اِنصاف ٹائمس ڈیسک
اتراکھنڈ میں وزیراعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی قیادت میں بغیر رجسٹریشن اور قانونی منظوری کے چلنے والے مدارس کے خلاف سخت کارروائی جاری ہے۔ اب تک ریاست بھر میں 170 سے زائد مدارس کو سیل کیا جا چکا ہے، جن میں اکثریت اُدھم سنگھ نگر، دہرادون اور ہردوار اضلاع میں واقع ہے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ مدارس بغیر ضروری دستاویزات کے غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے تھے۔
حکومت کا موقف: غیر قانونی سرگرمیوں پر روک
ریاستی حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ کارروائی صرف اُن مدارس کے خلاف کی جا رہی ہے جو غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔ وزیراعلیٰ دھامی نے واضح طور پر کہا ہے کہ مذہب کی آڑ میں غیر قانونی سرگرمیوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا اور ریاست کی شناخت کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ قبول نہیں کی جائے گی۔
اپوزیشن اور مسلم تنظیموں کا ردعمل
تاہم اس کارروائی پر اپوزیشن جماعتوں اور مسلم تنظیموں کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آیا ہے۔
سیاسی لیڈران نے اس کارروائی کو "متعصبانہ” اور "غیر سیکولر” قرار دیا ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مذہبی جذبات کو مجروح کرنے سے باز رہے۔
مسلم سماجی کارکنان نے الزام لگایا کہ یہ کارروائی بغیر کسی پیشگی اطلاع کے کی گئی اور انتظامیہ نے جانبدارانہ رویہ اپنایا۔
تعلیم پر اثر اور آئندہ کا لائحہ عمل
حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ بند کیے گئے مدارس میں زیر تعلیم بچوں کی تعلیم متاثر نہیں ہوگی۔ ان بچوں کو نزدیکی سرکاری اسکولوں میں داخلہ دیا جا رہا ہے۔ ساتھ ہی حکومت نے مدارس کی فنڈنگ اور انتظامی معاملات کی جانچ کے لیے خصوصی کمیٹیاں بھی تشکیل دی ہیں، جو ان کے دستاویزات، بینک کھاتے اور آمدنی و اخراجات کی تفصیلات کی جانچ کریں گی۔
اتراکھنڈ میں مدارس کے خلاف جاری یہ کارروائی ریاست کی سیاست اور سماج میں ایک بڑا موضوع بن گئی ہے۔ جہاں حکومت اسے قانون کی بالادستی کا قدم قرار دے رہی ہے، وہیں اپوزیشن اور مسلم تنظیمیں اسے اقلیتوں کے خلاف کارروائی مان رہی ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس پر مزید بحث و تکرار متوقع ہے۔