امارتِ شرعیہ اور ملی تنظیموں کے بائیکاٹ سے نتیش کمار کی افطار پارٹی ناکام، جدیو کے غلام رسول بلیاوی اور احمد اشفاق کریم سمیت کئی اہم مسلم رہنما بھی غیر حاضر، سنی وقف بورڈ چیئرمین ارشاد اللہ کی جھوٹی خبر بے نقاب

Spread the love

اِنصاف ٹائمس ڈیسک

وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی جانب سے منعقدہ افطار پارٹی کا امارتِ شرعیہ بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ و مغربی بنگال اور دیگر ملی تنظیموں کے بائیکاٹ کا اعلان مکمل طور پر کامیاب ثابت ہوا۔ اس بائیکاٹ کے نتیجے میں افطار پارٹی میں ملی قائدین کی شرکت نہ ہونے کے برابر رہی، اور مسلم سماج میں اس حوالے سے شدید ردِ عمل دیکھنے کو ملا۔

بائیکاٹ کے اثرات: ملی قائدین، دانشور اور مسلم ایکٹوسٹ غائب

افطار پارٹی میں ملی قائدین میں سے صرف مفتی سہیل قاسمی اور خانقاہ منعمیہ کے سجادہ نشین مولانا شمیم الدین منعمی شریک ہوئے، جبکہ دیگر تمام اہم ملی قائدین، مسلم ایکٹوسٹ، دانشوران، پروفیسر حضرات، اور مذہبی و سماجی رہنما اس تقریب سے مکمل طور پر غائب رہے۔ اس کا سبب وقف ترمیمی بل پر نتیش حکومت کا متنازعہ موقف اور مسلمانوں کے بنیادی مسائل کو نظر انداز کرنے کی پالیسی قرار دی جا رہی ہے۔

نتیش کمار کے مسلم لیڈران بھی دور، بائیکاٹ کے اثرات گہرے

سب سے اہم بات یہ رہی کہ خود جنتا دل یونائیٹڈ (JDU) کے کئی اہم مسلم چہرے، جیسے کہ مولانا غلام رسول بلیاوی اور ڈاکٹر احمد اشفاق کریم، بھی اس افطار پارٹی میں شریک نہیں ہوئے۔ ان کی غیر موجودگی کو حکومت سے مسلم طبقے کی بڑھتی ہوئی ناراضگی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

افطار پارٹی کی ناکامی چھپانے کے لیے جھوٹی خبر پھیلانے کی کوشش

افطار پارٹی کی ناکامی کے بعد جنتا دل یونائیٹڈ کے لیڈر اور سنی وقف بورڈ کے چیئرمین ارشاد اللہ نے ایک جھوٹا دعویٰ کیا کہ "امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی سہراب ندوی افطار پارٹی میں شامل ہوئے ہیں”۔ تاہم، حقیقت یہ ہے کہ مفتی سہراب ندوی اس وقت ممبئی کے سفر پر تھے اور انہوں نے فوراً وضاحت جاری کرتے ہوئے کہا "میں اس وقت ممبئی میں موجود ہوں، اس لیے میری شرکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح کی جھوٹی خبریں پھیلا کر حقیقت کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔”

سوشل میڈیا پر شدید ردِ عمل، بائیکاٹ کی کامیابی پر بحث

سوشل میڈیا پر اس بائیکاٹ کے حوالے سے بڑی بحث جاری ہے، اور مسلمانوں کی جانب سے ان چند افراد پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے جو اس افطار پارٹی میں شریک ہوئے۔ خاص طور پر امارتِ شرعیہ، دیگر ملی تنظیموں اور مسلم سماج کی مشترکہ ناراضگی کو دیکھتے ہوئے نتیش حکومت کے مسلم چہروں کے لیے بھی عوامی دباؤ میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

نتیش حکومت کے لیے بڑا پیغام، مطالبات پر غور کرنے کی ضرورت

امارتِ شرعیہ اور دیگر ملی تنظیموں نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وقف ترمیمی بل کی حمایت سے دستبردار ہوں اور مسلم تنظیموں کے ساتھ مثبت مذاکرات کا آغاز کریں تاکہ اوقاف کے آئینی تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

یہ بائیکاٹ مسلم تنظیموں اور عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا واضح اشارہ ہے، اور اگر حکومت نے اس ناراضگی کو سنجیدگی سے نہیں لیا، تو آنے والے دنوں میں مزید سخت موقف دیکھنے کو مل سکتا ہے۔

Leave a Comment