اِنصاف ٹائمس ڈیسک
دہلی کے ساکیت کورٹ نے 2019 میں جامعہ نگر میں ہونے والے تشدد کے معاملے میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے جواہر لال نہرو یونیورسٹی (JNU) کے پی ایچ ڈی اسکالر اور اینٹی-CAA کارکن شرجیل امام سمیت 11 افراد کے خلاف الزامات طے کر دیے ہیں۔ وہیں، انسانی حقوق کے کارکن شفا الرحمٰن سمیت 15 دیگر ملزمان کو ثبوتوں کی کمی کی بنیاد پر بری کر دیا گیا ہے۔
شرجیل امام پر سنگین الزامات
عدالت نے شرجیل امام کو تشدد بھڑکانے کی سازش کا ماسٹر مائنڈ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اپنی تقریروں کے ذریعے ایک مخصوص طبقے کے اندر غصہ اور نفرت پیدا کی، جس کے نتیجے میں عوامی سڑکوں پر بڑے پیمانے پر تشدد بھڑک اٹھا۔ ان پر آئی پی سی کی دفعات 109، 120B، 153A، 143، 147، 148، 149، 186، 353، 332، 333، 308، 427، 435، 323، 341 اور پبلک پراپرٹی ڈیمیج پریوینشن ایکٹ کی دفعہ 3/4 کے تحت الزامات طے کیے گئے ہیں۔
شفا الرحمٰن سمیت 15 افراد بری
عدالت نے شفا الرحمٰن، محمد عادل، روح الامین، محمد جمال، محمد عمر، محمد شاہیل، مدثر فہیم ہاشمی، محمد عمران، ثاقب خان، تنزیل احمد چودھری، منیب میاں، سیف صدیقی، شاہنواز اور محمد یوسف کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کی بنیاد پر بری کر دیا ہے۔
عدالت کا تبصرہ
عدالت نے شرجیل امام کی صفائی میں دی گئی دلیلوں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تقریر نے ایک مخصوص طبقے میں غصے اور نفرت کو ہوا دی، جس کے نتیجے میں سڑکوں پر تشدد پھوٹ پڑا۔ عدالت نے مزید کہا کہ ایک سینئر پی ایچ ڈی اسکالر ہونے کے ناطے، شرجیل امام نے اپنی تقریر کو نہایت چالاکی سے پیش کیا، جس سے تشدد کو ہوا ملی۔
شرجیل امام کو 25 اگست 2020 کو بہار سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے شہریت ترمیمی قانون (CAA) کے خلاف احتجاج کو پورے ہندوستان میں لے جانے کی کوشش کی اور اپنی تقریروں کے ذریعے تشدد کو ہوا دی۔