اسلم رحمانی
انجمن ندائے ادب، مظفرپور
جب کوئی قوم اپنے ماضی سے جڑنے کی سچی تڑپ رکھتی ہے، تو وہ سب سے پہلے اپنی زبان کی طرف پلٹتی ہے۔کیونکہ زبان ہی وہ آئینہ ہے جس میں تہذیب، تاریخ، شعور، اور اجتماعی حافظہ جھلکتا ہے۔ اردو زبان محض ایک وسیلۂ ابلاغ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی سفرنامہ ہے، جو صدیوں کے میل جول، مشرق و مغرب کی فکری آمیزش، اور عوام و خواص کی مشترکہ کاوشوں سے پروان چڑھا۔ اس زبان نے دربار سے بازار تک، صوفی خانقاہ سے انقلابی منچ تک، اور عاشقانہ غزل سے احتجاجی نظم تک ہر مرحلے میں اپنا رنگ جمایا۔ آج جب ہم اردو کے آغاز و ارتقاء کا جائزہ لیتے ہیں، تو دراصل ہم ہندوستانی معاشرت کی تہوں میں اترتے ہیں، جہاں یہ زبان ایک نازک مگر مضبوط دھاگے کی طرح سب کو جوڑے ہوئے ہے۔اسی تہذیبی پس منظر میں حال ہی میں عدالتِ عظمیٰ ہند کا وہ تاریخی فیصلہ نہایت اہمیت کا حامل ہے، جس میں مہاراشٹر میں اردو زبان میں سرکاری سائن بورڈز کی موجودگی کو نہ صرف قانونی طور پر درست قرار دیا گیا بلکہ اسے ہندوستانی ثقافت کا جزوِ لاینفک تسلیم کیا گیا۔ اس فیصلے نے اردو زبان کو محض اقلیتی زبان کے دائرے سے نکال کر قومی ورثے کی علامت کے طور پر پیش کیا، اور یہ واضح پیغام دیا کہ کسی زبان کو مٹانے یا محدود کرنے کی کوشش دراصل ایک پوری تہذیب کو نظرانداز کرنے کے مترادف ہے۔ عدالت کے اس اقدام نے اردو زبان کے تحفظ اور فروغ کی جدوجہد کو ایک نئی اخلاقی اور قانونی بنیاد عطا کی ہے۔
ہندوستان کی عدالتِ عظمیٰ نے اردو زبان کے سماجی، تہذیبی اور آئینی مقام کی توثیق کرتے ہوئے مہاراشٹرا کے اکولا ضلع پاتور کے ایک بلدیاتی ادارے کے سائن بورڈ پر اردو کے استعمال کو برقرار رکھا۔ عدالت نے واضح الفاظ میں کہا کہ: "زبان ثقافت ہے۔ زبان خیالات کے تبادلے کا ذریعہ ہے جو مختلف نظریات اور عقائد رکھنے والے لوگوں کو قریب لاتی ہے اور اسے ان کی تقسیم کا سبب نہیں بننا چاہیے۔”
یہ فیصلہ صرف ایک قانونی رائے نہیں بلکہ ہندوستان کی تکثیری تہذیب، لسانی تنوع اور مشترکہ شعور کی توثیق ہے۔ عدالت نے اردو کو "گنگا-جمنی تہذیب کا بہترین نمونہ” قرار دیتے ہوئے اس غلط فہمی کو رد کیا کہ اردو بھارت کے لیے اجنبی زبان ہے۔یہ مقدمہ مہاراشٹرا کے ضلع اکولا کے قصبہ پاتور کی میونسپل کونسل سے متعلق تھا، جہاں ایک سابق کونسلر نے اردو میں سائن بورڈ کے استعمال کو عدالت میں چیلنج کیا۔ عرضی گذار کا موقف تھا کہ سرکاری عمارت پر اردو زبان کا استعمال "قانون کے خلاف” ہے۔بمبئی ہائی کورٹ نے اس درخواست کو خارج کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ:مہاراشٹرا لوکل اتھارٹیز (آفیشل لینگویجز) ایکٹ، 2022 اردو کے استعمال پر کوئی پابندی عائد نہیں کرتا،اور اردو کا استعمال ایک بلدیاتی ادارے کی جانب سے "مؤثر ابلاغ” کے لیے بالکل جائز ہے۔
اسی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی گئی، جسے جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس کے ونود چندرن پر مشتمل دو رکنی بنچ نے منظور نہ کرتے ہوئے ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا۔فیصلے سے اہم اقتباسات (بحوالہ: اننت کرشنن جی، دی انڈین ایکسپریس ویب سائٹ، 16 اپریل 2025)”ہماری غلط فہمیاں، اور شاید زبان کے خلاف ہمارے تعصبات کو اس حقیقت کے ساتھ بہادری اور سچائی کے ساتھ پرکھا جانا چاہیے، کہ یہ عظیم تنوع ہی ہماری طاقت ہے۔” "یہ غلط فہمی ہے کہ اردو بھارت کے لیے اجنبی زبان ہے۔ یہ ایک زبان ہے جو اسی سرزمین پر پیدا ہوئی۔” "زبان مذہب نہیں ہے۔ زبان مذہب کی نمائندگی بھی نہیں کرتی۔ زبان ایک کمیونٹی، ایک علاقے، ایک قوم کی ملکیت ہے؛ نہ کہ کسی مذہب کی۔” "اردو گنگا-جمنی تہذیب یا ہندوستانی تہذیب کا بہترین نمونہ ہے، جو شمالی اور وسطی ہندوستان کے میدانوں کی مرکب ثقافتی روایت ہے۔” "زبان خیالات کے تبادلے کا ذریعہ ہے۔ اگر میونسپل کونسل کے دائرے میں رہنے والے لوگ اردو سے واقف ہیں تو سرکاری زبان یعنی مراٹھی کے ساتھ ساتھ اردو کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔” یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اردو زبان کی پیدائش ہندوستان کے شمالی میدانوں میں صدیوں پر محیط تہذیبی میل جول کا نتیجہ ہے۔ اسے فارسی، عربی، ترکی، ہندی، پنجابی اور دیگر دیسی زبانوں کے امتزاج سے جنم لینے والی ایک لشکری زبان کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جو اسی ملک ہندوستان میں جنم لے کر عوامی سطح پر ابلاغ کا مشترکہ ذریعہ بن گئی۔گنگا-جمنی تہذیب؛کا تصور دراصل اسی مشترکہ زبان و ثقافت کی بنیاد پر قائم ہوا۔ اردو نے نہ صرف عوام کے دلوں کو جوڑا بلکہ صوفیائے کرام، بھکتی سنتوں، اور ادیبوں کی زبان بن کر بھارت کی تکثیری شناخت کو دوام بخشا۔
برطانوی استعمار نے 19ویں صدی میں اردو اور ہندی کے درمیان مصنوعی خلیج پیدا کی۔ اردو کو مسلمانوں کی زبان اور ہندی کو ہندوؤں کی زبان قرار دے کر ایک لسانی بنیاد پر تقسیم کی راہ ہموار کی گئی۔اس سیاسی تقسیم کے نتیجے میں، اردو کو فارسی رسم الخط میں محدود کر دیا گیا،اور ہندی کو دیوناگری میں لکھنے پر زور دیا گیا۔یہی وہ دور ہے جب زبان کو مذہب سے جوڑ کر ایک تہذیبی اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ سپریم کورٹ نے اسی پس منظر میں کہا: "ہندی اور اردو کو دونوں طرف کے ‘پاکبازوں’ نے ایک رکاوٹ بنا دیا، جس کے نتیجے میں ہندی زیادہ سنسکرتی ہو گئی اور اردو زیادہ فارسی زدہ۔ یہ وہ تفریق ہے جسے نوآبادیاتی طاقتوں نے مذہب کی بنیاد پر بانٹنے میں استعمال کیا۔”
ستم بالائے ستم یہ ہوا کہ 1947 کی تقسیم نے اردو کو مزید نقصان پہنچایا۔ پاکستان میں اردو کو قومی زبان قرار دیے جانے کے بعد بھارت میں اسے "غیرملکی” یا "مخالف” زبان کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا۔ جبکہ سچ یہ ہے کہ:اردو بھارت میں پیدا ہوئی،اور آج بھی ملک کے لاکھوں افراد کی مادری زبان ہے۔عدالت نے 2001 اور 2011 کی مردم شماری کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا:”اردو بھارت کی چھٹی سب سے زیادہ بولی جانے والی زبان ہے۔ 2011 میں 270 مادری زبانوں میں اردو کا نمایاں مقام ہے۔”عدالت نے ایک اور اہم نکتہ اجاگر کیا کہ ہندی اور اردو دو مختلف زبانیں نہیں بلکہ ایک ہی لسانی خاندان کی شاخیں ہیں۔ عوامی سطح پر استعمال ہونے والی ہندی میں آج بھی اردو کے بے شمار الفاظ شامل ہیں:”یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ روزمرہ کی ہندی گفتگو اردو کے الفاظ یا اردو سے ماخوذ الفاظ کے بغیر ممکن نہیں۔ خود ‘ہندی’ لفظ فارسی لفظ ‘ہندوی’ سے نکلا ہے۔”
عدالتی نظام، بیوروکریسی، اور عوامی گفتگو میں اردو کی موجودگی ناقابل انکار ہے:”عدالت، حلف نامہ، وکالت نامہ، دستی، پیشی – یہ سب اردو یا اردو سے ماخوذ الفاظ ہیں۔”
سپریم کورٹ کا فیصلہ صرف اردو زبان کا دفاع نہیں، بلکہ ہندوستان کے لسانی تکثیر، تہذیبی ہم آہنگی، اور آئینی روح کی پاسداری کا اعلامیہ ہے۔ عدالت نے یاد دلایا:”ہمیں اپنی تنوع، بشمول اپنی متعدد زبانوں کا احترام کرنا چاہیے اور خوشی منانی چاہیے۔”
اب وقت ہے کہ اردو کو اس کی مادری سرزمین میں محض جذباتی یا اقلیتی زبان کے طور پر نہ دیکھا جائے، بلکہ اسے ہندوستان کی تہذیبی، لسانی اور آئینی تاریخ کا ایک بنیادی ستون تسلیم کیا جائے۔سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ محض اردو سائن بورڈز کا قانونی جواز نہیں، بلکہ یہ اردو کی تہذیبی اور آئینی حیثیت کی بازگشت ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی گواہی ہے کہ اردو زبان نہ صرف ہندوستان کی زمین سے جڑی ہے بلکہ اس کی روح میں بھی پیوست ہے۔ آج ضرورت ہے کہ اردو کو اسی احترام اور وقار کے ساتھ دیکھا جائے جس کے وہ حقیقی طور پر مستحق ہے۔نہ ایک مذہب کی زبان، نہ ایک قوم کی، بلکہ پورے ہندوستان کی زبان۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اردو کے خلاف پروان چڑھائے گئے شکوک و شبہات، سیاسی تعصبات، اور لسانی تعفن کے مقابل ایک تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ یہ فیصلہ اعلان ہے اس سچ کا جو اردو کے ساتھ انصاف کا متقاضی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف فیصلے پر خوشی منائیں یا اب عملی قدم بھی اٹھائیں؟
اردو کے فروغ کی جانب عملی اقدامات:اب وقت آ چکا ہے کہ اردو کو صرف جذباتی نعروں یا تہذیبی علامت کے طور پر یاد کرنے کے بجائے، اس کی ترویج و اشاعت کے لیے مؤثر اور عملی اقدامات کیے جائیں۔ اردو زبان کا تحفظ محض ماضی کی وراثت کو سنبھالنا نہیں، بلکہ ایک بہتر، جامع اور ہم آہنگ مستقبل کی تشکیل ہے۔لہٰذا ضروری ہے کہ:(1)اردو کو تعلیمی نظام میں رچایا جائے۔پرائمری سے اعلیٰ تعلیم تک اردو کی تدریس کے لیے وسائل، اساتذہ، اور نصاب کو بہتر بنایا جائے۔(2)اردو میڈیا اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو فروغ دیا جائے۔اردو ویب سائٹس، ایپلی کیشنز، سوشل میڈیا اور یوٹیوب چینلز کے ذریعے نئی نسل سے رابطہ قائم کیا جائے۔(3)ادبی و ثقافتی سرگرمیوں کی سرپرستی کی جائے۔اردو مشاعرے، ڈرامے، سیمینار، کتاب میلے اور اردو دن کی تقریبات کو بھرپور انداز میں منایا جائے۔
(4)اردو کو دفتری و عدالتی سطح پر نافذ کیا جائے۔
جہاں اردو دوسری سرکاری زبان ہے، وہاں اس کا مؤثر نفاذ یقینی بنایا جائے۔(5)اردو اساتذہ کی تقرری اور تربیت پر توجہ دی جائے۔اردو اساتذہ کے عہدوں کو فوری طور پر پر کیا جائے اور ان کی پیشہ ورانہ تربیت کا اہتمام کیا جائے۔(6)اردو بولنے والوں کے آئینی حقوق کا احترام کیا جائے۔اردو داں طبقے کے ساتھ لسانی امتیاز ختم ہو، اور ان کی زبان کو عزت اور عملیت کا درجہ ملے۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف اردو زبان کی حمایت میں ہے، بلکہ یہ ہندوستان کی آئینی روح، لسانی ہم آہنگی، اور تہذیبی تکثیر کا استعارہ ہے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اردو کو اس کے اصل مقام پر فائز کریں—نہ ایک مذہب کی زبان، نہ ایک قوم کی، بلکہ پورے ہندوستان کی مشترکہ زبان۔کیونکہ اردو محض زبان نہیں، ایک تہذیب ہے۔ اور جو اپنی تہذیب کو بھول جائے، وہ اپنے آپ کو بھول بیٹھتا ہے۔