ایڈوکیٹ آمنہ سحر بنت عبد الحلیم
ابھی کچھ دن پہلے کی بات ہے زیادہ وقت نہیں گزرا جب سیاہ کعبے کے گرد سروں کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا اس زمین کے کونے کونے سےکیا مرد کیا عورتیں کیا بچے سب جمع ہوئے تھے اس کی وحدانیت کے اقرار کر رہے تھے اس کے اکیلے سچے معبود ہونے کی گواہی دے رہے تھے زار وقطار روتے ہوئے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے اس کے دربار میں صرف دو سفید کپڑے میں خود کو چھپائے اپنے حاضر ہونے کابآواز بلند اعلان کر رہے تھے اس سے اطاعت کا اقرار کر رہے تھے
اور اپنے موبائل پر ٹی وی سکرین پر دیکھتے ہوئے ہزاروں دلوں اور آنکھوں کو بیک وقت ٹھنڈک اور حسرت پہنچ رہی تھی ٹھنڈک اس لئے کے آج سے 1400 سال پہلے جس عظیم انسان نے اس وحی کو اس پیغام الہی کو انسانوں تک پہچانے کا پہلی بار ذمہ اٹھایا تھا تب اس پہلی بار اسے ماننے والےاس کو سچ جاننے والے صرف تین لوگ تھے ان کی بیوی ان کا دوست اور ان کا بھتیجا تھے باقی لوگ ان کا مذاق اڑا رہے تھے انہیں جھوٹا بتا رہے تھے انہیں کاہن بول رہے تھے انہیں ساحر ، جادوگر بتا رہے تھے ایک وقتی فیز سمجھ رہے تھے وقتی جنون بتارہے تھے لیکن وقت نے دیکھا وقت لگا اور ان کا پیغام وقت سے آزاد ہوکر یہاں تک پہنچ گیا وہ جس نے لوگوں کے دلوں سے جھوٹے معبودوں کو اور خانہ کعبہ کی سیاہ عمارت سے رنگ برنگے جھوٹے بتوں کو ہٹایا تھا 23 سال کی محنت لگی تھی لیکن اس پکار کا اثر دیکھیے کہ آج کتنے لوگ جمع ہوئے وہ جنہیں اس وقت کے کافر یعنی مکے کے لوگ کہتے تھے کہ کوئی ان کا نام لیوا نہ ہوگا کہ ان کا کوئی وارث نہیں ان کا کوئی بیٹا نہیں جس سے نسل چل سکے وہ انہیں ابتر کہہ کے پکارتے تھے کہ جو دین لے کر آئے کون آگے چلائیگا لیکن آج دیکھیے کتنے لوگ ان کا نام لے رہے ہیں کتنے لوگ ان کے رسالت کو مانتے ہیں انکے اوپر نازل اللہ کے کلام کو سچ مانتے ہیں انہیں اللہ کا آخری رسول مانتے ہیں ہم جانتے ہیں مانتے ہیں وہ اللہ کا رسول ہے اور ان پر اللہ کا کلام اترا ہے اس کو سچ مانتے ہوئے لاکھوں کا مجمع اسی عمارت اس اللہ کے گھر پر اس سیاہ مقدس سیاہ عمارت کے اطراف سفید کپڑوں میں ملبوس اللہ کی وحدانیت اور اس رسالت کا بیک وقت اقرار کر رہے تھے اسمان سے زمین تک زمین سے اسمان تک اس خانہ کعبہ کے ہر کونے کونے سے ایک ہی اواز گونج رہی تھی "لبیک اللہم لبیک” "میں حاضر ہوں میں حاضر ہوں”۔۔۔
اور حسرت یہ کہ ہم وہاں نہیں ہم اللہ کے گھر میں نہیں ہم اس شہر میں نہیں ہیں جہاں کلام اللہ اترا تھا اس مہینے میں اس شہر میں ہونا کیا بابرکت ہے جہاں انسانوں کے لیے اللہ کا آخری پیغام ا ترا تھا اب انسانیت کے لیے کوئی پیغام اترنےوالا نہیں ہے اب کوئی جن وانس ایسا نہیں ہے کہ جس پہ اللہ کا کلام اتر سکے اللہ کی وحی پہنچ سکے اور جو یہ دعوی کرے وہ جھوٹا ہے کذاب ہے سوائے حضرت عیسی علیہ السلام کے۔۔۔ کیا بابرکت لوگ اس وقت جمع ہوئے تھے اس بابرکت مہینے میں اس بابرکت راتوں میں جس میں سے ایک رات شاید وہ رات ہو سکتی ہے جہاں پہلی بار غار حرا میں ایک کامل پیارے انسان پر اللہ کے سب سے امانت دار فرشتے نے پہلی وحی اقرا کہہ کر پڑھا تھا اور اسی کے ساتھ وہ اللہ کے آخری رسول قرار ہوئے تھے
کیسی ٹھنڈک تھی اور کیسی حسرت تھی جو لاکھوں کروڑوں لوگوں کوبیک وقت رلا بھی رہی تھی اور سکون بھی دے رہی تھی
دوسری تصویر غزہ کی دیکھیے اسی اللہ کو ماننے والے ان رسول کی رسالت کی گواہی دینے والےمر رہے ہیں کوئی اثر نہیں کوئی خبر نہیں یہ بھی وہی لوگ تھے جو ان کی رسالت کو مان رہے تھے اور اللہ کی وحدانیت کا اقرار کررہے تھےاس کے اکیلے سچے معبود ہونے کی گواہی دیتے ہوئے مر رہے تھے ان کی آخری سانس کلمہ شہادت پڑھتے ہوئے نکل رہی تھی کیا بچے کیا مردکیا عورتیں سبھی مررہے ہیں لاشیں ہی لاشیں ہیں مردہ اجسام لہو لہو وجود زخمی بدن سے سسکتی زبانوں سے روتے روتے لاالا اللہ پڑھ رہے ہیں آپ نے دیکھا ہی ہوگا نہ چاہتے ہوئے کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی تصویر آنکھوں سے گزر ہی جاتی ہے کوئی ویڈیو دھماکوں کی شدت سے آسمان کی طرف اچھلتے ہوئے انسانوں کی دیکھی ہی ہوگی اور وہ ویڈیو تو دیکھا ہوگا اپنا خصوصی شناختی نشان لیے ایمبولنس چلی جا رہی تھی اور اسی پر انہوں نے فائر کھول دیا تھا تواتر فائر ۔۔۔۔وہ ویڈیو جس میں بلیک ہوتی اسکرین پردو ہی اواز یں آرہی تھی پہلی گولیوں کی آواز اور دوسری اللہ کی وحدانیت کا اقرار کرتی ہوئی آواز لا الہ الا اللہ پڑھتے ہوئے شہادت دیتی ہوئی آواز ، اللہ اور آخری رسول کی گواہی دیتی ہوئی زخمی زخمی آواز سنی ہوگی کیا وہ اس لئے مارے جارہیے ہیکہ ایک اللہ کو مانتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری رسول مانا تھا مررہے ہیں پھر بھی اسی ایک اللہ کو پکاررہے ہیں توبہ کررہے ہیں معافی مانگ رہے ہیں ٹوٹے جلے گھروں کے ملبوں پر کھڑےاپنوں کی لہو لہو نعشیں بازؤوں میں اٹھائے یہی شہادت دہرا رہے ہیں وہی اللہ کے ماننے والے وہی رسول کے ماننے والے ہیں یہ بھی وہی شہادت دے رہے ہیں جو 15 دن پہلے وہ لوگ دےرہے تھے پھر ان دونوں میں اتنا فاصلہ کیسا۔۔ وہ کون لوگ تھے جو کہاں چلے گئے جن پر ان لوگوں کا کوئی اثر نہیں ہورہا ہے اگر ہورہا ہے اثر تو چپ کیوں ہیں جس حق کی گواہی دے رہے تھے اسی حق کے لیے اب کیوں نہیں کھڑے ہورہے ہیں یہ نہیں کیوں کہہ رہے ہیں کہ یہ غلط ہے یہ ظلم ہے بندوق اٹھانے والی بات نہیں گولیاں چلانے کی بات نہیں بس ظلم کو ظلم۔ کہنے کی بات ہے
ابھی کچھ سالوں پہلے کی بات تھی جب میرا اور آپ کا بچپن تھا آپ نے بھی دیکھا ہوگا ہم نے بھی دیکھا ہے ہزاروں لوگ اپنے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڈز لے کر گھر سے باہر نکلتے تھے کبھی اسرائیل کے ایمبسی کے سامنے کبھی امریکہ کے ایمبسی کے سامنے اور کہیں کسی چوک پر جمع ہوتے تھے اپنا احتجاج درج کرنے آجاتے تھے ان کا احتجاج یہ بتاتا تھا وہ اس کے خلاف ہیں انہیں تکلیف پہنچی ہے وہ ان کے دکھ میں شریک ہیں بدن أن کے زخمی ہیں دل ان کے دکھی ہیں وہ اس احتجاج سے بتاتے تھے کہ یہ جو ہو رہا ہے وہ غلط ہو رہا ہے اسے رکنا چاہیے ہیں اکثر جمعہ کی نماز کے بعد بڑی خاموشی کے ساتھ اور کبھی نعرے لگاتے ہوئے کبھی سیاہ پٹی باندھتے ہوئے وہ اپنا احتجاج ظاہر کرتے تھے ایک دو گھنہ پھر واپس اپنی جگہ پہ منتشر ہو جاتے تھے کم از کم اتنا تو لگتا تھا وہ ان کے ساتھ شریک ہیں ان کا احتجاج حکومتوں تک پہنچتا تھا پھر حکومتیں بھی اسٹیٹمنٹ جاری کرتے تھے کہ جنگ رکنا چاہیے اک عالمی دباؤ تو بنتا تھا مظلموں کو اتنا تو لگتا تھا کہ وہ اکیلے نہیں ہیں وہ تنہا نہیں ہیں زمیں کے کسی اور کونے پر کچھ اور لوگ ہیں جو ان کے دکھ درد کو محسوس کرتے ہیں اور ظالموں کو بھی لگتا تھا کہ کوئی ہے جو ان پر نظر رکھے ہوئے ہیں وہ من مانی کرتے ہوئے ہر جگہ بم برسا نہیں سکتے۔
اور اب کیسی خا مشی ہے ہر طرف کیسا سکوت ہے حکومتی ایوانوں میں گلیوں میں بازاروں میں خاموشی ہے بے حسی بھری خا مشی۔ ۔بس تصویریں دیکھتے جائینگے اسکرول کرتے جائیں گے تھوڑی دیر کے لئے موبائل بند رکھینگے کیونکہ دل و دماغ بوجھل ہو گئے ہیں اور پھر کچھ اور دیکھ لینگے جو فریش کر سکے وہ لوگ کون تھے جو جمع ہوتے تھےاور کہتے تھے جو جنگ ہو رہی وہ رکنی چاہیے اور اس میں ضروری نہیں کہ وہی لوگ شامل ہوتے تھے جو اللہ کی وحدانیت کو مانتے تھےاس میں ہر وہ انسان شامل ہوتا تھا جس کا دل دکھتا تھا جو جنگ روکنا چاہتا تھا ہے مگر رکیے جنگ ہے یہ؟
واللہ یہ جنگ نہیں ہے یہ جنگ نہیں ہے جنگ دونوں اطراف سپاہیوں کے درمیان لڑی جاتی ہے دونوں اطراف ہتھیار لیے ہوئے سپاہیاں لڑتے ہیں کسی کھلے میدان میں۔۔۔
یہ کیا جنگ ہے ایک طرف ہتھیار اٹھائے ہوئے بنکروں میں چھپے ہوئے لوگ ہیں جو خود کو چھپائے برابر میزائل اور بم برسا رہے ہیں دوسری طرف کھلا شہر ہے رہائشی عمارتیں جس جگہ چاہے بم برسائیے رہائش گاہیں ہسپتال اسکولز کھیل کے میدان دفاتر کوئی جگہ محفوظ نہیں رہیں، سب تباہ و برباد ہورہا ہے ہوگیا ہے کچھ بھی کہیں پر بھی باقی نہیں بچا۔
جنگ ایسے تو نہیں ہوتی جنگ اسے تو نہیں کہتے شاید مہذب انسان کہلائے جانے والے اس ترقی یافتہ دور میں جنگ اسے کہتے ہو گے لیکن جنگ تو کھلے میدانوں میں سپاہیوں میں لڑی جاتی ہے جہاں نہتے لوگ نہیں ہوتے جہاں عورتیں اور بچے نہیں ہوتے جنگ کا تو صدیوں سے ایک ہی اصول رہا تھا کہ یہ جنگی میدانوں میں مرد لڑا کرتے تھے شہر سے دور کسی ایک میدان میں جہاں دونوں طرف کی افواج ہوتی تھی اور ہار جیت کا فیصلہ وہاں ہوتا تھا دونوں طرف کے لوگوں کو عورتوں کو بچوں کو محفوظ رکھا جاتا تھا واللہ یہ جنگ نہیں ہے یہ نسل کشی ہے یہ ظلم ہے یہ تباہی ہے یہ غارتگری ہے یہ انسانیت کے خلاف قتل عام ہے کچھ بھی بولیے لیکن جنگ مت بولیے تاریخ سے ہزار بیزار ہی سہی لیکن اپنے اسکولز کی کتابوں میں اتنا تو پڑھا ہوگا کہ جنگ کہاں کہاں لڑی گئی تھی پہلی بار تو نہیں اس دنیا میں جنگ لڑی جا رہی ہے اس زمین پر بادشاہوں نے اپنے ملک کو بچاتے ہوئے اپنے اپنے شہر کو بچاتے ہوئے یا کسی اور شہر کو اپنے قبضے میں لینے کی خواہش رکھتے ہوئے جنگیں لڑی ہیں لیکن کہاں لڑیں۔ دور میدانوں میں شہروں سے دور لڑی گئیں اور کبھی ہوئی بھی شہروں میں تو محصور ہوتے ہوئے لڑی گئیں آپ انہیں ظالم وحشی کہیے مگر وہ اپنی جنگوں میں حتی الامکاں شہر بچایا کرتے تھے یاد ہےپانی پت کی جنگ بکسر کی جنگ پلاسی کی جنگ کوئی بھی جنگ اٹھا لیجیے پہلی جنگ عظیم تک تو یہ اصول تھا پھر دوسرے جنگ عظیم میں کسی وحشی اور ظالم جمہوری صدر نے دو شہروں پر بم برسائے اور جنگ کے اصول بدل گئے اب ایک طرف نہتے لوگ ہوتے ہیں آباد شہرہوتے ہیں اور ان پر کہیں دور اے سی کےٹھنڈے کمروں سے ان پر میزائل برسائے جاتے ہیں اور یہ لوگ خود کو مہذب، جمہوری کہتے ہیں
چلیے اک لمحہ کے لئے فرض کرلیتے ہیں یہ ارض مقدس یہودیوں کے لیے ہے اللہ نے عنایت کی تھی بے شک کی تھی بے شک ہم مانتے ہیں کہ فرعون کے غرق ہونے کے بعد ارض مقدس بنی اسرائیل کو دی گئی تھی لیکن یہ بھی کہا تھا کہ جب جب ظلم کرو گے نافرمانی کرو گے تم پر لوگ مسلط ہونگے سورہ بنی اسرائیل کی شروع کی آیتوں میں دوبار کا توذکر آتا ہے لیکن اس کے بعد یہ بھی کہا گیا کہ جب جب کرو گے تب تک یہی دہرایا جائگا چلیے پھر بھی مان لیتے ہیں کہ اس پر یہودیوں کا حق ہے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے بعد سے ان کا رسالت اور موسی
علیہ السلام کی وراثت سے حق ختم ہوچکا ہے یہ ادھر ابراہیم علیہ السلام کے بنو اسحق سے بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہو چکی ہے پھر بھی یہ مان لیتے ہیں کہ اس پر ابھی بھی یہودیوں کا حق ہے تو یہ تو ان سے نکل چکا تھا یہ شہر پر تو ان کا قبضہ ہٹ چکا تھا اسے تو کسی اور نے فتح کر لیا تھا یہ کسی اور کا جیتا ہوا شہر پھر ان کو لینا تھا تو جنگ کر کے لینا تھا انہوں نے دھوکے سے لیا اور اب اسکے شہریوں کو ہٹارہے ہیں نازی ہٹلر نے جب یہودیوں کو. چن چن کے مارا تھا تب انہوں نے پناہ کے لیے فلسطین سے مدد مانگی انہیں کو پناہ کے لیے یہاں بسایا گیا عظیم تر برطانیہ کی طرف سے فلسطین میں ارض مقدس پر پناہ دی گئی تھی فلسطنیوں نے اپنے دل، دروازے اور شہر کو کھولا تھا اور جیسے ان کی فطرت قران میں بتائی گئی انہوں نے وہی کیا یہ وہی تھے جس نے اپنے رسولوں کو مارا تھا اپنے محسنوں کو قتل کیا تھا یہ وہی ہیں اورانہوں نے وہی کیا جیسے ان کی فطرت بتائی گئی انہوں نےفلسطین کے پیٹھ پیچھے چھرا گھونپ دیا گھر زمین پرقبضہ کرتے کرتے یہ یہاں تک آگئے پناہ کے لیے آئے ہوئے لوگوں نے پناہ دینے والوں کا وہ حال کیا کہ انہیں خود پناہ کی ضرورت ہے
حماس کے حملہ کو 11 اکتوبر سے دیکھنے کی بات نہیں ہے ایسا نہیں ہے کہ کسی ایک دن کسی ایک اجلی صبح یہود کی دشمنی میں بے وجہہ ہی حماس نے اٹھ کر اسرائیل پر حملہ کیا ہو اور کیا تو ایسے کیا کہ ناقابل تسخیر کہلائے جانے والے دنیا کا سب سے مضبوط اور چالاک انٹلیجنس والوں کو وہ زک پہنچائی کہ وہ تلملا اٹھے اس منظر کو بنا پس منظر سمجھنا احمقانہ ہے حقیقت سے آنکھ چرانا ہے
خیر اگر مان بھی لیں کہ غلطی حماس کی ہے اور کچھ غلطی ہے جب مقابلہ طاقتور دشمن سے ہو تو بنا حساب کتاب کے حملہ کر دینا بے وقوفی ہی ہوتی ہے اور جب ان کے مقابلوں کی تاریخ رہی ہو اور ان کے نقصانات کا پتا بھی ہو کہ کتنا کہاں اور کس کس کو اٹھانا پڑ سکتا ہے تو ایسا کرنے میں بہت احتیاط کرنا چا ہیے
پھر بھی اس دلیل کو مان لیں تو کب تک یہ بدلہ لینگے کب تک ہو گا کب رکیگی اک کا بدلہ ہزار کو مار لے رہے ہیں طبی عملہ کو کیوں ماررہے ہیں جان بوجھ کر اسکولز کو اسپتالوں کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے شہر کا شہر کھنڈر بنادیا ہے یہ حملہ کے مظہر میں کچھ اور مقصدہے جو پورا کیا جارہا ہے قبضہ کرنا ہے اور وہی ہورہا ہےیہ آنے والی نسل کو ماررہے ہیں کہ وہ سر اٹھا ہی نہ سکے لہو لہو بچے ہر تصویر میں نمایاں نظر آتے ہیں اور ساری دنیا خاموش تماشائی نظارہ کررہی ہیں دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کے لئے جو اصول وضع کئے گئے اس کا کھلم کھلا مذاق بنا رہے ہیں اور سب چپ چاپ کوئی یہ نہیں سوال کررہا ہے کہ اور کب تک چلے گی کتنے عرصے تک چلیگی کتنا ٹارگٹ پورا کرنا ہے پورے شہر کو خالی کر کے کھنڈر بنا دیا ہے ان پر امداد کے راستے بند کردئے ہیں شہر کو جیل بنا دیا ہے کچھ مہینہ پہلےلاس اینجلس میں آگ بھڑک اٹھی تھی جو عمارتوں کو درختوں کو خاکستر کررہی تھی لوگ جان بچانے بھاگ رہے تھے پھر دنیا نے دیکھادو دن کے اندر ہی جنگ بندی کا معاہدہ ہو گیا جب خود کے گھر میں آگ لگی تو دنیا کے خود ساختہ چوہدری کو دنیا میں لگی آگ بجھانے کا احساس ہوا اور آنافانا جنگ بندی کا معاہدہ ہوگیا۔ اور پھر دنیا نے یہ بھی دیکھا کس نے وعدہ خلافی کی اس میں دھوکہ دیا کس کی فطرت میں دھوکا ہے کون کر سکتا ہے اس کو جاننے کے لیے کسی ریسرچ کی ضرورت نہیں ہے۔
خیر چھوڑیے مجھے حاکمانان وقت سے مطلب نہیں ان کی مجبوریاں مصلحتیں منافقتیں وفاداریاں اور بے وفائیاں وہ جانے ۔
مجھے سروں کے ٹھاٹھیں مارتے اس سمندر سے مطلب ہے جو طواف کر رہا تھا ان لوگوں سے مطلب ہے جو انہیں دیکھ کر خوش اور دکھی ہو رہے تھے یہ لوگ کہاں ہیں یہ آج کھڑے ہو جائیں یہ آج بتا دیں کہ ہم اس کے خلاف ہیں یہ اچھا نہیں لگ رہا ہے اسے روکنا چاہیے اسے ختم ہونا چاہیے یہ رکنا چاہیے توآپ کو کیا لگتا ہےموثر نہیں ہوگا اس جمہوری کہلائی جانے والی دنیا میں جہاں90 فیصد حکومتیں عوام کی رائے سے بنتی ہے بظاہر جہاں حکومتیں اور اقتدار کی منتقلی عوام کی رائے سے ہوتا ہے جہاں بظاہر ہر فیصلہ عوام کے مفاد میں ہوتا ہے وہاں عوام کی رائے سنی نہیں جائیگی لیکن شرط یہ ہے کہ عوام اکثریت میں ہو ایسا ہو ہی نہیں سکتاجہاں حکومتیں عوام کی رائے سے بنتی ہے وہاں عوام کی رائے کا احترام نہیں ہوگا حکومت اپنے آپ کو اور حکمران خود کو طاقتور کتنا ہی مان لیں جہاں عوام آتی ہے عوام کی رائے آتی ہیں وہاں انہیں جھکنا ہی پڑتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ وہاں پہ عوام اکثریت میں ہو۔۔۔ضروری نہیں ہے کہ ظلم کے خلاف ہمیشہ ہتھیار اٹھا کر ہی مقابلہ کیا جائےبس خود کو اٹھانا ہوتا ہے اپنی اواز کو اٹھانا ہوتا ہے ہم نے جمہوریت کی طاقت کا اندازہ نہیں کیا ہے دراصل ہم نے جمہوریت کو سمجھا ہی نہیں ہے نہ ہی اس کی اصل طاقت کو کبھی استعمال کیا ہے جمہوری طریقہ سے بھی ظلم روکا جاسکتا ہے یہ کر کے دیکھیں شاید اس بار منظر بدل جائے۔۔
اک قدم اٹھانے کی دیر ہے
منظر بدل بھی سکتا ہے
سنگلاخ زمینوں سے
رستہ نکل بھی سکتا ہے۔
ختم شد۔