتے تھے ایسا محسوس ہوتا تھا گویا وہ آرٹ اور تخلیق کاری کی تعلیم کو جنگی اسلوب پہنا دیتے تھے اور ایسے ایسے جنگی آرٹس ایجاد کرتے تھے کہ دشمن پر ہیبت بڑھتی جاتی تھی ۔
چنانچہ 1988 میں یحییٰ سِنوار کو گرفتار کر لیا گیا لیکن جیل میں بھی یحییٰ سِنوار نے مزاحمتی تحریکات بند نہیں کی بلکہ بھوک ہڑتال کے ذریعے بار بار اسرائیلی یہودیوں کے خلاف دباؤ بناتے رہے، انہوں نے جیل میں بند مجاہدین و فلسطینیوں سمیت مزاحمتی کارکنان کو نئی زندگی دےدی اور اسلامی لٹریچر اور تاریخِ عزیمت کی روشنی میں ان کی تربیت میں مصروف رہے،
یحییٰ سِنوار 23 سالوں بعد 2011 میں اسرائیلی جیل سے رہا ہوئے اس دوران انہوں نے اسرائیلی جیل میں رہتے رہتے دشمن کی رگوں پر بھی گرفت حاصل کرلی، وہ ایسے جنگجو بن کر نکلے جو سیکوریٹی انٹیلیجنس میں ماہر ترین ہوگئے ہیں ایسے جنگجو دنیا میں خال خال ہوتے ہیں ۔
2012 میں انہیں حماس کی سیاسی ونگ کا ممبر منتخب کیا گیا اور غزہ میں سیکوریٹی سسٹم کی ذمہ داری یحییٰ سِنوار کو دی گئی ۔
2013 میں انہیں عسکری فائل کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ اس دوران وہ اپنی کارروائیوں کے ذریعے اسرائیل کو اچانک اچانک درد دیتے رہے یہاں تک کہ 2015 میں امریکا نے یحیٰی سنوار کو عالمی دہشتگردوں کی فہرست میں شامل کردیا۔
2015 میں حماس نے یحیٰی سنوار کو القسام بریگیڈ کے ذریعے گرفتار کیے گئے یہودی قیدیوں کا معاملہ سپرد کیا۔
یحییٰ سِنوار 2017 میں حماس کی غزہ یونٹ کے چیف منتخب ہوئے اور 2021 میں وہ پھر سے غزہ کے چیف منتخب ہوئے ۔
یحییٰ سِنوار اپنے طالبعلمی کے زمانے سے لکھ رہے ہیں اور ان کی تحریریں بھی جنگی حملوں کی طرح ہوا کرتی تھیں ان کا لکھا ناول The Thorn and the Carnation مشہور ہے البتہ ہمارے ملک میں غالباً ان کی تحریریں پڑھنا ممنوع ہے ۔
اس پڑھے لکھے مجاہد کی دہشت و ہیبت کا یہ عالم تھا کہ اسرائیلی فوج نے اس اکیلے شخص کے گھر پر چار مرتبہ بمباری کی ہے۔
اسرائیل اور امریکا دونوں کی انٹیلیجنس کے مطابق یحییٰ سِنوار قتل ہوچکے تھے لیکن حماس نے پھر ثابت کر دکھایا ہے کہ اس کا انٹیلیجنس نظام امریکا و اسرائیل سے کافی آگے ہے،
مغربی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسماعیل ہانیہ سے تو گفتگو کرنا آسان تھا لیکِن اب ان کی جگہ ایک ایسا شخص آیا ہے جس کا ٹھکانہ کسی کو معلوم نہیں جس کی اسٹریٹجی کا کوئی اندازہ لگا نہیں سکتا یہ اسرائیل اور امریکا دونوں کے حق میں بہت برا ہوا۔
یحییٰ سنوار دشمنوں پر جھپٹنے کے معاملے میں سیف اللہ خالد بن ولید اور ضرّار بن الازور کی طرح ہیں ان کے انتخاب سے اسرائیلیوں پر جو بوکھلاہٹ ہے وہ اسماعیل ہانیہ کی شہادت کے بعد اسرائیل پر مجاہدینِ حماس کی نفسیاتی فتح ہے۔
اپنی شہادت سے عین قبل سچ ہی کہا تھا شہید اسماعیل ہانیہ نے کہ جب ایک سردار وفات پاتا ہے تو اس کی جگہ لینے کے لیے دوسرا سردار موجود ہوتا ہے،
یحییٰ سنوار بندوق اور میزائل کی زبان سے گفتگو کا آغاز کرنے والے لیڈر ہیں چنانچہ اسرائیل اپنے آئرن ڈوم کو پلٹ پلٹ کر جانچ رہا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یحیٰی سنوار کی قیادت میں تحریکِ حماس کو اسرائیل پر فتح حاصل ہو، اللہ تعالیٰ ہر فلسطینی ہر کارکنِ حماس اور ہر مجاہد لیڈر کو قلبی سکون عطا فرمائے ، حماس کے ایسے بےشمار انڈر گراؤنڈ لیڈروں کو تقویت اور حفاظت کا روحانی حصار عطا ہو۔ آمین۔