اِنصاف ٹائمس ڈیسک
اتراکھنڈ میں حال ہی میں نافذ کیے گئے یکساں سول کوڈ (UCC) 2024 کو چیلنج کرتے ہوئے نینی تال ہائی کورٹ میں کئی مفاد عامہ کی عرضیاں دائر کی گئی ہیں۔ چیف جسٹس جی۔ نریندر اور جسٹس آشیش نیتھانی کی بینچ نے ان عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے 6 ہفتوں کے اندر جواب داخل کرنے کی ہدایت دی ہے۔
ان عرضیوں میں UCC کے مختلف دفعات کو غیر آئینی قرار دے کر چیلنج کیا گیا ہے۔ بھیم تال کے رہائشی سریش سنگھ نیگی نے خاص طور پر ’لیو اِن ریلیشنشپ‘ سے متعلق دفعات پر اعتراض ظاہر کیا ہے، جبکہ دہرادون کے رہائشی علم الدین صدیقی نے مسلم، پارسی، عیسائی اور دیگر برادریوں کی شادی کی روایات کو نظرانداز کرنے کا الزام لگایا ہے۔
عرضی گزاروں کا کہنا ہے کہ UCC 2024 بھارتی آئین کے آرٹیکل 14، 19، 21 اور 25 کے تحت دیے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے اور مسلم کمیونٹی کی ضروری مذہبی روایات کے خلاف ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ یہ قانون آئین کے آرٹیکل 245 کی خلاف ورزی کرتا ہے کیونکہ یہ ریاستی قانون ہے جس کا دائرہ اضافی ہے۔
ہائی کورٹ نے ان تمام عرضیوں کو ایک ساتھ منسلک کرتے ہوئے معاملے کی اگلی سماعت 6 ہفتوں کے بعد مقرر کی ہے۔ اس دوران ریاستی حکومت کو عرضیوں میں لگائے گئے الزامات پر اپنا موقف پیش کرنا ہوگا۔
قابل ذکر ہے کہ 27 جنوری 2025 کو اتراکھنڈ حکومت نے یکساں سول کوڈ نافذ کیا تھا، جس کی وجہ سے یہ UCC نافذ کرنے والی ملک کی پہلی ریاست بن گئی۔
اس معاملے میں ہائی کورٹ کے جج نے تبصرہ کیا ہے کہ اگر UCC درج فہرست ذاتوں/درج فہرست قبائل پر نافذ نہیں ہوتا تو یہ کیسا یکساں سول کوڈ ہے؟ اس تبصرے نے UCC کی وسعت اور اس کے اثرات کے حوالے سے نئی بحث کو جنم دیا ہے۔
اب تمام نظریں ریاستی حکومت کے آئندہ جواب اور ہائی کورٹ کی اگلی سماعت پر مرکوز ہیں، جو اس اہم مسئلے پر آگے کی سمت متعین کرے گی۔