اِنصاف ٹائمس ڈیسک
سپریم کورٹ کی جانب سے وقف قانون کی بعض متنازعہ دفعات پر عبوری حکم دینے کے فیصلے پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم تنظیموں نے خوشی کا اظہار کیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے ان دفعات پر روک لگاتے ہوئے حکومت کے منصوبوں کو عارضی طور پر مؤثر طور پر روک دیا ہے، جو وقف املاک پر قبضہ کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ تاہم، بورڈ اور دیگر رہنماؤں نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے باوجود مکمل کامیابی تک جدوجہد جاری رہے گی۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کا ردعمل
آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے اس فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے پیش کی گئی تمام ترمیمات متنازعہ اور مسلمانوں کے مفاد کے خلاف ہیں۔ انہوں نے کہا کہ "وقف املاک کی حفاظت کے لئے عدالت عظمیٰ کا عبوری فیصلہ ایک اہم قدم ہے، تاہم جب تک حکومت کی تمام ترمیمات واپس نہیں لی جاتیں، ہماری جدوجہد جاری رہے گی۔” انہوں نے ملت کی تنظیموں اور تمام انصاف پسند لوگوں سے اپیل کی کہ وہ اس تحریک کو کامیاب بنائیں۔
امیر شریعت کا بیان
مولانا احمد ولی فیصل رحمانی، امیر شریعت نے بہار،اڑیسہ،جھارکھنڈ و مغربی بنگال نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا اور کہا کہ یہ ایک حد تک تسلی بخش ہے، لیکن اگر وقف ترمیمی ایکٹ پر مکمل طور پر روک لگایا جاتا تو زیادہ اطمینان بخش ہوتا۔ حضرت امیر شریعت نے مزید کہا کہ یہ ایکٹ مسلمانوں کے مذہبی حقوق اور قومی آئین کے خلاف ہے، اور اس پر فیصلہ آنے تک مسلمانوں کو اپنی دعاؤں اور کوششوں کو جاری رکھنا چاہیے۔
ایس.ڈی.پی.آئی کا موقف
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا (ایس ڈی پی آئی) نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایس ڈی پی آئی کے قومی جنرل سکریٹری الیاس محمد تمبے نے کہا کہ "سپریم کورٹ کا عبوری حکم ایک اہم کامیابی ہے، لیکن ہمیں یقین ہے کہ اوقاف کی مکمل حفاظت کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔” انہوں نے مطالبہ کیا کہ عدالت اس قانون پر نظر ثانی کرے اور تمام متنازعہ دفعات کو ختم کرے۔
مستقبل کا لائحہ عمل
تمام تنظیموں نے اس بات پر زور دیا کہ وہ اس لڑائی کو اپنے عزم کے ساتھ جاری رکھیں گے تاکہ مسلمانوں کی مذہبی خودمختاری اور وقف املاک کا تحفظ کیا جا سکے۔ ان تنظیموں نے ملک بھر میں ملت کے لیے ایک مضبوط اتحاد کی ضرورت پر زور دیا ہے تاکہ ان حقوق کی حفاظت کی جا سکے۔