انصاف ٹائمس ڈیسک
وقف ایکٹ ترمیم 2025 کے خلاف ملک بھر کے مذہبی، سماجی اور سیاسی مسلم تنظیموں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔ منگل کے روز چیف جسٹس سنجیو کھنہ کی سربراہی میں خصوصی بینچ نے مرکزی حکومت سے ‘وقف بائے یوزر’ جیسے اصول کے ختم کیے جانے پر سخت سوالات کیے۔
درخواست گزار کون کون؟
اب تک کل 73 درخواستیں دائر ہو چکی ہیں جن میں ملک بھر کی نمایاں شخصیات اور ادارے شامل ہیں، جنہوں نے ترمیم شدہ قانون کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا ہے۔ ان میں شامل ہیں:
مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اسدالدین اویسی،سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا کے نائب صدر محمد شفیع،آم آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خان،راشٹریہ جنتا دل کے راجیہ سبھا ممبر منوج جھا،جمعیت علماء ہند (مولانا ارشد مدنی گروپ)،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ (AIMPLB)،امارت شرعیہ، پٹنہ،مسلم مجلس مشاورت
قومی تنظیم وقف اتحاد،تنظیم ائمۂ ہند،اسلامک شریعت کونسل، دہلی،جماعت اسلامی ہند،درگاہ کمیٹی، اجمیر شریف،انجمن حق پرستان، مہاراشٹر،آل انڈیا وقف بورڈز ایسوسی ایشن،ملی کونسل آف انڈیا،بہار مسلم یوتھ آرگنائزیشن،دہلی وقف ری وائیول فورم،کانفرنس آف مسلم لائرز
ان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ نیا ترمیمی قانون آئینی تحفظات اور مذہبی آزادی (آرٹیکل 25-26) کے خلاف ہے، اور تاریخی مذہبی مقامات کی قانونی حیثیت کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
چیف جسٹس کی اہم تبصرہ
چیف جسٹس سنجیو کھنہ نے کہا "جب برطانوی دور سے پہلے زمین کی رجسٹریشن یا ٹرانسفر آف پراپرٹی ایکٹ موجود ہی نہیں تھا، تو کیا 14ویں یا 17ویں صدی کی مساجد سے رجسٹرڈ سیل ڈیڈ مانگی جا سکتی ہے؟”
انہوں نے جامع مسجد دہلی کی مثال دیتے ہوئے کہا "اگر کوئی مسجد صدیوں سے مذہبی استعمال میں ہے اور وقف بائے یوزر کے تحت تسلیم شدہ ہے، تو کیا اب اس کو صرف دستاویزات کی عدم موجودگی میں غیر قانونی قرار دیا جا سکتا ہے؟”
اہم سوالات جو عدالت میں اٹھے
1.کیا سپریم کورٹ ان تمام درخواستوں پر براہ راست سماعت کرے گا یا ان کو ہائی کورٹ بھیج دیا جائے؟
2.کیا واقعی یہ ترمیم آئینی اصولوں سے متصادم ہے؟ درخواست گزار اصل میں کن نکات پر بحث چاہتے ہیں؟
یہ کیس صرف ایک قانونی معاملہ نہیں بلکہ ہندوستان کی مذہبی، تاریخی اور ثقافتی شناخت کے تحفظ سے جڑا مسئلہ ہے۔ اگر وقف بائے یوزر کو رد کر دیا گیا، تو ہزاروں قدیم مساجد اور مذہبی مقامات قانونی بحران کا شکار ہو سکتے ہیں۔