اِنصاف ٹائمس ڈیسک
رمضان کے مقدس مہینے سے قبل، شری نگر میں تین کشمیری مسلم خواتین کو قرآن تقسیم کرتے دیکھا گیا۔ سیکیورٹی ایجنسیوں نے ان خواتین کو عارضی طور پر گرفتار کر کے پوچھ گچھ کی اور بعد ازاں انہیں گھر روانہ کر دیا گیا۔
مقامی ذرائع کے مطابق، انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ قدم عوامی امن و امان برقرار رکھنے اور ممکنہ ہنگاموں سے بچاؤ کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ تاہم، اس کارروائی نے مذہبی اظہار اور نظریات کے پھیلاؤ کی آزادی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔
ماہرین اور شہری تنظیموں کا خیال ہے کہ مذہبی مواد کی تقسیم بنیادی اظہار خیال کا حصہ ہے، اور اسے روکنا جمہوریت میں آزادی اظہار کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں نہ صرف مذہبی جذبات کو مجروح کرتی ہیں بلکہ نظریات اور فکر کے پھیلاؤ کی آزادی کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
*سماجی ردعمل اور خدشات
سوشل میڈیا پر اس واقعے پر وسیع ردعمل سامنے آیا ہے۔ متعدد شہری اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس واقعے کو "اظہار رائے کی آزادی پر حملہ” قرار دیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ جب تک مذہبی نظریات اور ثقافتی اظہار کو آزادانہ طور پر پھیلنے دیا جائے گا، تب تک معاشرے میں ہم آہنگی اور تنوع برقرار رہے گا۔
حریف جماعتوں اور عوامی رائے نے بھی اس اقدام کی سخت مذمت کی ہے اور اسے مذہبی سرگرمیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش قرار دیا ہے، جس سے جمہوری اقدار پر سوالات اٹھتے ہیں۔
*مزید تحقیقات اور ردعمل
اس واقعے کی تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک معاملے پر کوئی واضح بیان جاری نہیں کیا گیا ہے، جبکہ انسانی حقوق کی تنظیموں نے فوری طور پر اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے آزاد اظہار اور نظریات کے پھیلاؤ کی اہمیت پر زور دیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر مذہبی اظہار اور خیالات کے پھیلاؤ کو مسلسل کنٹرول کیا گیا تو یہ جمہوری اقدار، ثقافتی تنوع اور سماجی اتحاد کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔