ہولی سے پہلے سنبھل میں مساجد پر ترپال، پولیس نے بتایا احتیاطی قدم، تنقید بھی سامنے آئی

Spread the love

اِنصاف ٹائمس ڈیسک

اتر پردیش کے سنبھل ضلع میں ہولی اور جمعہ کی نماز ایک ہی دن ہونے کے پیش نظر انتظامیہ نے سیکیورٹی کے تحت کئی مساجد کو ترپال سے ڈھانپ دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ یہ اقدام امن و امان کو برقرار رکھنے اور کسی بھی ناخوشگوار واقعے کو روکنے کے لیے کیا گیا ہے۔ تاہم، اس فیصلے پر تنقید اور مخالفت بھی سامنے آ رہی ہے۔

پولیس کا بیان: "یہ صرف ایک احتیاطی اقدام ہے”

سنبھل کے ایس پی کرشنا کمار نے کہا کہ حساس مقامات پر یہ فیصلہ تمام برادریوں کی رضامندی سے لیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، "مساجد کو ترپال سے ڈھانپنے کا مقصد کسی بھی قسم کی غلط فہمی یا ناخوشگوار واقعے کو روکنا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک احتیاطی اقدام ہے تاکہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رہے۔”

کن مساجد کو ڈھانپا گیا؟

جن مساجد پر ترپال لگائی گئی ہے، ان میں نمایاں طور پر شاہی جامع مسجد، رات والی مسجد، لدنیا مسجد، گول مسجد، اناری والی مسجد، کھجورو والی مسجد اور گردوارہ روڈ مسجد شامل ہیں۔

تنقید: "یہ یکطرفہ فیصلہ کیوں؟”

اگرچہ انتظامیہ کے اس فیصلے کو کچھ حلقوں نے قبول کیا ہے، مگر مسلم تنظیموں اور سماجی کارکنوں نے اس پر سخت اعتراض کیا ہے۔

لوگوں نے کہا، "اگر انتظامیہ کو لگتا ہے کہ ماحول خراب ہو سکتا ہے تو پھر یہ اقدام تمام مذہبی مقامات پر اٹھایا جاتا۔ صرف مساجد کو ڈھانپنا یہ ظاہر کرتا ہے کہ حکومت ایک خاص طبقے کو نشانہ بنا رہی ہے۔”

مجلس اتحاد المسلمین (AIMIM) اور دیگر مسلم رہنماؤں نے بھی سوال اٹھایا کہ "کیا مندروں اور دیگر مذہبی مقامات پر بھی ایسا کیا گیا؟ اگر نہیں، تو یہ فیصلہ امتیازی سلوک کو ظاہر کرتا ہے۔”

سماج وادی پارٹی کے رہنما نے کہا، "اگر مساجد پر ترپال لگانا ضروری تھا، تو مندروں پر بھی یہی اصول لاگو ہونا چاہیے تھا۔ انتظامیہ کا یہ قدم تعصب پر مبنی نظر آتا ہے۔”

مقامی برادری کی ملی جلی رائے

سنبھل کے کچھ مسلمانوں نے اس فیصلے کو تسلیم کیا اور امن قائم رکھنے کی اپیل کی۔ ایک مقامی شہری نے کہا، "اگر انتظامیہ کو لگتا ہے کہ اس سے حالات پرامن رہیں گے، تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔”

لیکن کچھ مقامی افراد نے سوال کیا کہ کیا یہ سیکولرازم کے اصولوں کے خلاف نہیں ہے؟

انتظامیہ کی اپیل: افواہوں سے بچیں

پولیس نے حساس علاقوں میں سیکیورٹی سخت کر دی ہے اور اضافی فورس تعینات کر دی گئی ہے۔ انتظامیہ نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کسی بھی افواہ پر یقین نہ کریں اور علاقے میں امن قائم رکھیں۔

یہ انتظامی سختی ہے یا امتیازی سلوک؟

سنبھل میں انتظامیہ اور عوام کے درمیان تعاون کے اس اقدام کو کچھ لوگ مثبت کہہ رہے ہیں، لیکن سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ واقعی امن و امان کے لیے ہے، یا پھر کسی مخصوص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ یہ بحث اب زور پکڑ رہی ہے۔

Leave a Comment