ڈاکٹر علیم خان فلکی:صدر سوشیو ریفارمس سوسائٹی
ہر گھر میں کم سے کم دو لوگ ایسے موجود ہیں جو 60+ ہیں۔ گوگل کے مطابق ان لوگوں کی آبادی کا فیصد 18 ہے۔ یہ گھر والوں کے لئے تو شائد۔۔۔ شائد ایک بزرگ اور رحمت ہیں لیکن یہ قوم اور امت کے لئے ایک رحمت ہیں یا بوجھ، آیئے اس کا جائزہ لیں۔
یہ وہ خوش قسمت لوگ ہیں جن کے پاس وہ دولت ہے جو باقی 78% لوگوں کے پاس نہیں۔ کئی ایک کے بچے سیٹ ہیں۔ ان کے پاس وقت ہے، وسائل ہیں تجربہ ہے اور تعلقات ہیں۔ یہ لوگ خبروں سے بھی واقف رہتے ہیں، قوم کے جو بھی حالات ہیں یہ دیکھ کر اگر ان کا ضمیر زندہ ہے تو بے چین بھی ہوتے ہیں۔ یہ چاہیں توقوم کے لئے بہت کچھ کرسکتے ہیں۔ اگر ہماری آبادی بیس کروڑ ہے تو اس حساب سے 60+ لوگوں کی تعداد 3.6 کروڑ ہے۔ اگر ان میں سے فرض کرلیں کہ صرف ایک کروڑ ہی ایسے ہیں جو اب بھی صحت مند چاق و چوبند ہیں، تو یہ اتنی بڑی تعداد ہے کہ ملک میں کوئی بھی انقلاب لانے کے لئے کافی ہے۔ گوگل پر ایک سرخی دیکھئے 2.5% Revolution۔ مصنف نے ثابت کیا ہے کہ ایران، فلپائن، عرب اسپرنگ حتٰی کہ خود آریس یس کا انقلاب صرف 2.5% آبادی ہی کی محنت اور قربانیوں کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ باقی آبادی جانوروں کی طرح ہوتی ہے جس کی پوری توجہ صرف اپنے پیٹ بھرنے پر ہوتی ہے۔اگر 60+ لوگ تحریکوں کا ساتھ دینے ہمت کرلیں تو صرف دو چار سال میں ہماری، ذلتیں، غربت، سیاسی زوال، ارتداد، نئی نسل کی آوارگی، اور بیروزگاری خٹم ہوسکتے ہیں۔ کسی بھی تحریک کو اٹھانے کے لئے پہلے قدم پر والنٹئرز کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن والنٹئرز دور دور تک نہیں ہیں۔ جو ہیں وہ داماد یا صمدھی کی طرح کسی مینٹنگ میں شرکت کرسکتے ہیں لیکن کوئی ذمہ داری اٹھانا ان کی شان کے خلاف ہے۔ نوجوانوں کو توخیر روزگار کا بہانہ کرنے کا حق ہے۔ لیکن یہ 60+ لوگ۔۔۔۔۔۔افسوس ہوتا ہے اِن سے مل کر۔ اِس عمر میں بھی اگر کوئی بات ان کے فائدے کی ہو تو بھاگ دوڑ کرسکتے ہیں لیکن اگر قوم کے لئے کچھ کام کرنے کی بات ہو تو ان کا رویّہ ایک معذور، مجبور، عاجز فقیر کی طرح ہوجاتا ہے۔ چونکہ سینیئاریٹی ان کی سائیکالوجی میں بس چکی ہے۔ یہ اب صرف مشورے، تبصرے، اعتراضات یا اپنی بڑائیاں کرسکتے ہیں، کام نہیں کرسکتے اور نہ کسی کو اپنا لیڈر تسلیم کرسکتے ہیں۔ یہ ہر جگہ خود ہی لیڈر، خود ہی دانشور، خود ہی عالم اور خود ہی مفتی ہوجاتے ہیں َ۔اور اگر ان کے پاس کروڑ دو کروڑ کا مال جمع ہے تو پھر یہ جس اونچائی پر کھڑے ہوکر بات کرتے ہیں، ان کے ذہن میں ہر عالم، ہر قائد اور ہر جماعت بس چندے مانگنے والے افراد کی ہے۔
جہاں تگ عورتوں کا تعلق ہے، ان کی پوری زندگی کا مقصد خاندانی سیاست، شادیاں اور دعوتیں ہوتی ہیں۔ ان کو قوم کے لئے کچھ کرگزرنے والے مردوں کی ہرگز ضرورت نہیں بلکہ ان کو شاپنگ کروانے والے، گھر کا سودا سلف لانے والے مردوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی لئے وہ مردوں کی تربیت بھی اسی انداز سے کرتی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے تیس مار خان بھی گھر کے باہر تو اصلاحِ معاشرہ کی ہر تحریک میں شاندار تقریریں فرماتے ہیں، لیکن گھر کے اندر کی مہارانی جودھابائیوں کے آگے جھک جاتے ہیں۔
میرے 60+ دوستو؛ زندگی ون ڈے کرکٹ میچ کی طرح کا ایک گیم ہے۔ اب آپ اس کے آخری پانچ چھ Overs میں ہیں۔ آپ اپنی زندگی کا کھیل کھیل چکے۔پچاس اوورس مکمل ہونے کے بعد آپ صرف پویلین میں بیٹھیں گے، آپ کو میدان میں کوئی آنے نہیں دے گا۔ اس سے پہلے کچھ کرجایئے۔ ہمارے باپ دادا نے اپنی جان اور اپنے مال کو بچا بچا کر رکھا۔ اپنے بیٹوں اور دمادوں کی بھی یہی تربیت کی، جس کے نتیجے میں آج ہم سیکنڈ کلاس سیٹیزن بن چکے ہیں۔ اگر آپ بھی اپنی جان اور پیسے کو بچا بچا کر رکھیں گے تو کل آپ کے نواسے اور پوتے تھڑڈ کلاس سیٹیزن بننے والے ہیں، خدارا غور کیجئے۔ یاد رکھئے اللہ تعالیٰ نے زندگی کے تین حصے بنائے ہیں۔ ایک حصے میں آپ ماں باپ اور بھائی بہنوں کے لئے سب کچھ کرتے ہیں، دوسرے حصے میں بیوی بچوں کے لئے یا پھر دامادوں کو خریدنے کے لئے۔ تیسرا حصہ جو عموماً 60+ کے ساتھ شروع ہوتا ہے، یہ امت کے لئے ہے۔ اگر یہ بھی کمانے یا خاندان کی چوکیداری میں گزر گیا تو کل بیٹے بہو اور داماد صرف یہ کہہ کر یاد کرینگے گہ بڑے میاں بہت اچھے تھے، ہمارے لئے بہت کچھ چھوڑ کر مرے، لیکن اس امت کے لئے آپ کا وجود ایک جانور سے زیادہ نہیں ہوگا جو کسی گلی میں مرجائے تو کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، اور نہ کوئی یاد کرتا ہے۔ بس اتنا ہی ہوتا ہے کہ کوئی دو چار قدم آپ کی میّت کو کندھادے دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں عدل و قسط یعنی Justice قائم کرنے کے لئے بھیجاتھا، اور ساتھ ہی ایک قانون کی کتاب بھی دی تھی۔یہ کتاب آپ نے خود جو زندگی بھر سمجھنے کی کوشش نہیں کی، بس چند عبادتوں سے کام چلاتے رہے، اب آپ کے مرنے کے بعد لوگ آپ کے سرہانے اِسے پڑھتے بیٹھیں گے تو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔جب آپ انصاف کو قائم کرنے کی کوئی تحریک کا ساتھ نہیں دے سکے، بس چند خدمت خلق کے کاموں میں کچھ چند ہ دے کر بہت بڑا کارنامہ سمجھتے رہے تو اب دشمن آپ کے ساتھ انصاف کریں گے، وہ انصاف یہ ہے کہ وہ آپ کے دین، کلچر، تاریخ اور اکنامی کو مکمل تباہ کرنے کا فیصلہ کرچکے ہیں۔ آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ پوری قوم ڈرائیوروں، سیلزمینوں اور کارخانوں یا کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں کی قوم بن چکی ہے۔سرکاری دفتروں، بینکوں، یا بڑے اداروں میں بڑے عہدوں پر آپ کی قوم کا داخلہ بند کیا جاچکاہے۔ آپ جانتے نہیں کہ آپ کی قوم کی عورتوں میں زناکاری، فحاشی، ارتداد اد اور ناجائز ابورشنز کا کیا تناسب ہے؟ چند ایک پیٹ بھروں اور مستی خوروں کا شادیوں میں پیسہ لٹانے کا کیا حال ہے؟ جیلوں میں آپ کی قوم کے قیدیوں کا کیا تناسب ہے؟ سِگنلوں پر ریڈ سگنل ہوتے ہی جو فقیروں کی فوج دوڑ کر آتی ہے، وہ کس کی قوم ہے؟ یہودیوں، نصرانیوں یا زعفرانیوں پر سازش کا الزام دینے سے کیا آپ کی ذلتیں کم ہوجائیں گی؟
کرنا کیا ہے؟
دوستو؛ موت بہت قریب ہے۔ یہ مت سمجھئے کہ آپ مرہی جائیں گے۔مریں گے نہیں لیکن 60+کے ساتھ ہی کوئی بھی بیماری آپ کو بستر کا کردے گی۔ تب آپ کی آزادی چھن جائیگی۔ حتیٰ کہ جس پیسے کو آپ نے ساری زندگی جس طرح بھی کمایا ہوگا اس کو خرچ کرنے کی آزادی بھی آپ کے پاس نہیں ہوگی۔ تنہا گھر یا دواخانے میں قید ہوں گے کوئی ایک دو گھنٹے پاس بیٹھنے والا نہیں ہوگا، یہ موت سے بدتراسٹیج ہوتا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ بے بسی کا عالم آئے قوم کے لئے گھر سے نکلئے اور کچھ کیجئے۔اِس وقت یقیناً ایجوکیشن، خدمت خلق، اصلاحِ معاشرہ، سیاسی بیداری وغیرہ وغیرہ یہ تمام کا اہم ہیں، لیکن لوگوں کو یہ شعور نہیں ہے کہ جس طرح عمارت کی تعمیر میں بنیاد کے ستون اہم ہوتے ہیں، اسی طرح قوم میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کے لئے ایک Mass force کی ضرورت ہوتی ہے۔ بیس پچیس ممبروں سے یا لاکھ دولاکھ چندہ جمع کرلینے سے سو یا دو سو غریبوں کا کچھ فائدہ تو ضرور ہوسکتا ہے، لیکن بیس کروڑ مسلمانوں کا جو سیاسی، سماجی، مذہبی اورمعاشی مستقبل تباہ کیا جارہا ہو، اس کو نہیں بچایا جاسکتا ہے۔ پہلے اپنی ایک عددی طاقت Number strength کو دکھانا لازمی ہے۔ یہ 60+ لوگ گھروں سے نکلیں اور ہر جلسے، ہر سیمینار، ہر میٹنگ میں آنے والوں کی تعداد بڑھائیں تو یہ سب سے پہلا قدم ہے اپنی آواز کو منوانے کا۔ دوسری قومیں اپنے مسائل لے کر سینکڑوں کی تعداد میں جب جمع ہوجاتی ہیں اور سڑکوں پر آجاتی ہیں تو ان کے مسائل سنے بھی جاتے ہیں، اور ان کی طاقت تسلیم بھی کی جاتی ہے۔ ایک آپ ہی کی قوم ہے جس کے دل و دماغ میں اتنا خوف بٹھادیا گیا ہے کہ گھروں سے ہی نہیں نکلتے۔اور یہی وجہ ہے کہ اگر کسی میٹنگ میں کوئی معمولی کانسٹیبل بھی آجائے تو بڑی بڑی انقلابی باتیں کرنے والے بالکل اسی طرح بھاگتے ہیں جس طرح بلی کی آہٹ پا کر چوہے بھاگتے ہیں۔
شادی بارات، عرس یا اجتماع میں تو ہزاروں جمع ہوجاتے ہیں کیونکہ وہاں کوئی روک ٹوک نہیں ہے، لیکن بات جب قوم کو بیدار کرنے کی آتی ہے توقوم کو قانون اور سزاوں کے خوف سے ڈرانے والے دشمن سے زیادہ یہی 60+ لوگ ہوتے ہیں۔ کسی بھی تحریک کی دھاک بٹھانے کے لئے سب سے پہلے اس کی میٹنگس میں جمع ہونے والے افراد کی تعداد دیکھی جاتی ہے۔ جہاں صرف پچاس یا سو لوگ جمع ہوں ایسی میٹنگس کی نہ حکومت نوٹس لیتی ہے، نہ میدیا اور نہ عام آدمی کو اس سے کوئی دلچسپی پیدا ہوتی ہے۔ تحریک کی دعوت دینے والے بے چارے پوری پوری محنت کرتے ہیں، اگر نوجوان نہ آئیں کوئی بات نہیں، یہ وظیفہ یاب بوڑھے ہی اگر ہزاروں کی تعداد میں آجائیں تو ہر دل میں ایک دھاگ بیٹھتی ہے۔لیکن یہ 60+ بوڑھے صرف صلاح الدین ایوبی اور خالد بن ولید یا پھر ارتغرل کی باتیں کرینگے، آگے بڑھ کر اپنی انا کو قربان کرکے کام کرنے والوں کا ساتھ ہرگز نہیں دیں گے۔ان کے اسی خوف کو پولیس بھی استعمال کرتی ہے، اور یہ اپنے بیٹوں اور دامادوں کی سلامتی کی گیارنٹی لے کر مخبری کرتے ہیں۔ کتنی افسوسناک بات ہے کہ قوم میں مجاہد کوئی پیدا نہیں ہورہا ہے لیکن مخبر سینکڑوں پیدا ہورہے ہیں۔
کانشی رام نے ایک بات کہی تھی کہ جس کی جتنی سنکھیا بھاری اس کی اتنی بھاگیہ داری۔غیرقوم کے لوگ اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل کے لئے سینکڑوں کی تعداد میں جمع ہوتے ہیں اس لئے نیشنل میڈیا، سرکاری ادارے اور حکومت ان کا نوٹس لیتے ہیں اور ان کے مسائل کچھ حل بھی کئے جاتے ہیں، لیکن ہماری قوم صرف سوشیل میڈیا یا اردو اخباروں میں لکھ کر ہی انقلاب لانا چاہتی ہے، کہیں اپنی Mass strength بتانا ہی نہیں چاہتی، کسی کو قائد تسلیم کرکے اس کا ساتھ دینا ہی نہیں چاہتی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج کوئی قومی سیاسی پارٹی آپ سے بات کرنا نہیں چاہتی، بلکہ آپ کو منہ لگانا نہیں چاہتی۔ نہ انہیں آپ کے وجود کی اہمیت ہے نہ ووٹ کی۔ اسلئے آپ ہر اسمبلی، کارپوریشن، پارٹی، پنچایت اور ہر ہر ادارے جیسے عدلیہ، ایجوکیشن، پولیس، فوج، وغیرہ سے باہر ہیں۔ اگر کہیں ہیں بھی تو ان کی حیثیت قصاب کی دوکان کے سامنے دور کھڑے ایک کمزور کتے کی سی ہے جو صرف زیرلب غراتا رہتا ہے لیکن اس کے حصے میں کوئی موٹا چھیچھڑا نہیں آتا۔ آپ گھر میں بیٹھنے کے بجائے ایسی میٹنگس میں شرکت شروع کیجئے۔ شہر میں اتنے اہم سیمینار اور مشاورتی اجلاس ہوتے ہیں، ان میں نہ علما شریک ہوتے ہیں، نہ دانشور، نہ عوام نہ نوجوان۔اگر ایسے اجلاسوں میں پندرہ بیس ہزار لوگ جمع ہوجائیں تو پھر سیاسی پارٹیاں ہوں کہ سرکاری ادارے، سارے آپ سے خود آکر بات کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ لیکن اس کے لئے آپ کو سب سے پہلے یہ کام کرنا ہوگا کہ جو چھوٹی چھوٹی تنظیمیں بنا کر چھوٹے چھوٹے کام آپ کررہے ہیں وہ ضرور کرتے رہئے، لیکن ایک بڑے مقصد کے لئے بڑے کاموں میں کم سے کم وہاں اپنی قوم کا ہیڈ کاؤنٹ یعنی حاضرین کی تعداد کی طاقت بڑھانے کا کام کیجئے۔ اس سے بہت فائدہ ہوگا۔
دوسرا کام یہ کیجئے کہ اپنے دماغوں سے یہ وسوسہ نکالئے کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ اللہ تعالیٰ کل آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ قوم کے لیڈروں یا جماعتوں نے کوئی انقلاب کیوں نہیں لایا۔ لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا، ولا تسئلون عن اصحب الجحیم۔ یعنی آپ سے صرف ایک سوال ہوگا کہ آپ اپنی استطاعت کے مطابق کیا کرکے آئے۔ آپ کو صرف اپنے مال اور اپنے وقت اور اپنی صلاحیتوں کا جواب دینا ہے۔ بس کرتے جایئے۔ سر سید کو اگرچہ کہ ساری عمر کافر، مشرک اور مرتد تک کہا گیا، ان کی میت کے لئے بھی چندہ کرنا پڑا، لیکن وہ اپنے انجام سے بے نیاز ہوکر جو کام کرگئے، آج ان کو مشرک اور کافر کے فتوے دینے والوں کی نسلوں میں جو بے شمار تعلیم یافتہ ہیں، وہ سر سید کے لئے دعائے مغفرت کررہے ہیں۔ آپ بھی بھول جایئے کہ آپ کو پھول پہنائے جائیں گے یا وزیراعظم یا چیف منسٹر یا پھر کوئی صدارت یا چیف گیسٹ کی کرسی دی جائیگی۔ اپنے آپ کو ابوبکر، عمر علی رض کی طرح بس ایک والنٹئر بنا کر کام کرنا شروع کردیجئے۔ اللہ چاہے گا توآپ سے دنیا میں کوئی بڑا کام لے لے گا ورنہ آخرت میں تو آپ کو جو مقام ملنے والا ہے، اس کی عظمت کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا۔
آخری بات یہ کہ اپنی گھر کی عورتوں کی دلچسپیوں کا رخ موڑیئے۔ عورتوں کی اکثریت کے دل اور دماغ زیور، کپڑوں، رشتوں، دعوتوں، بیوٹی پارلر یا انٹرٹینمنٹ میں اٹکے ہوئے ہیں، ان کو خدارا قوم کے حالات بتایئے۔یہ نمازیں پڑھ کر یا خیرات کرکے سمجھ رہی ہیں کہ اسلام قائم ہوگیا۔ اسلام قائم ہوتا ہے گھر سے نکلنے اور مردوں ہی کے متوازی تحریکوں کو زندہ کرنے میں۔ وہاں بھی ہیڈ کاؤنٹ ہی کی اہمیت ہے۔ یقین نہ آئے تو غیرقوم کی عورتوں کو دیکھ لیجئے۔ اسی لئے انہیں بھی ہر جگہ ایک ریزرویشن دیا جارہا ہے۔ اور ہماری عورتیں قومی سطح پر، مذہبی اور کلچرل سظح پر گونگی، بہری اور گونگی ہیں۔
اگر آپ اپنے شہر یا حلقے میں اس موضوع پر کوئی ورکشاپ رکھیں، یا کم سے کم زوم میٹنگ کریں تو ہم آپ کی بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں کہ 60+ ہونے کی نعمت کا کیسے بہترین استعمال کرسکتے ہیں۔ ہم سے رابطہ رکھئے۔ ہمارا نمبر ہے۔ 9642571721