"وہ خاموش ہیرو جو میری پرواز سے پہلے خود زمین کو مضبوط کرتا رہا — میرے ابّا”

Spread the love

فرحہ انصاری
آزاد صحافی

آج فادرز ڈے ہے۔ میرے لیے ہمیشہ یہ دن، چاہے وہ ماں کا ہو یا والد کا، کچھ لکھنا مشکل رہا ہے، کیونکہ یہ وہ رشتے ہیں جو روح سے جُڑے ہوتے ہیں—اور روح کی گہرائی کو الفاظ میں بیان کرنا آسان نہیں ہوتا۔

میرے والد جیسے والد ہر بیٹی کو نصیب ہوں۔ وہ میری پہلی تحریک، میری پہلی محبت، میری پہلی طاقت اور میرا اولین تحفظ ہیں۔ وہ شخصیت جنہوں نے ہمیشہ اپنی آنکھوں میں میرے لیے ایک ہی خواب سجایا—مجھے بلند پرواز کرتا دیکھنے کا۔ اور اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے انہوں نے اپنی زمین کو خود کھود کر مضبوط کیا۔

ہم ایک ایسے سماج میں پروان چڑھے جہاں باپ اور بیٹی کا رشتہ اکثر پردوں اور فاصلے میں ملفوف ہوتا ہے۔ لیکن میرے اور میرے والد کے درمیان ہمیشہ شفافیت پر مبنی ایک ایسا تعلق رہا جہاں بولنا، سمجھنا، لڑنا اور بحث سب شامل رہا۔ کئی مرتبہ ہمارے درمیان خیالات کا ٹکراؤ بھی ہوا، کیونکہ کبھی کبھار سماج کی باتیں ان پر بھی اثر انداز ہو جاتی تھیں، جنہیں وہ دل سے تو تسلیم نہیں کرتے، مگر کہہ دیتے: "سماج کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔”

رشتہ داروں کی زبانیں بھی کچھ کم نہ تھیں:
"بیٹی کو سر پر چڑھا رکھا ہے، نقصان آپ ہی کو ہوگا۔”
"لڑکی کو اتنا پڑھانے کی کیا ضرورت؟”
"زیادہ تعلیم یافتہ لڑکیاں گھر نہیں سنبھالتیں۔”

ایسے تمام طعنوں اور سوالوں سے پہلے انہوں نے خود لڑائی لڑی، پھر سماج سے۔ کچھ لمحے ایسے بھی آئے جب وہ ڈگمگائے، سماج کی باتیں سن کر وہ بھی مجھے سمجھانے لگے، مگر آخرکار میری ضد، میرے حوصلے اور میری دلیل نے ان کا دل بدل ہی دیا۔

ان کے ایک ایک لفظ میرے اندر ہمت کا ایک نیا جہان بسا دیتے ہیں:
"علم حاصل کرو، خوب حاصل کرو، اور اس کا بہتر استعمال کرو۔”
یہی ان کا اصول ہے، جسے میں آج بھی جیتی ہوں۔

چار بیٹیوں کو تعلیم دینا، سماج کے طعنوں کا سامنا کرنا، اور پھر بھی بیٹیوں کے ساتھ کھڑا رہنا—یہ عام انسان کا نہیں، ایک سچے باپ کا ظرف ہوتا ہے۔

میری زندگی کا سب سے بڑا چیلنج تعلیم سے جڑا رہا۔ ابتدا میں والد نے میرا بھرپور ساتھ دیا، لیکن وقت کے ساتھ جب لوگوں کی باتوں کا دباؤ آیا تو وہ کچھ پیچھے ہٹے، مگر بالآخر میری بات کو سمجھا اور دوبارہ میرے ساتھ کھڑے ہوگئے۔
انہوں نے سکھایا:
"اگر جینا ہے تو لڑنا سیکھو، میں ہمیشہ ساتھ نہیں رہوں گا، تمہیں اپنی لڑائیاں خود لڑنی ہوں گی۔”

انہوں نے مجھے اس قابل بنایا کہ دنیا کے کسی بھی کونے میں جا کر خود کو بہتر انداز میں سنبھال سکوں۔

لوگوں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود، چار بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانا، بار بار سماجی دباؤ کا سامنا کر کے بھی آگے بڑھتے رہنا—یہ سب آسان نہیں ہوتا۔
جہاں عام طور پر بیٹیوں سے کہا جاتا ہے کہ شادی کے بعد سسرال ہی ان کا گھر ہے، وہیں میرے والد نے یہ بھی کہا:
"جب کبھی گھٹن محسوس ہو، تو یہ دروازہ تمہارے لیے ہمیشہ کھلا ہے—تمہارا باپ اب بھی ہے۔”

آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں، تو اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے جو خاموش جنگ لڑی، وہی سب سے بڑی قربانی تھی۔
جب لوگ ان سے پوچھتے ہیں کہ انہوں نے زندگی میں کیا حاصل کیا، تو وہ فخر سے کہتے ہیں:
"میں اپنی بیٹیوں کی تعلیم چھوڑ کر جاؤں گا، یہی میری سب سے بڑی دولت ہے۔”

ہاں، شادی کو لے کر وہ پریشان ضرور ہوتے ہیں، اور کئی بار جذباتی بلیک میلنگ کا سہارا بھی لیتے ہیں — اس پہلو پر زیادہ کچھ نہ ہی کہوں تو بہتر ہے 😄

لکھنے کو تو پوری زندگی بھی کم لگتی ہے، لیکن شاید الفاظ ہی کم پڑ جاتے ہیں ان کے لیے۔

Leave a Comment