تلنگانہ میں دلت طلبہ سے بیت الخلاء صاف کروانے کے معاملے پر تنازعہ: IAS افسر الاگو ورشنی کے بیان پر قومی کمیشن برائے درج فہرست ذاتوں نے ریاستی حکومت سے رپورٹ طلب کی

Spread the love

اِنصاف ٹائمس ڈیسک

تلنگانہ میں ایک سینئر IAS افسر ڈاکٹر وی ایس الاگو ورشنی کے ایک متنازع بیان نے شدید تنازع کھڑا کر دیا ہے، جس میں انہوں نے دلت طلبہ سے گروکل اسکولوں میں بیت الخلاء اور کمروں کی صفائی کروانے کی بات کہی۔ اس پر قومی کمیشن برائے درج فہرست ذاتیں (NCSC) نے از خود نوٹس لیتے ہوئے ریاستی حکومت سے 15 دنوں کے اندر کارروائی رپورٹ (ATR) طلب کی ہے۔

ڈاکٹر ورشنی، جو تلنگانہ سوشل ویلفیئر رہائشی تعلیمی ادارہ جاتی سوسائٹی (TGSWREIS) کی سکریٹری ہیں، کی ایک آڈیو کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔ اس میں وہ اسکول کے پرنسپلوں سے کہتی سنائی دے رہی ہیں “انہیں اپنے کمرے صاف کرنے چاہئیں… وہ اپنے بیت الخلاء کیوں نہیں صاف کر سکتے؟… یہ ہمارے بچے ہیں، یہ کوئی پوش سوسائٹی سے نہیں آتے”

انہوں نے مزید کہا کہ جو طلبہ یا والدین اس پالیسی کی مخالفت کریں گے، انہیں شوکاز نوٹس دیا جائے گا۔

ان کے اس بیان پر اپوزیشن جماعت بھارت راشٹرا سمیتی (BRS) نے سخت ردعمل دیا ہے۔ BRS کے رہنما اور سابق سکریٹری ڈاکٹر آر ایس پروین کمار نے سوال اٹھایا “کیا وزیر اعلیٰ کے بچے بھی اسکول میں بیت الخلاء صاف کرتے ہیں؟”
انہوں نے فوری طور پر ڈاکٹر ورشنی کو عہدے سے ہٹانے کا مطالبہ کیا۔

بھارتیہ راشٹر سمیتی کی ایم ایل سی کے کویتا نے الزام لگایا کہ ریاستی کانگریس حکومت نے مئی 2025 سے سماجی فلاحی اسکولوں کے لیے صفائی عملے کو دی جانے والی ₹40,000 ماہانہ رقم بند کر دی ہے، جس کے سبب صفائی کی ذمہ داری بچوں پر ڈال دی گئی ہے۔

ڈاکٹر ورشنی نے اپنے بیان کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ "شْرمدان” (خدمت خلق) اور صفائی کی تربیت کا حصہ ہے، نہ کہ کسی بھی طرح کا استحصال۔
انہوں نے کہا کہ ان کے بیان کو 2.5 گھنٹے کی میٹنگ سے توڑ موڑ کر پیش کیا گیا، جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی “ہمارا مقصد ان طلبہ کو ذمہ دار شہری بنانا ہے، نہ کہ ان کا استحصال کرنا۔”

یہ معاملہ نہ صرف اسکولوں میں طلبہ کے ساتھ ہونے والے برتاؤ پر سوال اٹھاتا ہے بلکہ ذات پات کی حساسیت اور انتظامی شفافیت پر بھی بحث کو جنم دیتا ہے۔ اب سب کی نگاہیں NCSC کی رپورٹ اور ریاستی حکومت کے آئندہ اقدام پر مرکوز ہیں۔

Leave a Comment