علیزے نجف
ہم اس وقت نئے سال کی دہلیز پہ کھڑے ہیں، عمومی روایت یا پھر یہ کہیے کہ خودساختہ روایت کے مطابق ہم میں سے بیشتر لوگ اس نئے سال کی آمد کا استقبال اپنے اپنے طرز میں جشن منا کر کرتے ہیں وہیں کچھ لوگ نئے سال کے لئے ہدف کا تعین بھی کرتے ہیں، فی الوقت یہ رویہ بحث کا موضوع نہیں اس وقت میرا اہم موضوع یہ ہے کہ کیا ہم گذرے ہوئے سال سے وہ ساری خوشیاں اور مقاصد کشید کر سکے ہیں جو ہم نے اس کے آغاز کے وقت اپنے طئے شدہ منصوبوں میں شامل کیا تھا؟، اس جائزہ لینے کے عمل کو دوسرے لفظوں میں خود احتسابی کہتے ہیں، خود احتسابی ایک طاقتور ٹول ہے جس کے ذریعے ہم وقت کے بہتر استعمال کرنے اور زندگی کو بامقصد بنانے میں مدد لے سکتے ہیں۔
نئے سال کی آمد پہ پلان بنانا، مقصد متعین کرنا ایک فیشن بن چکا ہے، اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو دوسروں کو ایسا کرتے دیکھتے ہوئے جوش میں آکر پیپر پلاننگ تو کرلیتے ہیں لیکن مہینے کے آخر تک پہنچتے پہنچتے وہ پلان سرد بستے میں پہنچ جاتے ہیں، اکثریت ایسے لوگوں کی ہے جو مقاصد کو صرف تصور تک ہی محدود رکھتے ہیں اور وہیں کچھ لوگ مقصد کے حصول کے لئے چند عملی اقدام کے بعد واپس اپنی پرانی ڈگر پہ لوٹ جاتے ہیں، انتہائی قلیل تعداد ایسے لوگوں کی ہوتی ہے جو کہ نئے سال پہ اپنے طئے شدہ مقاصد کے حصول میں اپنی پوری محنت صرف کرتے ہیں اور اسے کسی نہ کسی حد تک حاصل کر کے ہی دم لیتے ہیں ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے ہمیں ان سے سیکھنے کی اشد ضرورت ہے خود کو تبدیل کئے بغیر زندگی کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
بدقسمتی سے ہمارے نزدیک صرف وہی کوشش ہی اچھی سمجھی جاتی ہے جو کہ کامیابی حاصل کرتی ہے، ہم میں سے بیشتر لوگوں کے نزدیک ایسی کوششوں کی کوئی قیمت نہیں جو کہ کامیابی سے دوچار نہ ہو سکیں، جب کہ ماہرین کی رائے مطابق حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کے لئے پرجوش ہونا اور مقصد کا تعین کرتے ہوئے اس کے حصول کے لئے آخری حد تک کوشش کرنا خواہ اس وقت کامیابی حاصل نہ بھی ہو یہ بھی اپنے آپ میں کامیابی کا ہی ایک جزء ہے، ہم جب کوشش کرتے ہوئے کامیابی سے کچھ قدم پیچھے رہ جاتے ہیں تو اس وقت ہم خالی ہاتھ نہیں ہوتے بلکہ ہم تجربے اور علم میں ان لوگوں سے آگے بڑھ چکے ہوتے ہیں جنھوں نے کبھی کوشش ہی نہیں کی ہوتی ہے، اگر ہم مثبت سوچ کے حامل ہوں تو اس میں دوسرا نکتہ یہ بھی مضمر ہے کہ اس طرح ہم کامیابی کی خواہش کو جنون میں تبدیل کر دیتے ہیں جو کہ ہمیں مسلسل پابند سفر رکھتی ہے، یہ تسلسل کامیابی کا زینہ ہے دنیا میں اب تک کوئی ایسا کامیاب انسان نہیں پیدا ہوا ہے جس نے کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کیا ہو کیوں کہ اس دنیا میں ناکامی کا سامنا کئے بغیر کامیاب ہونے کے خواب دیکھنے کی حقیقت خوش خیالی سے زیادہ کچھ بھی نہیں جو کہ کبھی وقوع پزیر نہیں ہوتی۔
اس وقت بات گذرے ہوئے سال میں کی جانے والی کوششوں کے احتساب کی ہو رہی ہے کیوں کہ نئے سال میں نئے نئے ہدف طئے کر لینے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک کہ ہم پچھلے سال کے طئے شدہ ہدف کے لئے کی جانے والی کوششوں کا صحیح حساب کتاب نہ رکھیں۔ اس ضمن میں یہ جاننا ازحد ضروری ہے کہ خود احتسابی کے ہی ذریعے ہمیں گزشتہ سال کی کامیابیوں اور ناکامیوں کی وجوہات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے، ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم ریٹ ریس میں دوڑنے کے عادی ہیں ہم شاذ و نادر ہی اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے رکتے ہیں کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں اور کتنی دور پہنچ چکے ہیں، ہماری کوششیں کیا نتائج پیدا کر رہی ہیں گذرے سال کے 365 دنوں میں آنے والے نشیب و فراز، خوشی و غم، کامیابی و ناکامی نے ہماری ذات کی تعمیر و تشکیل میں کیسا کردار ادا کیا ہے۔ خود احتسابی کے ذریعے غلط سمت میں اٹھنے والے قدم کو روکنے اور صحیح سمت میں مزید استقامت پیدا کرنے میں آسانی ملتی ہے۔ ہمیں غلطیوں پہ خود کو سرزنش کرنا اور صحیح اقدام کرنے پہ خود کی ستائش کرنے کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ہر گذرنے والا سال اپنے اندر کامیابی، ناکامی کے ساتھ خوشگوار اور چیلنجز کا امتزاج رکھتا ہے زندگی میں کامیابی و ناکامی اور چیلنجز کا پیش آنا فطری عمل ہے یہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں اس لئے ناکامی اور اور چیلنجز سے آزاد زندگی کے خواب دیکھنا سعی لا حاصل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ پچھلے سال میں کئے جانے والے اقدامات اور درپیش چیلنجز کا حساب کتاب کئے بغیر نئے سال میں قدم رکھنا غلطیوں کے دہرانے کے امکان کو بڑھا سکتا ہے اس نئے سال کے موقع پہ نئے ہدف بنانے سے پہلے گذرے سال کا احتساب کرنا انتہائی ضروری ہے، اس لئے خود کو شوگر کوٹ کئے بغیر اس کا جائزہ لیں، ناکامی سے سیکھا جانے والا سبق کامیابی کی راہ ہموار کرتا ہے یہ جائزہ لینے کا عمل ہمیں اپنی کمزوریوں کا سامنا کرنے، ان کو تسلیم کرنے، ان کی اصلاح کرنے، ان کو قبول کرنے کا حوصلہ دیتا ہے، یہیں سے نظریات کی تشکیل اور شخصیت کی تعمیر کا عمل شروع ہوتا ہے اس کے ذریعے ہم اپنے اندر موجود پوٹینشیل کو صحیح طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور کامیاب ہوتے ہیں، خود احتسابی کے ذریعے ہمیں شکر گزار ہونے میں مدد ملتی ہے جسے ہم اپنی مصروف ترین زندگی میں اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں، جب ہم گزشتہ سال کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان نعمتوں کا بھی ادراک ہوتا ہے جسے ہم نے کبھی خاطر خواہ توجہ نہیں دی ہوتی ہے، جیسے اچھی صحت، معاون تعلقات، معاشی استحکام، سیلف گروتھ، کے ساتھ ساتھ کئی ساری ایسی نعمتیں جو ہمیں انتہائی کم محنت یا بغیر کوشش کے میسر ہوتی ہیں خود احتسابی کے ذریعے ہم ان ساری نعمتوں کا نہ صرف شکر ادا کرتے ہیں بلکہ اس کو متوازن سطح پہ رکھنے کے لئے شعوری طور پہ کوشش بھی کرتے ہیں۔ خود احتسابی کے لئے سب سے پہلے گذرے سال کے ہر پہلو کو مدنظر رکھ کر خود سے دو ٹوک انداز میں سوال پوچھنے کی ہمت کریں جیسے پچھلے سال میں کون کون سے بڑے واقعات پیش آئے اس کے نتائج کس حد تک منفی و مثبت رہے؟ پچھلے سال میں میری کامیابی و ناکامی کا گراف کیا رہا ؟ درپیش چیلنجز نے میرے اندر کس طرح کی تبدیلی پیدا کی؟ گزشتہ سال میری جسمانی، ذہنی، جذباتی صحت کیسی رہی؟ کیا میرے کیرئر اور تعلقات میں قابل ذکر تبدیلی آئی ہے؟ خود سے سوالات کرتے ہوئے اس بات کا خیال رہے کہ حقیقت سے نظریں چرانے کے بجائے اس کا سامنا کرنے کا حوصلہ خود میں پیدا کریں تاکہ آنے والے سال کو گزرے سال سے بہتر بنایا جا سکے۔
گزشتہ سال سے متعلق احتساب کرتے ہوئے ہمیں اس بات کا حق حاصل ہے کہ ہم ناکامیوں سے سبق سیکھتے ہوئے حاصل شدہ کامیابی پہ شکر گزار ہوتے ہوئے اس خوشی کا معتدل انداز میں جشن منائیں اس سے ہمیں جذباتی کمک فراہم ہوتی ہے اور خود اعتمادی و حوصلوں میں تازگی پیدا ہوتی ہے، مسلسل ناکامی اور چیلنجز کے بارے میں سوچنے سے صرف پژمردگی پیدا ہوتی ہے جو کہ نئے سال کے ہدف میں بھی دیمک لگا سکتی ہے اس لئے اپنی خوشیوں اور کامیابیوں کو انجوائے کرتے ہوئے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔
غلطیاں کبھی بری نہیں ہوتیں بشرطیکہ اسے دہرایا نہ جائے یہ ناکامیاں ہی ہوتی ہیں جو ہمیں غلطیوں کا احساس دلاتی ہیں اور صحیح و غلط میں فرق کرنے کی تمیز دیتی ہیں، اس لئے گزشتہ سال سرزد ہونے والی غلطیوں کو نوٹ کریں اور سنجیدگی سے اس کے پس پشت عوامل کا تجزیہ کریں اس طرح کہ اسے دہرانے سے بچا جا سکے، ہم میں سے بیشتر لوگ یا تو غلطیوں سے جھنجھلا کر کوشش کرنا ہی چھوڑ دیتے ہیں یا پھر غلطیوں کے ہونے پہ ذرا بھی شرمندہ نہیں ہوتے یہ دو انتہا پسند رویے ہیں جس سے کہ اجتناب کرنا چاہئے۔
گزشتہ سال کا محاسبہ کرتے ہوئے اس پہلو پہ بھی خصوصی توجہ دیں کہ آپ نے اس سے کیا کیا سبق سیکھا ہے اس نے آپ کی عقل و حکمت کو کس طرح مہمیز دیا ہے، اپنے اندر پیدا ہونے والی تبدیلیوں پہ بھی توجہ کریں کہ ہم ان تبدیلیوں کو مزید کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں، اس کا مقصد خود کو تھکانا نہیں بلکہ اس امر پہ توجہ مرکوز کرنا ہے کہ مستقبل میں اپنے طئے شدہ ہدف حاصل کرنے کے لئے اس تبدیلی کو کیسے کیش کیا جا سکتا ہے۔
نئے سال کے لئے ہدف متعین کرنے سے پہلے ان ساری معلومات کا جائزہ لیں جو کہ آپ گذرے سال میں حاصل کر چکے ہیں، یہ عمل آنے والے سال میں ہدف کے حصول میں معاون ہو سکتا ہے۔
پچھلے سال کے احتساب سے حاصل ہونے والے کامیابی و ناکامی کے گراف اور چیلنجز کی حقیقت اور سیکھے گئے سبق کو سامنے رکھ کر نئے سال کے لئے ہدف متعین کریں اس طرح غلطی ہونے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں ۔ تصوراتی کامیابیوں سے الجھنے کے بجائے قابل عمل اقدامات کے تعین میں آسانی ہوتی ہے۔ یاد رکھئے کہ ہماری زندگی کا اصل اثاثہ ہم خود ہیں اس کو غلط جگہ اور غلط طریقے سے خرچ کرنے کے بجائے اس کو کیلکولیٹڈ انداز میں برتنا سیکھیں۔
گذرے سال کی کامیابی و ناکامی کا حساب کتاب کرنے کے بعد نئے سال میں اسمارٹ گول فریم ورک جیسے طریقوں کو اپنانے پہ غور کریں اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے ہدف قابل حصول، قابل پیمائش ہیں ہم حاصل کرنے کے لیے عملی طور پہ متحرک ہیں۔ ہدف کے حصول پہ خود کے بعد خود کے لئے انعام بھی رکھنا چاہئے کچھ ایسا انعام جس کی ہم دل سے خواہش رکھتے ہیں۔ ہدف بنانے اور اسے حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اسے مسلسل ٹریک بھی کرتے رہیں یہ ہماری رفتار کو بڑھانے اور اس کے مطابق خود کو ایڈجسٹ کرنے میں معاون ہوتا ہے، یہ ٹریکنگ کا عمل ہفتہ وار یا ماہانہ بھی ہو سکتا ہے اس طرح ہم ہدف کے حصول کی راہ میں درپیش چیلنجز کا بروقت سد باب کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ خود احتسابی کا عمل اس بات کی علامت ہے کہ ہم خود پہ توجہ دیتے ہیں اور اپنی کامیابی و ناکامی کے اسباب و عوامل سے آگاہ ہیں جو کہ آگے نئے فیصلے لینے میں کافی معاون ہوتے ہیں اس سے نہ صرف یہ جانا جاتا ہے کہ ہم نے اب تک کیا کیا حاصل کیا ہے بلکہ اس بات کا بھی ادراک ہوتا ہے کہ ہم کیا کچھ حاصل کر سکتے ہیں۔