انصاف ٹائمس ڈیسک
بمبئی ہائی کورٹ نے پونے کے سنگھگڑھ کالج آف انجینئرنگ کی جانب سے ایک 19 سالہ مسلم طالبہ کو معطل کرنے کے فیصلے کو منسوخ کر دیا ہے۔ طالبہ کو گزشتہ ماہ سوشل میڈیا پر ’آپریشن سندور‘ سے متعلق ایک پوسٹ شیئر کرنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
7 مئی کو طالبہ نے انسٹاگرام پر ایک ایسی پوسٹ ری پوسٹ کی تھی جس میں ’آپریشن سندور‘ پر تنقیدی تبصرہ کیا گیا تھا اور آخر میں "Pakistan Zindabad” لکھا گیا تھا۔ یہ پوسٹ کچھ ہی گھنٹوں میں حذف کر دی گئی تھی اور طالبہ نے عوامی طور پر معافی بھی مانگ لی تھی۔ اس کے باوجود، پونے کے کونڈھوا پولیس اسٹیشن میں اس کے خلاف ایف آئی آر درج ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔
واقعہ کے بعد کالج انتظامیہ نے طالبہ کو فوری طور پر معطل کر دیا اور امتحانات میں شرکت سے بھی روک دیا۔
بمبئی ہائی کورٹ کی بنچ (جسٹس مکرند ایس کارنک اور جسٹس نتن آر بورکر) نے قرار دیا کہ کالج نے طالبہ کا مؤقف سنے بغیر تادیبی کارروائی کی، جو کہ "قدرتی انصاف” (Natural Justice) کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ عدالت نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ کیا صرف ایک سوشل میڈیا پوسٹ کی بنیاد پر کسی طالبہ کو مجرم قرار دیا جا سکتا ہے؟
عدالت نے طالبہ کو امتحانات میں شرکت کی اجازت دی اور کالج انتظامیہ کو ہدایت دی کہ مناسب ضابطے کے مطابق طالبہ کو اپنا مؤقف رکھنے کا موقع دیا جائے۔
عدالتی عمل کی خلاف ورزی
بغیر سنے کی گئی کارروائی غیر منصفانہ اور جانبدار سمجھی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا پر کی گئی غلطی اصلاح کا موقع مانگتی ہے، نہ کہ مستقبل کو برباد کرنے کی سزا۔
کالجوں کو چاہیے کہ تادیبی کارروائی میں شفافیت اور غیرجانبداری کو یقینی بنائیں۔
بمبئی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ نہ صرف اس طالبہ کے لیے راحت کا باعث بنا بلکہ ملک بھر کے تعلیمی اداروں کے لیے ایک اہم پیغام بھی ہے — کہ نظم و ضبط کے نام پر من مانیاں قابل قبول نہیں ہوں گی۔ یہ فیصلہ آزادیِ اظہار اور عدالتی عمل کی پابندی کی اہمیت کو واضح طور پر اجاگر کرتا ہے۔