ڈاکٹر ظفرالاسلام خان
شام ،جسے سوریا یا سوریہ بھی کہتے ہیں، زمین پر قدیم ترین آباد علاقہ ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ شام اور اس کے پڑوسی ملک عراق میں ہی انسانی تہذیب پیدا ہوئی۔ دمشق دنیا کے قدیم ترین شہروں میں گنا جاتا ہے۔ شام میں عصر حجری سے لے کر آرامی، سلوقی، رومانی، بیزنطی، اموی اور عثمانی وغیرہ ادوار کے آثار موجود ہیں۔ مسلمانوں نے ابوعبیدہ بن الجراح کی قیادت میں اس علاقے کو سنہ۶۳۶ء میں حضرت عمرؓ کے زمانے میں فتح کیا۔ خلافت راشدہ کے بعد اموی خلافت میں قائم ہوئی اور ۱۳۲ سال چلی۔ اس نے دمشق کو اپنی راجدھانی بنایا۔صلیبی جنگوں کے دور میں اس علاقے کو بہت نقصان پہنچا یہاں تک کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے صلیبی فوجوں کو حطین کے مقام پر ۱۱۸۷ ء میں شکست فاش دی۔ سلطان صلاح الدین کا دارالسطنت بھی دمشق تھا۔ عثمانی دورحکومت میں شام کی بڑی ترقی ہوئی اور استنبول سے حجاز تک جانے والی ریلوے لائن بچھائی گئی جو شام سے گذرتی تھی ۔ شام کے اندر وہ ریلوے لائن اب بھی کام کرتی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانیہ، فرانس اور قیصری روس نے مل کر سایکس پیکوSykes-Picot خفیہ معاہدہ کیا جس کے تحت شام کو فرانس کے حوالے کر دیا گیا اور فلسطین کو برطانیہ کے جبکہ سنہ ۱۹۱۷ میں روس میں بولشیوک انقلاب آنے پر روس نے خود کو اس معاہدے سے الگ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے خاتمےپر اس سامراجی معاہدے پر عمل شروع ہوا اور فرانس نے شام پر قبضہ کر لیا۔ پہلی جنگ عظیم کے ختم ہونے پر شام کے عربوں نے امیرفیصل کی سرکردگی میں ایک کانفرنس منعقد کر کے وہاں عرب حکومت قائم کرلی تھی لیکن فرانس نے اس کو نہیں مانا اور ۸؍مارچ۱۹۲۰ کو فوج کشی کر کے شام پر قبضہ کر لیا۔
دمشق پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد فرانسیسی کمانڈر جنرل گورو Gouraud شہر میں واقع سلطان صلاح الدین کے مقبرے پر گیا اور ان کی قبر پر اپنا فوجی بوٹ رکھ کر تاریخی کلمہ کہا: ”صلاح الدین! ہم واپس آگئے ہیں“۔ واضح تھا کہ فرانسیسی صلیبی جنگوں میں صلاح الدین کے ہاتھوں مکمل شکست کو صدیوں بعد بھی نہیں بھولے تھے۔ اسی طرح جب اکتوبر ۱۹۱۸ میں برطانوی قائد جنرل النبی نے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد شہر کا دورہ کیا تو انھوں نے اعلان کیا:’’آج صلیبی جنگیں ختم ہوگئیں‘‘۔ یوروپ کو وہ سب یاد ہے جبکہ مسلمان بڑی تیزی سے سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم میں معاشی طور پر تباہ ہونے کے بعد فرانس نے شام کو آزادی دیدی اور ۷؍اپریل۱۹۴۶ کو نیا شام وجود میں آیا۔ لیکن فرانس نے اسی کے ساتھ اپنا انتقام بھی لےلیا جو آج تک شام اور علاقے کے لئے مسئلہ بنا ہوا ہے، یعنی اس نے شام سے ایک حصہ کاٹ کر اسے ’’جمہوریہ لبنان ‘‘ کا نام دے کر اس کو عیسائیوں کی آئینی بالادستی میں دے دیا یعنی جو آئین فرانس نے لبنان پر آزادی دیتے ہوئے تھوپا تھا اس میں لکھا ہوا ہے کہ لبنان کا صدر جمہوریہ مارونی عیسائی ہو گا۔ لبنانی صدر جمہوریہ کے پاس فرانس اور امریکہ کی طرح مکمل اختیارات ہوتے ہیں۔
شام میں متعدد قومیں اور مذاہب کے ماننے والے بستے ہیں۔ یہاں کی غالب آبادی (۶۳فیصد) سنی مسلمانوں کی ہے۔ یہاں کے ایک گاؤں معلولہ میں آرامی زبان بولی جاتی ہے جو حضرت عیسی علیہ السلام بولتے تھے۔ دوسرے گروپ یہ ہیں: علوی (۱۰فیصد)، عیسائی (۱۰فیصد)، کرد(۹ فیصد)، دروز (۳ فیصد)، اسماعیلی (۱ فیصد)، دوسری اقلیتیں (۲ فیصد)۔ شام کے ۷۴ فیصد مسلمان حنفی مسلک کے تابع ہیں۔
اس علاقے کو بعد میں منگول و تاتاریوں نے بہت نقصان پہنچایا۔ مملوک فوجوں نے ان کو عین جالوت میں سنہ ۱۲۸۰ء میں ہرایا۔ پھر تیمورلنگ نے بھی سنہ۱۴۰۰-۱۴۰۱ء میں اس علاقے کو تاراج کر کے بہت نقصان پہنچایا۔ عثمانیوں نے اس علاقے پر مملوک فوجوں کو ہرا کر اگست۱۵۱۶ء میں قبضہ کیا جو اگلی چار صدیوں تک چلا اور پہلی جنگ عظیم میں عرب بغاوت کی وجہ سے ختم ہوا جس کے دوران سازش کر کے فرانس اور برطانیہ نے اس پورے علاقے کو آپس میں تقسیم کرنے کی سازش کی۔
آج جو علاقے شام، فلسطین، لبنان اور اردن کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ سب پہلی جنگ عظیم تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھے۔ عثمانی دورحکومت میں سیاسی استحکام کی وجہ سے اس پورے علاقے کی معاشی اور تجارتی ترقی ہوئی جس کی وجہ سے آبادی میں بھی بہت اضافہ ہوا۔ عثمانی عہد کے آخری حصے میں یعنی ۱۸۴۰ء سے لے کر ۱۹۱۴ء تک اس علاقے میں بڑی تعلیمی ترقی ہوئی، چھاپے خانے لگائے گئے، کتابوں، مجلات اور اخبارات کی اشاعت شروع ہوئی، جدید مدارس، کالجز اور یونیورسٹیاں قائم ہوئیں جس کی وجہ سے ثقافتی اور تہذیبی اعتبار سے شام کو پوری عرب دنیا میں ایک تفوق حاصل ہو گیا۔
باقاعدہ آزادی سے پہلے شام میں متعدد حکومتیں فرانسیسی مینڈیٹ کے تحت قائم ہوئیں جیسے هاشم الاتاسی کی حکومت(دسمبر۱۹۳۶) اور شکری القوتلی کی حکومت(۱۹۴۳)۔سنہ ۱۹۴۶ء میں آزادی کے بعد شام میں یکے بعد دیگرے فوجی انقلاب آئے جیسے حسنی الزعیم کا انقلاب(مارچ۱۹۴۹)، شامی الحناوی کا انقلاب(۱۹۴۹)، شیشکلی کے دو انقلاب(دسمبر۱۹۴۹/۱۹۵۱) اور جنرل فیصل الاتاسی کا انقلاب(۱۹۵۴)۔ غرض اس عرصے میں شام میں ۸؍فوجی انقلاب ہوئے جس کا نتیجہ واضح ہے کہ سیاسی اور اقتصادی افراتفری پھیل گئی۔
اس دوران مصری صدر جمال عبدالناصر کی عرب قومیت کی جذباتی تحریک کو بہت عوامی تایید ملی جس کے نتیجے میں ۱۹۵۸ء میں مصر اور شام کا سیاسی اتحاد ہو گیا اور ایک نیا ملک ’’ الجمہوریۃ العربیۃ المتحدۃ‘‘ (متحد عرب جمہوریہ یا یونائٹڈ عرب ریپبلک) وجود میں آیا۔ لیکن ۱۹۶۱ء میں ایک اور فوجی انقلاب شام میں آیا اور یہ اتحاد ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد الیکشن ہوا اور ناظم القدسی کی صدارت میں نئی حکومت بنی۔ لیکن یہ حکومت لمبے عرصے نہیں چلی بلکہ ۸؍مارچ۱۹۶۳ کو بعث پارٹی سے متأثر فوجی افسروں نے حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ تب سے شام پر کسی نہ کسی شکل میں بعث پارٹی کی حکومت ۸؍دسمبر ۲۰۲۴ تک رہی۔ بعث پارٹی ہی کے کچھ دوسرے فوجی افسر ۱۹۶۶ء میں ایک اور فوجی انقلاب لائے۔ پھر جلد ہی کچھ دوسرے بعث پارٹی کے فوجی افسروں نے ۱۹۷۰ میں ”تحریکِ تصحیح“ کے نام سے ایک اور فوجی انقلاب برپا کیا جس کے نتیجے میں اس وقت کے وزیردفاع اور فضائیہ کے کمانڈر حافظ الاسد صدر بنے جس کے بعد سے موروثی حکومت کا سلسلہ شروع ہوا۔ سنہ۲۰۰۰ء میں حافظ الاسد کے انتقال کے بعد ان کا بڑا بیٹا بشار الاسد صدر بنا اور ۸؍دسمبر تک اس عہدے پر قائم رہا۔اکتوبر ۱۹۷۳ء میں حافظ الاسد نے مصری صدر انوار السادات کے ساتھ مل کر اسرائیل سے اپنے مقبوضہ علاقے واپس لینے کی کوشش کی لیکن اسرائیل کو امریکہ کی مکمل فوجی تایید کی وجہ سے ان کوئی زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ ۱۹۷۵ء میں حافظ الاسد نے لبنان میں امریکہ کے کہنے پر فوجی مداخلت کی اور اپنے پرانے ساتھیوں (فتح اور سنی ملیشیا) کی گردن توڑ کر ہارے ہوئے عیسائی ملیشیا (کتائب وغیرہ) کو دوبارہ لبنان کی سیاست پر حاوی کر دیا۔ اسد کی فوج نے سنی میلشیا(عرب لبنان فوج) کی کمر توڑ دی اور اس کے قائد احمدالخطیب کو گرفتار کر کے شام لے گئی، جس کے بعد سے اس کا کوئی اتہ پتہ نہیں۔ شامی فوج لبنان میں ۲۰۰۵ تک رہی اوربالآخر پورے ملک کی مخالفت کی وجہ سے ملک چھوڑنے پر مجبوری ہوئی۔
شام میں ۱۹۷۹ میں الاخوان المسلمون کی قیادت میں اسد کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف عوامی تحریک شروع ہوئی جس کے بعد اسد حکومت کی زیادتیاں بہت بڑھ گئیں۔ الاخوان المسلمون کے ممبران کو صرف ممبرشپ کی بنیاد پر سزائے موت دینے کا قانون بنا جو بشار الاسد کے سقوط تک جاری رہا۔
حافظ الاسد اور اس کے بعد اس کے بیٹے نے مظالم کے سارے ریکارڈ توڑ دئے۔ صدام حسین کے مظالم کے علاوہ ایسی بربریت کسی اور عرب ملک میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ اسد کا شام مخبروں، بےلگام مسلح میلیشیا گروہوں اور سیکیوریٹی کے نام پر ہزاروں تعذیب خانوں اور جیلوں کا نام تھا۔ حافظ الاسد کے غیرمعمولی مظالم میں جون ۱۹۸۰ میں واقع تدمر جیل کا قتل عام شامل ہے جب ۱۲۰۰؍جیل بندسیاسی مخالفین کو آدھے گھنٹے میں مشین گن سے قتل کر دیا گیا تھا۔ فروری ۱۹۸۲ میں حافظ الاسد نے حماہ شہر میں قتل عام کیا جس کے دوران ۰۰,۲۰ سے ۰۰۰,۴۰ لوگ ہوائی بمباری اور گولہ باری سے قتل کئے گئے اور حماہ کے قدیم تاریخی شہر کو تباہ و برباد کر دیا گیا کیونکہ وہاں کی عوام نے کھل کر اسد حکومت کے خلاف مظاہرے کئے تھے۔
اپنے معارضین کو ڈرانے، دھمکانے، پٹوانے اور قتل کرانے کے لئے حافظ الاسد نے سابق نازی افسروں کی مدد سے بڑا خطرناک سیکیوریٹی سسٹم بنایا تھا جو جاسوسی اور مشکوک لوگوں کی تعذیب میں بے مثال تھا۔اس مقصد کے لئے درجنوں ملیشیا بنائی گئی تھیں۔ جن میں سب سے خطرناک ’’شِبّیحہ ‘‘ تھی جو چھٹے ہوئے غنڈوں پر مشتمل تھی اور اسد کے مخالفیں کو مارنے، پیٹنے، ان کے گھر جلانے وغیرہ کا کام کرتی تھی ۔ ان ساری میلیشیا تنظیموں کا قائد حافظ الاسد کا بھائی اور بشار کا چچا رفعت الاسد تھا جو موجودہ انقلاب کے بعد سے غائب ہے۔
شام کی موجودہ کشمکش ۱۸؍مارچ۲۰۱۱ء کو شروع ہوئی جب پورے عالم عربی میں عرب بہاریہ (الربیع العربی) کےنام سے انسانی و سیاسی حقوق کی بازیابی کی تحریک شروع ہوئی۔ اس کے اثرات ہر جگہ کچھ نہ کچھ پہنچے اور تونس اور مصر میں کچھ عرصے کے لئے نئی حکومتیں بھی بنیں لیکن جلد ہی بعض عرب حکومتوں، اسرائیل اور امریکہ کی کوششوں سے اس کو ناکام بنا دیا گیا۔ شام میں ۲۰۱۱ میں درعا شہر کے واقعات کے بعد یہ تحریک شروع ہوئی جب دیواروں پر نعرے لکھنے والے نوجوانوں کے خلاف اسد حکومت نے سخت کارروائی شروع کی۔ سختی کے ساتھ تحریک بھی زور پکڑتی گئی۔ جلدی ہی مختلف مسلح تحریکوں نے شام کو اپنی جولانگاہ بنا لیا جن میں دولت اسلامیہ(ISIS) بھی شامل تھی۔ کئی نیم آزاد علاقے وجود میں آئے اور بشارالاسد کی حکومت ایک چھوٹے سے علاقے میں محصور ہوکر رہ گئی۔ اس دوران ۲۱۰۰۶۰؍لوگ مارے گئے، لاکھوں زخمی ہوئے، ۷؍ملین شامی ملک چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور ہوئے اور بڑے بڑے شہر، قصبات اور گاؤں بمباری سے کھنڈر بن گئے۔
اس طاقتور عوامی تحریک کے باوجودایران، حزب اللہ اور روس کی مدد سے بشارالاسد کی حکومت قائم رہی۔ اس دوران آستانہ (قزاخستان)میں کئی میٹنگیں ہوئیں جن میں طے کیا گیا کہ شام میں جمہوری حکومت بنے جس میں تمام شہریوں اور علاقوں کی نمائندگی ہو۔ وعدہ کرنے کے باوجود بشارالاسد نے اندرونی طور پر کوئی تبدیلی نہیں کی اور آخر تک یہ سمجھتا رہا کہ روس، ایران اور حزب اللہ اس کو بچا لیں گے۔
اس صورتحال میں ملک کے مختلف حصوں پر مختلف طاقتیں قابض ہو گئیں۔ شمال میں ترکی اور ترکی نواز شامی فوج، مشرق میں امریکہ اور اس کی حلیف کردی اتحاد، شمال مغرب میں ادلب کے آس پاس ھیئۃ تحریر الشام (پرانا نام جبہۃ تحریر الشام) نیز بیسیوں چھوٹی مسلح تنظیمیں چھوٹے چھوٹے پاکٹس پر قابض ہوگئیں اور اب بھی ہیں۔ شام میں ۲۰۱۶ سے باغیوں اور اسد حکومت کے درمیان برابری کی صورت حال تھی۔ کوئی گروپ دوسرے کی زمین پر قبضہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔
موجودہ تحریک ۲۷؍نومبر کو شمال میں ادلب سے شروع ہوئی جہاں ایک بڑے علاقے پر ہیئۃ تحریر الشام کئی سال سے قابض تھی اور ایک حکومت چلارہی تھی۔اس نے ۲۱؍ دوسری چھوٹی تنظیموں کو ساتھ ملایا، ایک قیادت اور ایک جھنڈے کے تحت اسد کے علاقوں پر حملہ کرنے پر سب کو راضی کیا۔یوں سب سے پہلے انھوں نے شام کے دوسرے بڑے شہر حلب پر قبضہ کیا اور بالآخر تیزی سے حماہ اور حمص پر قبضہ کرتے ہوئے ۸؍دسمبرکی صبح کو دمشق پر قبضے کر لیا۔ یہ جدوجہد اسی رات بشارالاسد کے روس فرار ہونے پر ختم ہوگئی۔
حالات میں تبدیلی مشرق وسطی کے بدلتے ہوئے منظرنامے کی وجہ سے وجود میں آئی ہے۔ بشارالاسد کے تینوں مؤیدین اب اس پوزیشن میں نہیں تھے کہ وہ کسی بڑے پیمانے پر اس کی مدد کر سکیں۔ حزب اللہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں بہت کمزور ہو گیا تھا، ایران اپنے مسائل اور امریکی اور اسرائیلی حملوں کی دھمکیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ گیا تھااور روس یوکرین میں پھنسنے کی وجہ سے کوئی بڑی مدد دینے سے قاصر تھا۔ان حالات میں ۲۸؍نومبر۲۰۲۴ کو بشارالاسد روسی صدر پوٹین سے ملنے اور فوجی مدد کی درخواست کرنے گیا لیکن اس کو ٹکا سا جواب ملا کہ ہم شامی فوج کے بدلے جنگ نہیں لڑ سکتے ہیں۔ بالآخر بشارالاسد ۸؍دسمبرکی رات کو ہوائی جہاز سے دو ٹن ڈالر اور یورو وغیرہ لے کر بھاگ گیا اور اپنے قریبی رشتہ داروں تک کو آخر وقت تک بھنک نہیں لگنے دی بلکہ سب سے کہتا رہا کہ روسی فوجی مدد آ رہی ہے۔
موجودہ تحریک کی شروعات ایک سال قبل شروع ہوئی جب دھیرے دھیرے بشارالاسد اور ان کی حکومت کو دوبارہ عرب اور اسلامی دنیا میں قبولیت حاصل ہونا شروع ہوئی۔ برسوں سے بشار کی حکومت کو عرب لیگ اور او-آئی-سی سے باہر کر دیا گیا تھا۔اب ایسا لگا کہ جلد ہی عرب حکمراں اپنی پالیسی بدل کر بشارالاسد کو پوری طرح قبول کرلیں گے اور اس کی مدد کرنا بھی شروع کر دیں گے۔ اسی وقت سے ھیئۃ تحریر الشام نے تقریباً ۲۲؍ چھوٹے چھوٹےمسلح گروہوں سے بات کرنی شروع کی جن میں سے کچھ شمال میں بعض علاقوں پر قابض تھے اور کچھ جنوب میں۔ ان سب کی ایک مشترکہ فوجی قیادت بنائی گئی۔ جنگجو عناصر کی ایک جگہ ٹریننگ ہوئی، ایک جھنڈے کے تحت لڑائی کا آغاز کیا گیا جس میں ھیئۃ تحریر الشام اور ان کے حلیفوں نے شمال سے اور ان کے دوسرے حلیفوں نے جنوب سے شامی فوج کے خلاف نومبر کے اواخر میں تحریک شروع کی۔ اس کام میں کم سے کم خون بہایا گیا۔ اسد کی فوج نے ہر جگہ اسلحے ڈال دئے یا بھاگ گئی۔ ہر شہر میں سب سے پہلے جیل میں بند ہزاروں قیدیوں کو آزاد کرایا گیا۔
ہم نے تحریک کے فوجی قائد ابومحمد الجولانی(احمدالشرع) کےشروع کے تین ویڈیو دیکھے۔ پہلے میں وہ دمشق میں داخل ہونے کے بعد ایک میدان میں سجدہ کر رہے ہیں، دوسرے میں دمشق بلکہ شام کی سب سے اہم عبادت گاہ مسجد اموی میں جا کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں اور تیسرے میں ایک بڑے کمرے میں زمین پر بیٹھ کر لوگوں سے خطاب کر رہے ہیں جبکہ وہاں صوفے موجود ہیں ۔ ہر جگہ وہ ایک ہی کپڑا پہنے تھے۔ شہروں میں داخل ہونے والی فوج کو حکم تھا کہ گولیاں نہ چلائیں، سرکاری دفتروں کے اندر نہ جائیں، دوسری طرف تمام سرکاری عملہ کو اسد کے وزیراعظم جلالی سمیت یہ حکم تھا کہ آپ حسب سابق کام کرتے رہیں۔ چند دن بعد ادلب کے علاقے میں ھیئۃ تحریر الشام کی برسوں سے چلنے والی حکومت کے وزیراعظم محمدالبشیراور ان کے ساتھیوں نے گورنمنٹ کا کام ۱؍مارچ تک کے لئے سنبھال لیا ۔ اس عرصے میں نیا آئین بنایا جائے گا، الیکشن ہو گا اور باقاعدہ حکومت بنے گی۔
اسرائیل نے پہلے دن سے شام کے مقبوضہ جولان کے باہر بفر زون اور دوسرے علاقوں پر قبضہ کر لیا نیز شام کی فوجی طاقت، اسلحے، راکٹ، جنگی ہوائی جہاز، بحری بیڑہ پر حملہ کر کے تقریباً ۸۰ فیصد شامی فوجی طاقت کو ختم کر دیا ہے جس کی وجہ سے نہ صرف نئی حکومت کمزور ہو گی بلکہ اسرائیل کی جارحیت کے خلاف کوئی ردّعمل دینے کے لائق نہیں رہے گی۔ اسی کے ساتھ شام کے دوسرے علاقوں کو واپس لینے کی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں رہے گی اور اگر کوئی پڑوسی ملک بشمول اسرائیل لشکر کشی کرتا ہے تو اس کو روکنے کی کوئی طاقت بھی نئی حکومت کے پاس نہیں رہے گی۔
نئی حکومت کو بہت سے چیلنج درپیش ہیں۔ ایک طرف تو دو درجن کے قریب مسلح تنظیموں کے تناقضات دوبارہ ابھر کر سامنے آسکتے ہیں، دوسری طرف اپنے تسلط سے باہر دوسرے علاقوں کو واپس لینا بھی اس کے لئے بڑا مشکل کام رہے گا۔ اسی کے ساتھ ایک ٹوٹے ہوئے اور غربت زدہ ملک کو دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ دوسری طرف سابق نظام کے لوگ، جن کے پاس پیسوں اور اسلحوں کی کمی نہیں ہو گی، ملک کے اندر دہشت گردی شروع کرا سکتے ہیں۔امریکہ اور مغربی ممالک چاہتے ہیں کہ شام کے سارے سیاسی اور مذہبی گروہوں یعنی بشمول بعث پارٹی ، بشارالاسد کے لوگوں اور علویوں کے سب کو حکومت میں شریک کیا جائے۔ یہ ممالک یہ شرط لگا رہے ہیں کہ اگر نئی حکومت نے ایسا کیا تبھی ہیئۃ تحریر الشام کو ’’ دہشت گرد تنظیموں‘‘ کی لسٹ سے نکالا جا سکتا ہے۔ ان شرطوں کو ماننے سے نئی حکومت کمزور ہو جائے گی۔
ساری عرب حکومتوں کو اسلامی حکومتوں سے بڑا خوف آتا ہے۔ اسی لئے وہ شام میں نئی حکومت کو ناکام بنانے کی پوری کوشش کریں گی جیسے کہ وہ پہلے تونس اور مصر میں کر چکی ہیں ۔ شام کے نئے حاکموں کے سامنے چیلنج بہت ہیں لیکن ان کی کامیابی امت مسلمہ کے لئے موجودہ حالات میں ایک بہت بڑا تحفہ بھی ہو گی۔