ملعون کتنے دنوں سے شور مچا رہا تھا اور قرآن پاک کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کے دل دکھا رہا تھا۔وہ مجموعی طور پر قرآن کے بارے میں اور خاص طور پر 26 آیات کے بارے میں کیسی کیسی من مانی تشریح کرکے نعوذ باللہ قرآن کو دہشت گردی کی طرف مائل کرنے والی کتاب قرار دے رہا تھا۔یہاں تک کہ اس نے اپنی رٹ میں یہ بھی لکھا تھا کہ قرآن ہے تو الله کی کتاب لیکن یہ تشدد کو بڑھاوا دیتی ہے۔لیکن آج جب سپریم کورٹ میں یہ رٹ سماعت کیلئے بنچ کے سامنے رکھی گئی تو اس ملعون کی ہوا نکل گئی۔۔۔آج جیسے ہی اس رٹ کا نمبر آیا تو سہ رکنی بنچ کے سربراہ جسٹس آر ایف نریمن نے ملعون کے وکیل سے سوال کیا کہ: کیا واقعی آپ اس رٹ کے تعلق سے اب بھی سنجیدہ ہیں؟جسٹس نریمن نے یہ سوال دو بار کیا۔ملعون کے وکیل آر کے رائے زادہ کی زبان سے صرف اتنا نکل سکا کہ ’مائی لارڈ میں اپنی رٹ کو صرف اس بات تک محدود رکھنا چاہتا ہوں کہ مدارس میں دی جانے والی تعلیم کو ریگولیٹ کیا جائے۔کیونکہ مدارس میں بچوں کے ذہنوں میں غیر مسلموں کے خلاف تشدد کی تعلیم دی جاتی ہے اور وہ آیات پڑھائی جاتی ہیں جو تشدد کو بڑھاوا دیتی ہیں۔۔ملعون کا وکیل اپنی بات ٹھوس انداز میں کہہ ہی نہ سکا۔وہ کہہ بھی نہیں سکتا تھا۔یہ الله کا کلام تھا جس کے بارے میں وہ اپنی زبان سے ہفوات بکنا چاہتا تھا۔لیکن معلوم نہیں اس کی زبان کو کیا ہوا۔اس کے ارادوں کو کیا ہوا۔وہ اس سے زائد کچھ نہ کہہ سکا۔ہاں وہ ایک ہی بات کو دوہراتا رہا۔جسٹس آر ایف نریمن نے اس سے جو سوال کیا تھا وہ اس کا کوئی مسکت جواب نہیں دے سکا۔سہ رکنی بنچ مطمئن نہ ہوئی اور کوئی جرح کئے بغیر جسٹس نریمن نے کہا: یہ ایک انتہائی نامعقول رٹ ہے۔۔۔۔ اس رٹ کو خارج کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ملعون کے اوپر 50 ہزار روپیہ کا جرمانہ بھی عاید کردیا۔۔عام طورپرجب کوئی نامعقول‘ غیر سنجیدہ اور عبث رٹ خارج کی جاتی ہے تو جرمانہ نہیں لگایا جاتا۔۔۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ رٹ کنندہ درخواست کرتا ہے کہ وہ اپنی رٹ میں کچھ اصلاح کرکے دوبارہ دائر کرنا چاہتا ہے۔۔لہذا عدالت اس کی اجازت دیدیتی ہے۔یہ بھی ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ رٹ خارج کرتے ہوئے رٹ کنندہ کو متعلقہ ہائی کورٹ یا کسی دوسرے مجاز ٹریبونل کے سامنے رٹ دائر کرنے کی چھوٹ دیدیتی ہے۔۔ لیکن جب کسی رٹ کو خارج کرکے جرمانہ بھی عاید کرتی ہے تو اس کا مفہوم بڑا وسیع ہوتا ہے۔کم سے کم اتنا تو ہوتا ہی ہے کہ عدالت اس رٹ کے دائر کرنے پر بہت سخت ناراض ہے اور وہ رٹ کنندہ کو ایک طرف جہاں اس لغو رٹ کے دائر نے پر سزا دینا چاہتی ہے وہیں دوسری طرف وہ آئندہ کیلئے اس طرح کی رٹ دائر کرنے کے راستے بند بھی کرنا چاہتی ہے۔۔۔آج کے معاملہ میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ بنچ اس رٹ کے دائر کرنے پر بہت سخت ناراض تھی۔اس لئے اس نے نہ صرف جرمانہ عاید کیا بلکہ آئندہ کے لئے بھی سارے راستے بند کردئے۔جہاں تک اس طرح کی رٹ کے خارج کرنے کے اسباب کا سوال ہے تو 1987میں اس کا جواب کلکتہ ہائی کورٹ دے چکی ہے۔چاند مل چوپڑا اور سیٹھ لال سنگھ نے اسی طرح کی رٹ دائر کی تھی۔عدالت نے اس رٹ کو خارج کرتے ہوئے لکھا تھا: ہمارا موقف یہ ہے کہ عدالتیں قرآن یا قرآن کے کچھ حصوں کو قانون کی کسوٹی پر نہیں پرکھ سکتیں۔کسی مذہب کو قانون کے کٹگھرے میں کھڑا کرنے کی اجازت نہیں ہے۔اسی طرح سے عدالتیں فلسفہ کی تشریحات یا سائنسی اصولوں کا قانونی جائزہ نہیں لے سکتیں اور نہ لے سکیں گی۔سپریم کورٹ کی یہ آئینی بنچ تھی جس نے آج ملعون کی رٹ خارج کی۔ یہ معاملہ عدالت اور اس ملعون کے بیچ تھا۔سپریم کورٹ سے یہی فیصلہ متوقع تھا۔اس فیصلہ پر انصاف پسند عوام کو اورخاص طور پر مسلمانوں کو خوش ہونا ہی چاہئے۔لیکن اب اس معاملہ کو یہیں ختم سمجھا جانا چاہئے۔ہمارے بعض پر جوش احباب ہر زبان میں اور خاص طورپر اردو اور ہندی زبانوں میں سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھ رہے ہیں جس کی اب ضرورت نہیں ہے۔۔ بعض لوگ سپریم کورٹ کو ہی مشورے دے رہے ہیں کہ اسے یہ بھی کرنا چاہئے تھا اور وہ بھی کرنا چاہئے تھا ۔۔۔ یہ انتہائی نامعقول رویہ ہے۔۔ یہاں تک کہ اس ملعون کو یاد دلارہے ہیں کہ رٹ خارج ہونے کی صورت میں اس نے کیا کیا وعدے کئے تھے۔ان میں سے ایک خود کشی کا بھی تھا۔میرا خیال ہے کہ اب اس طرح کی بات مناسب اور درست نہیں ہے۔اس کے بہت سے قانونی دور رس منفی نتائج اور اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔اب تو الله کا شکر ادا کیا جائے اور اپنے دلوں میں جھانک کر دیکھا جائے کہ کیا واقعی ہم قرآن کی تعلیمات پر بھی عمل کر رہے ہیں؟