انصاف ٹائمس ڈیسک
الہ آباد ہائی کورٹ کے جسٹس رام منوہر مشر نے ایک متنازعہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ کسی لڑکی کے سینے کو پکڑنا، اس کے پاجامے کا ناڑا کھولنا اور اسے زبردستی گھسیٹنا ریپ یا ریپ کی کوشش کے زمرے میں نہیں آتا۔ اس فیصلے نے ملک بھر میں شدید بحث و مباحثہ کو جنم دیا ہے۔
کیس کی تفصیلات
یہ کیس ایک ملزم سے متعلق تھا جس پر الزام تھا کہ اس نے متاثرہ لڑکی کے سینے کو چھوا، اس کا پاجامہ کھولا اور اسے زبردستی پل کے نیچے گھسیٹنے کی کوشش کی۔ تاہم، عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ان حرکات کو ریپ یا ریپ کی کوشش تصور نہیں کیا جا سکتا۔
تنازعہ اور ردعمل
اس فیصلے نے قانونی ماہرین، خواتین کے حقوق کے کارکنوں اور سماجی حلقوں میں غم و غصے کو جنم دیا ہے۔ کئی تنظیموں نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ خواتین کے تحفظ کے قوانین کو کمزور کر سکتا ہے اور ایسے واقعات میں انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے۔
قانونی نقطہ نظر
بھارتی قانون کے تحت:
-دفعہ 375 (IPC) ریپ کی تعریف میں زبردستی کی گئی کوئی بھی جنسی حرکت شامل کرتی ہے۔
-دفعہ 354 (IPC) کسی عورت کی عزت کو مجروح کرنے کے لیے کی گئی کوئی بھی حرکت جرم کے دائرے میں آتی ہے۔
قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ عدالت کے اس فیصلے پر نظرثانی کی ضرورت ہے تاکہ خواتین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
آگے کا راستہ
متاثرہ فریق اور حقوق کے کارکنان اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی قانونی اصلاحات اور بہتر تحفظات کی مانگ کی ہے۔