تریپورہ میں کانگریس رہنما کے بیان کے بعد سیاسی ہنگامہ: شاہجہاں اسلام کے گھر پر حملہ، والد اور بھائی گرفتار، اپوزیشن نے بتایا ’سیاسی انتقام‘

Spread the love

اِنصاف ٹائمس ڈیسک

تریپورہ میں ایک بار پھر سیاست گرم ہو گئی ہے۔ کانگریس کے نوجوان لیڈر شاہجہاں اسلام کی حکومت اور پولیس پر شدید تنقید کے بعد ریاست میں ایک سنجیدہ صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ جہاں اتوار کی شب ان کے آگرہ تلہ واقع گھر پر نامعلوم افراد نے حملہ کیا، وہیں پیر کے روز تریپورہ پولیس نے ان کے والد نظرالاسلام اور بھائی خیرالاسلام کو گرفتار کر لیا۔

عید الاضحیٰ سے قبل شاہجہاں اسلام نے تریپورہ کی بی جے پی حکومت اور وزیر اعلیٰ مانک ساہا پر یہ الزام عائد کیا کہ ریاست میں مسلمانوں کو قربانی کے مذہبی حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر بلال میاں کو بھی ’دھوکہ باز‘ کہا اور مسلمانوں سے ان کے ’سماجی بائیکاٹ‘ کی اپیل کی۔

اس بیان کو "قابل اعتراض” قرار دیتے ہوئے بی جے پی کے رہنماؤں نے شاہجہاں کے خلاف متعدد ایف آئی آرز درج کروائی۔ اسی رات کچھ نامعلوم افراد ان کے گھر میں گھس آئے، توڑ پھوڑ کی اور گھر والوں کو دھمکیاں دیں۔

پیر کی صبح پولیس نے شاہجہاں کے والد اور بھائی کو حراست میں لے لیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ گرفتاری "اشتعال انگیز بیانات اور امن عامہ کو خطرے میں ڈالنے” کے الزامات کے تحت ہوئی ہے۔ لیکن شاہجہاں نے اس اقدام کو سیاسی دباؤ کا نتیجہ قرار دیا ہے،اُنہوں نے کہا کہ”میرے گھر پر حملہ ہوا اور ہمیں ہی گرفتار کیا گیا، کیا یہی جمہوریت ہے؟

کانگریس، سی پی آئی (ایم) اور متعدد انسانی حقوق تنظیموں نے اس کارروائی کی سخت مذمت کی ہے۔ کانگریس کے ترجمان نے کہا کہ یہ گرفتاری جمہوریت کے قتل کے مترادف ہے اور ریاست میں مسلم آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔

سی پی ایم لیڈر جتیندر چوہدری نے کہا "بی جے پی اب تنقید برداشت نہیں کر سکتی۔ جو بھی آواز اٹھاتا ہے، اس پر حملہ ہوتا ہے اور اس کے اہلِ خانہ کو جیل بھیج دیا جاتا ہے۔”

عید الاضحیٰ کے موقع پر قربانی اور مذہبی آزادی کا معاملہ اب ریاست میں ایک سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے۔ الزامات ہیں کہ بی جے پی سے وابستہ بعض عناصر نے مختلف مقامات پر مسلمانوں کو قربانی سے روکنے کی کوشش کی اور ماحول کو خوفزدہ کیا۔

ریاستی حکومت نے معاملے کی تحقیقات کے احکامات تو دے دیے ہیں، لیکن اپوزیشن اور انسانی حقوق کارکنوں کا مطالبہ ہے کہ گرفتار افراد کو فوری رہا کیا جائے اور حملہ آوروں کے خلاف کارروائی کی جائے

اس واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا حکومت پر تنقید کرنا اب جرم بن چکا ہے؟ اور کیا مذہبی آزادی کی بات کرنے والوں کو یوں ہی کچلا جائے گا؟

Leave a Comment