انصاف ٹائمس ڈیسک
سپریم کورٹ نے سیاست میں مجرمانہ عناصر کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ پر سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا، "جب ایک مجرم سرکاری نوکری نہیں کر سکتا، تو سزا یافتہ رہنما انتخابات کیسے لڑ سکتا ہے؟” عدالت نے اس معاملے پر مرکزی حکومت اور الیکشن کمیشن سے تین ہفتے کے اندر جواب طلب کیا ہے۔
یہ اہم سوال ایڈوکیٹ اشونی اپادھیائے کی جانب سے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی کی سماعت کے دوران اٹھایا گیا۔ عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مجرمانہ پس منظر رکھنے والے رہنماؤں پر تاحیات انتخابات لڑنے کی پابندی عائد کی جائے اور عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 8 اور 9 میں ترمیم کی جائے۔
سپریم کورٹ کی سخت تنقید:
جسٹس دیپنکر دتہ اور جسٹس منموہن کی بینچ نے کہا، "جب ایک سرکاری ملازم مجرم قرار دیے جانے کے بعد ہمیشہ کے لیے ملازمت سے نکالا جا سکتا ہے، تو یہی معیار رہنماؤں پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟” عدالت نے مزید کہا کہ مجرموں کا سیاست میں داخلہ جمہوریت کو کمزور کرتا ہے اور اس پر سخت اقدامات کی ضرورت ہے۔
مجرم رہنماؤں کی تعداد پر گہری تشویش:
رپورٹس کے مطابق، موجودہ لوک سبھا کے 543 اراکین میں سے 251 کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج ہیں، جن میں سے 170 سنگین جرائم کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس صورتحال پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ جمہوریت کے لیے خطرناک ہے۔
عرضی کے اہم مطالبات:
1.سزا یافتہ رہنماؤں پر تاحیات انتخابات لڑنے کی پابندی۔
2.سیاست میں مجرمانہ عناصر کو روکنے کے لیے سخت قوانین۔
3.عوامی نمائندگی ایکٹ کی دفعہ 8 اور 9 میں ترمیم۔
عدالت نے معاملے کو بڑی بینچ کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگلی سماعت 4 مارچ کو ہوگی۔ یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اس عرضی اور سپریم کورٹ کے خیالات کا بھارتی سیاست پر کیا اثر پڑے گا۔