انصاف ٹائمس ڈیسک
بھارت کی جمہوریت کی جڑیں جتنی گہری ہیں، اتنی ہی مضبوط اس کی بنیاد بھی ہے، اور یہ بنیاد ہمیں گرام پنچایتوں میں نظر آتی ہے۔ ہر سال 24 اپریل کو پورے ملک میں "قومی پنچایتی راج دیوس” منایا جاتا ہے۔ یہ دن صرف ایک تہوار نہیں، بلکہ بھارت کی جمہوریت کی نچلی سطح کی حکمرانی کے نظام کی طاقت اور اہمیت کی یاد دہانی بھی ہے۔ یہ دن مہاتما گاندھی کے "گرام سوراج” کے اُس خواب کی بھی یاد دلاتا ہے، جس میں انہوں نے ہر گاؤں کو خود کفیل، خود مختار اور جمہوری طور پر بااختیار بنانے کا تصور پیش کیا تھا۔
بھارت میں پنچایتی راج نظام کی رسمی شروعات 1959 میں ہوئی، جب بلونت رائے مہتا کمیٹی کی سفارشات کے بعد راجستھان کے ناگور ضلع میں پہلی پنچایت کا افتتاح کیا گیا۔ حالانکہ اس کی بنیاد آئین سازی کے وقت ہی پڑ گئی تھی، جب ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں میں مقامی حکومت کے تصور کو شامل کیا گیا۔ 1992 میں آئے 73ویں آئینی ترمیمی قانون نے اس نظام کو آئینی درجہ عطا کیا، اور 24 اپریل 1993 سے یہ قانون نافذ ہوا۔ تب سے ہر سال اس دن کو "پنچایتی راج دیوس” کے طور پر منایا جاتا ہے۔
مہاتما گاندھی کا ماننا تھا کہ "بھارت کی روح گاؤں میں بسی ہے”۔ ان کا گرام سوراج کا تصور صرف حکمرانی کے نظام تک محدود نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سماجی و اقتصادی خود کفالت کا نظریہ تھا۔ گاندھی جی ایسے گاؤں کا تصور کرتے تھے جہاں لوگ اپنے فیصلے خود لیں، اپنی مشکلات کا حل اجتماعی کوشش سے کریں اور اپنے ترقیاتی راستے کا تعین خود کریں۔
آج پنچایتی راج نظام تین سطحوں پر مبنی ہے: گرام پنچایت (گاؤں کی سطح)، پنچایت سمیتی (تحصیل سطح)، اور ضلع پریشد (ضلع سطح)۔ یہ ڈھانچہ اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ یہ مقامی ضروریات کو سمجھ کر فیصلے لے سکے۔ دلتوں، قبائلیوں، پسماندہ طبقات اور خواتین کو ریزرویشن دے کر اس نظام کو شمولیتی بنایا گیا ہے تاکہ جمہوریت صرف اکثریت کا کھیل نہ رہ جائے بلکہ سب کی شرکت کا ذریعہ بنے۔
73ویں ترمیم نے پنچایتوں کو صرف علامتی نہیں بلکہ حقیقی انتظامی اور مالی اختیارات عطا کیے۔ آئین کی گیارھویں شیڈول کے تحت پنچایتوں کو زراعت، آبپاشی، صحت، تعلیم، خواتین و اطفال کی ترقی سمیت 29 شعبوں میں کام کرنے کی ذمہ داری دی گئی۔ یہ نظام ترقیاتی منصوبہ بندی کے عمل کو "اوپر سے نیچے” کی بجائے "نیچے سے اوپر” لانے کی کوشش ہے۔
اگرچہ پنچایتی راج نظام نے بھارت میں جمہوریت کی بنیاد کو مضبوط کیا ہے، لیکن اس کی راہ آسان نہیں رہی۔ بدعنوانی، تربیت کی کمی، محدود وسائل اور سیاسی مداخلت جیسے مسائل آج بھی اس کی رفتار کو متاثر کرتے ہیں۔ اس کے باوجود، یہ نظام دیہی بھارت کو آواز دینے اور انہیں فیصلوں میں شریک بنانے کا سب سے مؤثر ذریعہ بنا ہوا ہے۔
قومی پنچایتی راج دیوس صرف ایک تاریخ نہیں، بلکہ ایک یاد ہے اُس نظریے کی، جس میں ہر شہری کی ترقی، شرکت اور حق شامل ہے۔ اگر ہمیں گاندھی جی کے گرام سوراج کے خواب کو حقیقت میں بدلنا ہے تو پنچایتوں کو مزید بااختیار، شفاف اور جواب دہ بنانا ہوگا۔
گاؤں کی گلیوں سے اٹھنے والی یہی جمہوری آواز حقیقی بھارت کی پہچان ہے۔ یہی وہ آواز ہے جو جمہوریت کو زمین سے جوڑتی ہے اور ایک شمولیتی، بااختیار بھارت کی طرف ہمیں لے جاتی ہے۔
(یہ اسٹوری محمد فیضان نے تیار کیا ہے)