مرشد آباد میں وقف ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج کے دوران پولیس کی بربریت: 1 نوجوان شہید، کئی زخمی، 118 گرفتار — پولیس کی کارروائی پر اٹھے سوالات

Spread the love

انصاف ٹائمس ڈیسک

وقف ترمیمی قانون کے خلاف مغربی بنگال کے ضلع مرشد آباد کے ساجور موڑ (سوتی) میں جمعہ کے روز بھڑکے مظاہروں کے دوران پولیس کی فائرنگ میں 21 سالہ مسلم نوجوان اعجاز مومن جاں بحق ہو گیا۔ وہ ہفتہ کی شام مرشد آباد میڈیکل کالج و اسپتال میں زندگی کی جنگ ہار گیا۔

واقعے کے بعد پورے علاقے میں کشیدگی کا ماحول ہے۔ عینی شاہدین اور مقامی شہریوں کا الزام ہے کہ مظاہرین پُرامن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے، لیکن پولیس نے بغیر کسی وارننگ کے لاٹھی چارج اور فائرنگ شروع کر دی۔

تین زخمی، ایک کی حالت نازک

پولیس کی فائرنگ میں تین دیگر مظاہرین—غلام مدین شیخ، حسن شیخ اور ایک نامعلوم شخص—زخمی ہو گئے، جنہیں جنگی پور اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ، 118 افراد گرفتار

جمعہ سے جاری جھڑپوں میں درجنوں مظاہرین اور 15 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔ پولیس نے اب تک 118 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ علاقے میں بھاری پولیس فورس تعینات کر دی گئی ہے اور انٹرنیٹ سروس جزوی طور پر بند کر دی گئی ہے۔

وقف ترمیمی قانون عوامی غصے کی بڑی وجہ

احتجاج کی چنگاری مرکزی حکومت کے متنازع وقف (ترمیمی) قانون کی منظوری کے بعد بھڑکی۔ مسلم تنظیموں اور مقامی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ یہ قانون وقف جائیدادوں اور کمیونٹی کے آئینی حقوق پر براہ راست حملہ ہے۔

سیاسی ردعمل اور عوامی غم و غصہ

واقعے کو لے کر سیاسی حلقوں میں بھی شدید غم و غصہ ہے۔ کئی سماجی تنظیموں نے پولیس کی ظالمانہ کارروائی کی مذمت کرتے ہوئے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں، جاں بحق ایجاز کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا نہتا تھا اور صرف آئین کے تحت اپنی بات کہہ رہا تھا۔

کیا اب جمہوری احتجاج کی آوازیں گولی سے دبائی جائیں گی؟

یہ واقعہ نہ صرف پولیس کے کردار پر سوالیہ نشان ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ آئینی حقوق کے لیے آواز اٹھانا اب جان لیوا ہوتا جا رہا ہے۔ وقف ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں جاری ناراضگی اور احتجاج کے درمیان مرشد آباد کا یہ سانحہ ایک وارننگ ہے کہ اگر عوام کی آواز نہ سنی گئی، تو حالات مزید بگڑ سکتے ہیں۔

Leave a Comment