محرر : امام علی مقصود فلاحی۔
متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔
شب برات اسلام کے آٹھویں مہینے شعبان کی 15ویں رات کو کہتے ہیں، مسلمان اس رات میں نوافل ادا کرتے، قبرستان کی زیارت کرتے اور ایک دوسرے سے معافی چاہتے ہیں۔ اس رات کو مغفرت کی رات اوررحمت کی رات بھی کہا جاتا ہے۔ شب کے معنی ہیں رات ، براۃ کے معنیٰ ہیں نجات، اور شبِ برات کا معنیٰ ہے کہ گناہوں سے نجات کی رات، اور گناہوں سے نجات توبہ سے ہوتی ہے اور توبہ یونہی نہیں ہوجاتی بلکہ اسکے چند شرائط و ضوابط ہیں، جو توبہ میں پاے جانے نہایت ضروری ہیں، اسکے بغیر توبہ کی قبولیت مشکل نہیں نا ممکن ہے۔اب ہمیں اس بات کو سمجھنا ہے کہ توبہ کی شرائط کیا ہیں! صرف زبان سے کہہ دینے سے توبہ ہو جائے گی؟ نہیں ! کیونکہ توبہ کی چند شرائط اور کچھ لوازم ہیں. اگر وہ شرائط پوری نہ ہوں تو چاہے آدمی توبہ کی تسبیح پڑھتا رہے اور صرف زبانی طور پر استغفار کا کتنا ہی ورد کرتا رہے اسے توبہ نہیں کہا جائے گا۔ چنانچہ امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے جو بہت بڑے محدث گزرے ہیں ’’ریاض الصالحین‘‘ میں توبہ کے باب میں علمائے اُمت کا اس بات پر اجماع نقل کیا ہے کہ اگر توبہ کسی ایسے گناہ کے ضمن میں ہو جو حقوق اللہ سے متعلق ہے تو اس کے صحیح ہونے کی تین شرائط ہیں۔ لیکن اگر کوئی گناہ حقوق العباد کے ضمن میں ہے تو ایک اضافی شرط مزید شامل ہو جائے گی۔پہلی تین شرائط حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں میں مشترک ہیں.پہلی شرط یہ ہے کہ انسان کے دل میں سچی اور حقیقی ندامت ہو کہ میں نے اب تک جو کچھ کیا ہے غلط کیا ہے، اس پر واقعی پشیمانی ہو۔اسی حقیقت کو علامہ اقبال نے اپنے نوعمری کے دور کے اس شعر میں نہایت خوبصورتی سے بیان کیا تھا، جسے داغ دہلوی نے بہت پسند کیا تھا اور اس پر داد بھی دی تھی کہ :۔موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے،قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے۔ توبہ کی دوسری شرط یہ ہے کہ عزمِ مصمم ہو کہ اب یہ کام دوبارہ نہیں کروں گا۔ تیسری شرط یہ ہے کہ فی الواقع اس گناہ کو ترک کر دے اور عمل صالح کی روش اختیار کرے۔ یہ تین شرائط حقوق اللہ کے ضمن کے گناہوں سے متعلق ہیں اضافی چوتھی شرط حقوق العباد کے معاملے میں ہے، وہ یہ کہ اگر کسی انسان کا حق مارا ہے تو اس کی تلافی کرے، کسی کا مال ہڑپ کیا ہے تو وہ مال واپس کرے یا اس سے معافی طلب کرے، کسی کی غیبت کی ہے تو اس کے پاس جا کر معافی چاہے، کسی پر ظلم کیا ہے تو اس کے لیے مظلوم سے عفو اور درگزر حاصل کرے، اس لیے کہ یہ جو حقوق العباد ہیں انہیں اللہ تعالیٰ اس وقت تک معاف نہیں فرماے گا جب تک بندہ سے معافی نہ مانگی جائے۔ بہر کیف! یہ رات مسلمانوں کے لئے آہ و گریہ و زاری کی رات ہے، رب کریم سے تجدید عہد کی رات ہے، شیطانی خواہشات اور نفس کے خلاف جہاد کی رات ہے، یہ رات اللہ کے حضور اپنے گناہوں سے زیادہ سے زیادہ استغفار اور توبہ کی رات ہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ حضورِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے مسلمانو! شعبان کی پندرھویں رات کو عباد ت کے لئے جاگتے رہو اور اس کامل یقین سے ذکر و فکر میں مشغول رہو کہ یہ ایک مبارک را ت ہے اور اس رات میں مغفرت چاہنے والوں کے جملہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ’’جب شعبان کی درمیانی رات آئے تو رات کو جاگتے ہوئے قرآنِ کریم کی تلاوت کی جائے اور نوافل میں مشغول ہوا جائے ، روزہ رکھا جائے کیونکہ اس رات اللہ اپنی صفات رحمن و رحیم اور رؤف کے ساتھ انسانیت کی جانب متوجہ ہوتا ہے اور خدا کا منادی پکار رہا ہوتا ہے کہ ہے کوئی معافی مانگنے والا کہ میں اسے معاف کر دوں، کوئی سوال کرنے والا کہ میں اس کا سوال پورا کر دوں، کوئی رزق مانگنے والا کہ میں اسے حلال وافر رزق عطا کر دوں، اور یہ صدائیں صبح تک جاری رہتی ہیں۔اس رات مسلمان توبہ کرکے گناہوں سے قطع تعلق کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بے شمار مسلمان جہنم سے نجات پاتے ہیں اس لیے اس رات کو شبِ برات کہتے ہیں ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایاشعبان کی پندرھویں شب عبادت میں بسر کرو اور دن کو روزہ رکھو، اس شب ہر گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔اس رات کو لیلۃ المبارکۃ یعنی برکتوں والی رات، لیلۃ الصک یعنی تقسیم امور کی رات اور لیلۃ الرحمۃ یعنی رحمت نازل ہونے کی رات بھی کہا جاتا ہے۔اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتی ہیں کہ”ایک رات میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جنت البقیع میں پایا کہ آسمان کی طرف حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا ہوا تھا مجھے دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ نصف شعبان کو آسمان دنیا پر جلوہ گر ہوتا ہے اور قبیلہ کلب کی بکریوں کے جس قدر بال ہیں اُن سے زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے“(ترمذی شریف)۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ، ’’یہ رات انعاماتِ سبحانی، عنایاتِ ربانی، مسرت جادوانی اور تقسیم قسمت انسانیت کی رات ہے۔ اس رات گناہ گاروں کی مغفرت ہوتی ہے، مجرموں کی معافی ہوتی ہے، خطا کاروں کی بارات ہوتی ہے اور یہ شب احتساب و تسبیح اورو تلاوت کی رات ہوتی ہے۔شب برات کا دوسرے دنوں اور راتوں سے موازنہ کیا جائے تو شب برات دوسرے شب و روز سے بالکل مختلف ہے۔ عیدالفطر اور عیدالاضحٰی اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکامات کی بجاآوری کا صلہ ہیں۔ اس میں انسان کو رمضان المبارک کے روزوں کی ادائیگی کے عوض عیدالفطر کی خوشی عطا ہوتی ہے۔ عیدین کا تعلق ہمارے باہمی معاملات سے ہے۔ احکامات کی بجا آوری کا صلہ اور انعام ہے۔لیکن شب برات دنیا و آخرت کے سنوارنے کے ایک فکر کا نام ہے، حب الہی اور حب رسول کی جانب ایک دعوتی پیغام ہے، جس پر عمل پیرا ہوکر انسان اپنی دنیا و آخرت کو سنوار سکتا ہے۔ لہذا لوگوں کو چاہئے کہ اپنے اپنے گناہوں سے سچی توبہ کریں،اس مبارک شب برأت کے فیضان سے مالا مال ہوں۔بلا شبہ شب برأت (نجات کی رات) کو رحمت خدا وندی وافر مقدار میں بندوں پر نازل ہوتی ہے اور گناہ گاروں کی بگڑی سنورتی ہے۔لیکن چند ایسے افراد بھی ہیں جو بعض گناہوں کی وجہ سے اس رات کی برکات اور فضلِ خداوندی سے محروم رہ جاتے ہیں۔ رشوت لینے والا، ظالم سپاہی،کاہن ،لوگوں سے مال لے کر امراء کو دینے والا، لھو لعب کے لئے مزامیر رکھنے والا، مشرک، دنیاوی عداوت رکھنے والا ،قطع رحمی کرنے والا، ازراہِ تکبر کپڑا ٹخنے سے نیچے لٹکانے والا، والدین کا نافرمان، دائمی شرابی، جادو کرنے والا، بلا وجہ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ سلام و کلام نہ کرنے والا،زناکار، جاندار کی تصویر بنانے والا، جھوٹی قسم کھاکر مال بیچنے والا، بدعتی، جس کے دل میں صحابہ کرام کا بغض ہو۔(بیہقی ما شبتہ باسنہ، مسند امام احمد شعب الایمان جلد 3/صفحہ 383) ۔ خیال رہے گناہوں سے انکار کرنا بے حیائی اور شرارت ہے۔ گناہ کا اقرار کرنا ، نادم ہونا اچھی بات ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ شب برأت اور دیگر مقدس ایام والی راتوں میں توبہ زیادہ قبول ہوتی ہے لیکن گناہ کرنے کے بعد توبہ کو ان مقدس دنوں اور راتوں کے لئے اٹھا رکھنا بدترین جرم و شقاوت ہے۔ کیا معلوم ایسے دن اور ایسی راتیں آنے سے قبل ہی موت آجائے اور گناہوں کا بوجھ لے کر خدا کے حضور پیش ہونا پڑے۔ اس لئے اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ صرف انہیں مقدس راتوں کا انتظار نہ کرتے رہیں بلکہ ہمیشہ توبہ و استغفار کرتے رہیں۔وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا، کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا۔بہر کیف آج کی رات میں زیادہ سے زیادہ نوافل پڑھیں ، قرآن کی تلاوت کریں، زیارتِ قبور کو جائیں، تمام مرحومین کو ایصال ثواب کریں، کثرت سے توبہ کریں، آتش بازی خرافات اور رات بھر گھوم پھر کر وقت برباد نہ کریں۔ مسلمان اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کریں۔ سنجیدگی سے اس رات کی فضیلت و برکات کو دامن میں سمیٹیں ۔