اِنصاف ٹائمس ڈیسک
مغربی بنگال کے بردوان ضلع سے ایک تاریخی اور افسوسناک خبر سامنے آئی ہے، جہاں تقریباً 300 برس بعد دلت برادری کے افراد نے ایک قدیم شیو مندر میں داخل ہو کر پوجا کی۔ اس جرات مندانہ قدم کو سماجی مساوات کی سمت ایک بڑی پیش رفت مانا جا رہا ہے، لیکن اس کے بعد گاؤں میں ان خاندانوں کے خلاف سماجی بائیکاٹ، دباؤ اور دھمکیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
بردوان ضلع کے ایک گاؤں میں واقع قدیم شیو مندر میں صدیوں سے دلتوں کا داخلہ ممنوع تھا۔ حال ہی میں تقریباً 50 دلت خاندانوں نے اس روایت کو چیلنج کرتے ہوئے اجتماعی طور پر مندر میں داخل ہو کر پوجا کی۔
اس موقع پر نوجوانوں، بزرگوں، مرد و خواتین نے مل کر شرکت کی اور ’جئے بھیم‘ اور ’ہر ہر مہادیو‘ کے نعروں کے ساتھ مندر کے درشن کیے۔ اس اقدام کی قیادت مقامی دلت کارکنوں اور سماجی تنظیموں نے کی۔
مندر میں داخلے کے فوراً بعد گاؤں کے اعلیٰ ذاتوں کی جانب سے دلت خاندانوں کو دھمکیاں دی جانے لگیں، ان کے گھروں کا سماجی بائیکاٹ کیا گیا، اور پانی، راشن و دیگر سہولیات روک دی گئیں۔ کئی دکان داروں نے ان کو سامان دینا بند کر دیا ہے۔
ایک مقامی دلت خاتون نے کہا “ہم نے پہلی بار بھگوان شیو کے سامنے دیا جلایا، لیکن اب ہمیں ڈرایا جا رہا ہے۔ کیا مندر صرف اونچی ذاتوں کے لیے ہوتے ہیں؟”
ضلع انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات کے احکامات دے دیے ہیں، مگر تاحال کسی بھی قصوروار کے خلاف ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ متاثرہ خاندانوں نے تحفظ کا مطالبہ کیا ہے اور ذات پر مبنی امتیاز کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی ہے۔
دلت تنظیموں اور انسانی حقوق کے کارکنان نے اس واقعے کی سخت مذمت کی ہے۔ آل انڈیا دلت ادھیکار منچ کے ترجمان نے کہا: “اگر مندر عوامی ہیں، تو ہر شخص کو وہاں برابری کے ساتھ جانے کا حق حاصل ہے — چاہے وہ کسی بھی ذات سے ہو۔”
یہ واقعہ نہ صرف مغربی بنگال بلکہ پورے ملک میں ذات پات کے خلاف جاری جدوجہد کو نئی تحریک دیتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاستی حکومت اور پولیس انتظامیہ اس معاملے میں انصاف کے تقاضے پورے کرتی ہے یا نہیں۔