مظہر سبحانی: متعلم مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
تاریخ کے صفحات ایسے لا تعداد افراد کی عظیم خدمات سے سجے ہوئے ہیں جنہوں نے وطن عزیز ہندوستان کو سجانے اور سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔نا جانے کتنوں نے اپنی جان کے نذرانے پیش کیئے اور کتنوں نے اپنے تعاؤن سے ملک کو مضبوط کیا۔یہ بات سچ ہے کہ آج ہم جس ہندوستا ن میں سانس لے رہے ہیں اس ہندوستان کو سجانے اور وسنوارنے میں لا تعداد افراد کی مساعئ جمیلہ شامل ہے جو اپنی مثال آپ ہیں ۔ انہیں افراد میں سے ایک فرد ایسا بھی ہے جس کو پوری دنیا ویر عبد الحمید کے نام سے جانتی ہے۔ ویر عبد الحمید ہندوستانی فوج کے ایک جاں باز اور مضبوط سپاہی تھے۔شاہین صفت یہ مرد مجاہد جب بھی میدان جنگ میں آیا تو دشمنوں کے پاؤن اکھاڑ پھینکے اور نصرت و فتح کے پرچم لہرائے ۔کامیابی ہمیشہ اس مرد مجاہد کے پاؤن چومتی رہی اور وطن کی خوشگوار فضائیں حمید کی جراءت مردانگی کی خوشبو سے مزئیں ہوتی رہیں ۔ عبد الحمید ریاست اتر پردیش کے ضلع غازی پور میں 1 جولائی 1933 کو پیدا ہوئے ، آپ کے والد محترم جناب محمد عثمان صاحب پیشہ سے ٹیلر تھے ،ویر عبد الحمید کے قصبہ میں تعلیم کا کچھ خاص رواج نہیں تھا ، اسی لئے جب عبد الحمید تھوڑے سے ہی بڑے ہوئے تو والد کے ساتھ دوکان جانے لگے اور ان کی زمہ داریوں میں ہااتھ بٹانے لگے ۔عبد الحمید بچپن سے ہی حساس ذہن کے مالک تھے،ساتھ ہی مختلف فکر،مختلف انداز اور مختلف زاویہ نظر بھی رکھتے تھے۔ ان کے اندر قومی ہمدردی اور جزبہ حب الوطنی کوٹ کوٹ کر بھرا تھا اسی لئے عبد الحمید نے ٹیلر کا کام چھوڑ کر 21 سال کی عمر میں دسمبر 1954 میں ہندوستانی آرمی سے منسلک ہو گئے۔ اور اپنے فن کے خوب خوب جوہر دکھائے۔ یوں تو عبد الحمید کی پوری زندگی کا ایک ایک پہلو اپنے آپ میں منفرد ہے ، لیکن 1965 کی انڈو- پاک کی جنگ میں عبد الحمید نےکلیدی کردار ادا کیا ، 1962کے انڈ و چین جنگ کے بعد اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم پنڈٹ جواہر لعل نہرو کے اس دار فانی سے کوچ کر جانے کے سبب ، ملک اپنے سیاسی اور معاشی حالت سے پریشان تھا ، اس وقت پاکستان کو احساس ہوا کہ یہ حملہ کا صحیح وقت ہے ،پاکستان کا منصوبا تھا کہ انہیں کشمیر کے حصہ پرقبضہ کرنا ہے ، کشمیری سرحدوں پر انڈین آرمی کی مضبوط نگرانی تھی اس وجہ سے پاک فوج سیدھے کشمیر کی طرف نہیں آسکتی تھی لہذا انہوں نے پنجاب بارڈر کی جانب سے داخل ہونے کا منصوبہ بنایا ،عبد الحمید کی ڈیوٹی پنجاب بارڈر کے اس حصہ پر لگی تھی جو حصہ پاکستان سے جڑا ہواتھا۔عبد الحمید نے اس جنگ میں محض دو دن میں 7 پاکستانی ٹینک اڑائیں اور دشمنوں کی نیندیں حرام کر دی ، اتنے بڑے خسارے کے بعد حمید پاکستانی فوج کی نظر میں اتنے چبھ گئے کہ اب دشمنوں کی نظر کشمیر سے ہٹ کر عبد الحمید پر پڑی، پھر پاک آرمی نے مبینہ طور پر حمید کی گاڑی آر سی ایل جیپ کو نشانہ پر لیا اور چہار جانب سے اسی پر بم باری شروع کر دی اور پھر عبد الحمید ہمیشہ ہمیش کے لئے سو گئے ۔عبد الحمید کی اس عظیم خدمت کا اعتراف کرتے ہوئے حکومت ہند نے انہیں پرم ویر چکر کے اعزازسے نوازہ۔ یہی وجہ رہی ہے کہ ویر عبد الحمید کی جاں بازی کے قصے آج بھی ہماری زبانوں پر سجے ہوئے ہیں۔اور یہ کہانیاں نہ صرف چھوٹے چھوٹے بچوں کو سنائی جاتی ہیں بلکہ آج بھی انڈین آرمی میں اس مرد قلندر کی جانبازی پر بڑے بڑے سیمینار اور لیکچر کا اہتمام کیا جاتا ہے ، تاکہ آنے والی جوان آرمی کے ا ندر بھی اسی جوش و جذبہ حب الوطنی کو پیدا کیا جا سکے ۔عبد الحمید جیسا پر عزم اور بلند حوصلہ کا عظیم فوجی وطن عزیز ہندوستان کے لیے فخرکا باعث ہے،اور ان تمام فسطائی طاقتوں کے خلاف مضبوط آواز ہے جو اس ملک کو ہندو مسلم فرقہ وارانہ فسادات میں ڈھکیل کر اس ملک کا امن و سکون ختم کرنا چاہتے ہیں۔(مظہر سبحانی نے یہ مضمون شاہ ولی اللہ ریسرچ فاؤنڈیشن کیلئے لکھا ہے)