’ سب کچھ‘ تو ٹھیک نہیں ہے …

Spread the love

ودود ساجد

آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اس ملک کے حکمرانوں کو اور خاص طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کو واضح اشاروں کنایوں میں جو پند و نصیحت کی ہے اس کا کتنا اثر ہوگا نہیں معلوم لیکن اس سے ایک راز تو فاش ہو ہی گیا ہے کہ اس وقت موہن بھاگوت اور نریندر مودی کے درمیان تعلقات خوشگوار نہیں ہیں۔

آر ایس ایس اور بی جے پی کے رشتوں کی تلخی کا تو اسی وقت علم ہوگیا تھا جب دوران انتخاب‘ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہہ دیا تھا کہ اب بی جے پی پختہ کار ہوگئی ہے اور اب اسے آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے۔ موہن بھاگوت کے بعداب آر ایس ایس کے ایک اور سینئر لیڈر اندریش کمار کے بیان نے تو صورتحال کی اور بھی زیادہ سنگینی ظاہر کردی ہے۔ بھلے ہی اندریش کمار نے تنظیمی دبائو کے نتیجہ میں بیان واپس لے لیا ہو لیکن بیانات کا یہ سلسلہ یہ تو بتاتا ہی ہے کہ سب کچھ پہلے کی طرح تو نہیں ہے اور ’ہمالیہ‘ اپنی جگہ سے ہل گیا ہے۔

جیسا کہ معلوم ہے کہ بی جے پی کو اس مرتبہ پچھلی دونوں مدت ہائے کار سے بہت کم نشستیں حاصل ہوئیں۔ ایسے میں وہ تنہا حکومت سازی کیلئے مطلوب 272 نشستوں کا نشانہ حاصل کرنے سے محروم رہ گئی۔ اگر اس کی دو حلیف پارٹیاں‘ تیلگو دیسم اور جنتا دل (یو) اسے حمایت نہ دیتیں تو بی جے پی حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔ یعنی اپنے دم پر لگاتار تیسری بار نریندر مودی کا وزیر اعظم بننے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا تھا۔

ہمیں آر ایس ایس قیادت کو ’معصوم‘ قرار دینے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ لیکن دیانتداری کا تقاضہ ہے کہ جب اس طرح کا کوئی جائزہ لیا جائے تو آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت کی طرز فکر کا جداگانہ تجزیہ کیا جائے۔ آر ایس ایس کے لوگ پہلے بھی مسلم قیادت یا مسلم دانشوروں سے ملتے رہے ہیں لیکن ایک مقصد کے تحت نمایاں طور پر ملاقاتوں کا جو سلسلہ موہن بھاگوت کے دور میں شروع ہوا وہ کچھ امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ضمن میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سپریم کورٹ سے بابری مسجد کے قضیہ کا فیصلہ آنے سے پہلے مسلمانوں کی نبض ٹٹولنے اور ان سے ہر صورتحال میں ’پر امن‘ رہنے کی ضمانت حاصل کرنے میں آر ایس ایس نے ہی موثر کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت آر ایس ایس کے سینئر لیڈروں نے واضح طور پر یہ پیغام دیا تھا کہ اگر رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار ہوتی ہے تو بس یہ آخری تنازعہ ہوگا اور اس کے بعد کسی اور مقام کا تنازعہ کھڑا نہیں کیا جائے گا۔

لیکن مکر و فریب اور نفرت و شرپسندی سے بھرے ہوئے گروہوں نے کاشی اور متھرا کا قضیہ زور شور سے اٹھانا شروع کردیا۔ ایسے گروہوں کو مرکزی اور (یوپی کی ) ریاستی حکومتوں نے چھپ کر بھی اور کھل کر بھی آگے بڑھایا۔ عدالتوں کے راستے سے وہی تمام طریقے اختیار کئے گئے جو بابری مسجد کے سلسلہ میں کئے گئے تھے۔ بی جے پی اور اس کی قبیل کے تمام گروپوں کو لگتا تھا کہ اب جبکہ سپریم کورٹ کے ذریعہ ہم نے بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرلیا ہے تو اس کے بعد پھر کیا اشو اٹھاکر الیکشن لڑیں گے۔ لہٰذا ایسے میں آر ایس ایس کو احساس ہوا ہوگا کہ ہم نے ملک بھر میں گھوم گھوم کر مسلمانوں اور ان کے دانشوروں سے جو وعدے کئے تھے ان کا کیا ہوگا۔

ممبئی میں 3 جون 2022 کی موہن بھاگوت کی وہ تقریر یاد کیجئے جس میں انہوں نے اپنے سینکڑوں عہدیداروں کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ: ’ٹھیک ہے کہ کاشی سے ہماری پرانی عقیدت ہے‘ وہاں جو کچھ ہوا اس کے ذمہ دار نہ ہندو ہیں اور نہ مسلمان‘ کچھ قانونی اشوز ہیں جو عدالت میں زیر غور ہیں‘ لیکن ہر مسجد کے نیچے شولنگ کیوں ڈھونڈنا؟‘ ہندو یہاں کے مسلمانوں کے مخالف نہیں ہیں‘ وہ بھی ہمارے ہی ہیں‘ ان کے آباء و اجداد بھی ہندو ہی تھے‘ ان کا عبادت کا طریقہ بھلے ہی باہر سے آیاہو لیکن وہ تو ہمارے ہیں‘ ہمارے یہاں کسی پوجا کی مخالفت نہیں ہے‘ آخر جھگڑا کیوں بڑھانا‘ روز ایک نیا معاملہ نکالنا‘ یہ بھی نہیں ہونا چاہئے۔‘

موہن بھاگوت کی اس نوعیت کی یہ پہلی تقریر تھی۔ لیکن اس سے بھی پہلے 4 جولائی 2021 کو انہوں نے جو تقریر کی تھی اس نے درحقیقت ایک سنسنی خیزی پیدا کردی تھی۔ دانشور اور قلم کار ڈاکٹر خواجہ افتخار احمد کی کتاب ’دی میٹنگ آف مائنڈس‘ کی تقریب رسم اجراء میں انہوں نے ’لنچنگ‘ کرنے والوں کو ہندوتو مخالف بھی قرار دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم سب کا ڈی این اے ایک ہے۔ ان کی اس تقریر کی مختلف حلقوں میں کافی پذیرائی ہوئی تھی۔ یہی نہیں کتاب کے مصنف خواجہ افتخار احمد نے موہن بھاگوت کے سامنے مسلمانوں کے عقیدے کی حساسیت اور اہمیت کو جس مضبوطی کے ساتھ رکھا اس کی بھی ستائش ہوئی تھی۔ اس سے ایک امید کی فضا قائم ہوئی تھی کہ اب مسلمانوں پر آنے والی سرکاری اور غیر سرکاری افتاد میں کچھ کمی آئے گی لیکن افسوس یہ ہے کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور شرپسندوں کی سرگرمیاں اسی طرح جاری رہیں۔

اس ضمن میں یہ ذکر بر محل ہوگا کہ میں نے وشو ہندو پریشد کے صدر آلوک کمار سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا تھا جو 5 فروری 2023 کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ’ہم مسلمانوں کے دشمن نہیں ہیں‘۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جو لوگ وی ایچ پی کے نام سے مسلمانوں پر حملے کرتے ہیں پولیس کو ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرنی چاہئے۔ انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ شرپسندی پھیلانے والے لوگ ان کی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتے۔

واقعہ یہ ہے کہ وی ایچ پی نے بی جے پی کیلئےآر ایس ایس کا متبادل بننے کی کوشش کی اور اس کے شرپسندوں نے ماحول کو گرم رکھا۔ حکومت نے اور خاص طور پر وزیر اعظم نے شرپسندوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی۔ ان کے کسی عمل سے نہیں لگا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کے تئیں کوئی ہمدردانہ جذبہ یا کم سے کم ان مسائل پر کوئی موقف رکھتے ہیں۔ اس کے برخلاف انہوں نے انتخابی مہم کے تیسرے دور میں مسلمانوں کے خلاف جو رویہ اختیار کیا اس نے سب کچھ آشکار کردیا۔ لگتا ہے کہ بی جے پی نے آر ایس ایس سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی۔ شاید اسے مسلمانوں سے ربط وضبط بڑھانے کی آرایس ایس کی نام نہاد کاوشیں اچھی نہیں لگیں۔ اسے لگا کہ اس طرح اس کا متشدد ہندو ووٹر اس سے دور ہوجائے گا۔۔

مودی نے خود کوبی جے پی اور آر ایس ایس کے تنظیمی ڈھانچہ سے بھی اوپر لاکر ایک ناقابل تسخیر اور مافوق الفطرت شخصیت میں تبدیل کرنا چاہا۔ انہوں نے کبھی اپنے اتحادیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ وہ انہیں خاطر میں ہی نہیں لائے۔سبب یہی تھا کہ انہیں کسی کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ خود ان کی جماعت کے پاس پہلی مدت میں 282 اور دوسری مدت میں 303 سیٹیں تھیں۔اس بار ان کا دعویٰ تھا کہ بی جے پی کو 370 سیٹیں ملیں گی کیونکہ حکومت نے جموں وکشمیر سے دفعہ 370 کی اس شق کا خاتمہ کیا تھا جس کے تحت اسے خصوصی درجہ حاصل تھا۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا تھا کہ بی جے پی کے اتحاد کو 400 سے زیادہ سیٹیں حاصل ہوں گی۔

پوری انتخابی مہم کے دوران آر ایس ایس کا کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ موہن بھاگوت کا اس عرصہ میں نہ کوئی بیان آیا اور نہ ہی وہ کسی پروگرام میں نظر آئے۔ عین انتخابات کے دوران 18مئی کو بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے انڈین ایکسپریس کو انٹرویو دیتے ہوئے آر ایس ایس کے تعلق سے جو کہا وہ ناقابل یقین تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب ہمیں آر ایس ایس کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ ایک الگ ثقافتی اور سماجی تنظیم ہے اور ہم جداگانہ طور پر ایک سیاسی جماعت ہیں۔

آرایس ایس کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ کبھی فوری ردعمل ظاہر نہیں کرتی۔ موہن بھاگوت نے 4 جون کےنتائج کا انتظار کیا اور 10 جون کو اپنے تنظیمی پروگرام میں کہہ ڈالا کہ ’’ایک سچا سیوک(خادم) متکبر نہیں ہوتا اور یہ کہ لوک سبھا انتخابات کے دوران وقار کا خیال نہیں رکھا گیا‘۔ انہوں نے منی پور میں ایک سال سے جاری تشددکے واقعات پر بھی سخت تنقید کی اور صورتحال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ اپوزیشن کو دشمن نہیں بلکہ حزب اختلاف کے طور پر دیکھنا چاہئے اور یہ کہ جمہوریت میں اتفاق رائے سب سے زیادہ مطلوب عمل ہے۔ ان کے اس بیان کو بی جے پی اور خاص طور پر مودی پر سادھا جانے والا نشانہ سمجھا گیا۔

14جون کو ایک پروگرام میں آر ایس ایس کے سینئر لیڈر اندریش کمار نے تو صاف صاف ہی کہہ دیا۔ ان کا تفصیلی بیان 15جون کی اشاعت میں شائع ہوچکا ہے جس میں انہوں نے بی جے پی کو متکبر اور مغرور قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’رام نے اپنے مغرور بھکتوں کی طاقت کو گھٹا کر 240 پر روک دیا۔ انہوں نے اپوزیشن کو بھی رام کا دشمن قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسے بھی رام نے 230 پر روک دیا۔ اتنے واضح بیان کے بعد خود آر ایس ایس نے بھی ان سے کنارہ کشی کرلی اور مذکورہ بیان کو ان کا ذاتی قرار دیا۔ اگلے ہی دن خود اندریش کمارنے بھی اپنا بیان واپس لے لیا۔ موہن بھاگوت کے بیان کی بھی وضاحت آگئی کہ انہوں نے بی جے پی پر نہیں بلکہ اپوزیشن پر تنقید کی تھی۔۔ ان دونوں وضاحتوں اور واقعات پر بس ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ اس صورتحال پر اس سے زیادہ تبصرہ درست نہیں ہوگا کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ فی الحال وقت کا انتظار کرنا ہوگا۔

مسلمانوں نے دوران انتخابات بھرپور سیاسی بصیرت سے کام لیا۔ لیکن ان کا یہ کردار ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ انہیں ابھی اسی سیاسی بصیرت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ میں نے کئی بار عرض کیا کہ 2014 کے نتائج نے مسلمانوں کے ووٹوں کو بے اثر اور 2019 کے نتائج نے ان کے ووٹوں کو بے وقعت بنادیا۔ لہٰذا ابھی انہیں سیاسی محاذ آرائی سے دور رہنا چاہئے۔ خدا کا شکر ہے کہ 2024 میں مسلمانوں نے سیاسی محاذ آرائی سے خود کو دور رکھا اور اپنے ووٹوں کی اثر انگیزی اور وقعت پذیری کو دوبارہ حاصل کرلیا۔ گوکہ شرپسندوں کے حوصلے پست ضرور ہوئے ہیں لیکن ابھی وہ پوری طرح راہ راست پر نہیں آئے ہیں۔ حکومت کی تشکیل کے بعد ملک کے کئی حصوں میں کچھ واقعات رونما ہوئے ہیں۔۔

نفرت انگیز ی کے اس ماحول سے بھی نپٹنا بہت ضروری ہے۔ ہر چند کہ تیسری بار بھی یہ مودی حکومت ہے لیکن فی الواقع یہ تنہا بی جے پی حکومت نہیں ہے۔ وزیر اعظم اس وقت اپنے 52 سیٹوں والےحلیفوں کی مدد سے حکومت چلا رہے ہیں۔ لہٰذا مسلمانوں کیلئے یہ ضروری ہے کہ وہ اپنے قائدین کو ساتھ لے کراپنے مسائل کے حل کیلئے اس حکومت سے موثر رابطہ کا کوئی مضبوط لایحہ عمل بھی ترتیب دیں۔۔۔

Leave a Comment