کامران غنی صبا
اسسٹنٹ پروفیسر نٹیشور کالج مظفرپور
مایوس طالب علم کو مایوسی سے نکال کر امید اور یقین کی منزل تک لے آنا ہی ایک استاد کی اصل کامیابی ہے. اپنے دس سالہ تدریسی سفر میں جو بات میں نے شدت کے ساتھ محسوس کی ہے وہ یہی ہے کہ اردو کے بیشتر طلبا اپنے مستقبل سے مایوس ہیں. یہ مایوسی ان کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے. یہ مایوسی انہیں محنت کرنے سے روکتی ہے. تن آسانی سکھاتی ہے. طلبا شارٹ کٹ نسخوں کی طرف بھاگتے ہیں. نصابی کتابیں پانچ دس فیصد بچے بھی شاید ہی پڑھتے ہوں. اسکول، کالج اور یونیورسٹی کے امتحانات میں فیل کرنے کا رواج عموماً نہیں ہے. یہ طلبا نصابی کتابوں کا منھ دیکھے بغیر بھی اچھے نمبروں سے کامیاب ہوتے ہیں اور پھر نوکری کی تلاش میں جب مقابلہ جاتی امتحانات میں مسلسل ناکامیوں کا سامنا کرتے ہیں تو اردو کے تعلق سے ایک خوف کی فضا قائم ہوتی ہے کہ اردو پڑھنے والوں کا مستقبل تاریک ہے، اردو پڑھنے والے بے روزگاری کی مار جھیلتے ہیں. میں اپنے طالب علموں کو اکثر یہ یقین دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اردو میں کیریر بنانا دوسرے موضوعات میں کیریر بنانے سے نسبتاً زیادہ آسان ہے. اردو میں اچھے طالب علموں کا فقدان ہے. امتحانات کی کاپیاں چیک کرتے ہوئے اس کمی کا شدت سے احساس ہوتا ہے. سو میں شاید ہی دو چار کاپیاں ایسی نکلتی ہیں جنہیں دیکھ کر طبیعت خوش ہو. ابھی چند روز ایک یونیورسٹی میں کاپیاں چیک کرتے ہوئے بار بار یہی خیال آ رہا تھا کہ ہم اردو کے نام پر کیسی ایک بھیڑ تیار کر رہے ہیں؟ کسی ایک بچے نے جمیل مظہری کی شاعری پر لکھتے ہوئے جمیل مظہری کو ایک جلیل القدر بزرگ قرار دیا، جنہیں دیکھ کر باطل پر لرزہ طاری ہو جاتا تھا. پھر ان کی صوفیانہ کرامات لکھیں. دوسرے درجنوں بچوں نے من و عن ان کرامات کو اپنی کاپیوں میں اتار لیا. تحریر انتہائی خوش خط. کتابت جیسی. باقی ان کاپیوں کا ذکر ہی کیا جن میں صرف الف ب ج د جیسا کچھ لکھا تھا. ہمارے یہاں بی آر اے بہار یونیورسٹی میں بھی ایسی ہی کاپیاں ملتی ہیں جنہیں دیکھ کر سر پیٹ لینے کو جی چاہتا ہے. دیگر اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کا حال بھی اس سے مختلف نہیں ہے. لیکن سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا ذمہ دار کون ہے؟ کیا صرف طلبا؟ کیا طلبا جان بوجھ کر اپنے مستقبل کو تاریک بنانا چاہتے ہیں؟ میرے خیال میں ایسا نہیں ہے. اردو کے اکثر طلبا زبردست قسم کے احساس کمتری اور مایوسی کا شکار ہیں. یہ احساس کمتری انہیں مطالعہ کرنے سے روکتا ہے. انہیں کامیابی کا شارٹ کٹ راستہ تلاش کرنے پر مجبور کرتا ہے. نتیجتاً جب یہ طلبا کورس کی تکمیل کے بعد ملازمت کے لیے در در کی ٹھوکریں کھاتے ہیں تو اردو بیچاری بدنام ہوتی ہے. اردو کے اساتذہ اگر اپنے طلبا کو احساس کمتری سے باہر نکال لائیں تو طلبا کا مستقبل بھی روشن ہوگا اور اردو بھی اپنی بے بسی کا نوحہ نہیں پڑھے گی. …………….