اِنصاف ٹائمس ڈیسک
سپریم کورٹ نے حال ہی میں ایک اہم فیصلے میں کہا ہے کہ اگر کوئی رومانوی تعلق ناکام ہو جاتا ہے، تو اسے زیادتی (ریپ) کا مقدمہ نہیں سمجھا جانا چاہیے۔ عدالت نے اس رجحان پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ باہمی رضامندی سے قائم تعلقات کے ختم ہونے پر زیادتی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، جس سے حقیقی جنسی استحصال کے مقدمات کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔
جسٹس بی وی ناگرتنا اور این کوٹیشور سنگھ کی بنچ نے کہا، "اگر کوئی عورت اور مرد طویل عرصے تک باہمی رضامندی سے جسمانی تعلقات میں رہتے ہیں اور بعد میں ان کا تعلق ختم ہو جاتا ہے، تو اسے زیادتی کا مقدمہ نہیں کہا جا سکتا۔”
عدالت نے مزید کہا کہ اگر کوئی عورت شادی کے وعدے کے بغیر یا کسی اور ذاتی وجہ سے جسمانی تعلق قائم کرتی ہے، تو اسے باہمی رضامندی سے بنا تعلق سمجھا جائے گا۔ اس لیے ایسے معاملات میں زیادتی کا الزام لگانا مناسب نہیں ہے۔
اس سے قبل، اگست 2022 میں، سپریم کورٹ نے ایک اور مقدمے میں کہا تھا کہ "اگر عورت اور مرد کے درمیان باہمی رضامندی سے تعلق قائم ہوا ہے، تو بعد میں زیادتی کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔”
عدالت نے یہ بھی واضح کیا کہ اگر باہمی تعلق میں مرد نے شادی کا وعدہ کیا تھا اور وہ وعدہ جھوٹا ثابت ہوتا ہے، تو یہ دیکھنا ضروری ہوگا کہ کیا اس وقت مرد کی نیت واقعی دھوکہ دینے کی تھی یا نہیں۔
سپریم کورٹ کے ان فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ باہمی رضامندی سے بنے تعلقات کے ناکام ہونے پر زیادتی کے الزامات لگانے کے رجحان کو روکا جانا چاہیے، تاکہ حقیقی جنسی استحصال کے مقدمات کی ساکھ برقرار رہے اور عدالتی نظام کا غلط استعمال نہ ہو۔