انم جہاں: شعبہ صحافت و
ترسیل عامہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
اللہ تعالیٰ کی رحمتوں،مغفرتوں
اور جہنم کی آگ سے نجات دلانے والا بابرکت مہینہ اب اپنے اختتام کی طرف رواں دواں ہے۔ گیارہ مہینوں سے کروڑوں دل اس کی آمد کے انتظارمیں دل و جان فرش راہ کئے ہوئے تھے۔ رمضان آتا ہے تو جماعت مومنین کے گھروں میں جشن کا سا سماں ہوتاہے۔ وہ ظاہری قمقمے روشن کرنے کی بجائے نیکی اور تقویٰ کے چراغوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں اور کمر ہمت کَس کر نیکیوں کے ہر میدان میں سبقت لے جانے کا عزمِ صمیم کر لیتے ہیں۔ گویا رمضان کی آمدکے ساتھ نیکیوں کا ایسا موسم بہار شروع ہوجاتا ہے جو مومنوں کے لیے روحانی ا ور جسمانی بیماریوں سے نجات کا ذریعہ بن جاتاہے۔ رمضان کے مہینہ میں وہ صرف بھوک اور پیاس ہی برداشت نہیں کرتے بلکہ وہ ہمہ وقت اپنی توجہ نیکیوں اور تقویٰ کے حصول پر مرکوز رکھتے ہیں۔اس مہینہ میں وہ عبادات، نوافل، صدقات و خیرات، دعاؤں کے بجالا نے کی طرف غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔ وہ نہ تو کسی چھوٹی نیکی کو چھوڑتے ہیں اور نہ کسی بڑی نیکی سے پیچھے رہتے ہیں بلکہ وہ ہر بدی کو بیزار ہوکر ترک کرنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ رمضان جسم اور روح کی کثافتیں دُور کرنے کا مہینہ ہے
رمضان کا ایک پیغام حقوق العباد کی ادائیگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس مہینے کے دوران جہاں اپنے نفس کی خرابیوں کو دور کرنے اور اپنی بے جا خواہشات پر قابو پانے کی ضرورت ہے وہیں اپنے عزیزو اقارب کا پہلے سب بڑھ کر خیال رکھنے اور خاص طور پر مفلس اور نادار لوگوں کی پہلے سے بڑھ کر مدد کی ضرورت ہے۔
پس رمضان کا اصل پیغام یہ ہے کہ اس مبارک مہینہ کی برکت سے نیکی کے جن کاموں کی عادت پختہ ہوگئی ہے اُسے آئندہ بھی جاری رکھا جائے تاکہ ہمارا ہرقدم ہمیں ہمارے مقصد حیات کے قریب تر کرنے والا ہو۔ اللہ کرے کہ ہم اُسی طرح رمضان میں داخل ہوں جس طرح ہمارے ہادی ورہنما ﷺ داخل ہوا کرتے تھے اورہم اسی طرح رمضان کو الوداع کہیں جس طرح ہمارے آقاو مولیٰ ﷺ اسے الوادع کیا کرتے تھے۔
روزے کا مقصد تقویٰ و پرہیزگاری قرار دیا گیا ہے۔ تقویٰ عظیم عبادت ، تمام نیکیوں و بےشمار فضائل اور عقیدے کی مضبوطی و خوف الٰہی اور اپنی ذمّہ داریوں کا احساس پیدا ہونے کا نام ہے- جو کہ ھمیں اپنے اندر اتارنے کی کوشش کرنی چاہیے
زکوٰۃ کے 8 مد ہیں اور اس کا اصل سسٹم ہے کہ یہ مرکزی طور پر جمع ہوتا ہے اور اس کو پھر اجتماعی طور پر خرچ کیا جاتا ہے ۔مثال کے طور پر کسی غریب کو ایک وقت کی روٹی دے دینا مقصد نہیں ہے بلکہ غربت ختم کرنا اصل مقصد ہے – تو ہمیں ایسا مزاج پیدا کرنا چاہیے کہ لوگوں کی مدد کرنے کے ساتھ ساتھ مسائل کے حل کے لیے غربت کے خاتمے کے لئے ہم لوگ کام کرے۔
زکوٰۃ کے مد میں آتا ہے فی سبیل اللہ – ہمیں اللہ کے راستے میں ظلم کے خاتمے کے لئے انصاف کے قیام کے لیے جدو جہد کرنے کا مزاج بھی پیدا کرنا چاہیے اور اس راستے میں اپنا مال بھی خرچ کرنا چاہیے ۔ یہ مزاج ہمارے اندر پیدا ہو یہ بھی مقصد ہے اس مہینے کا ۔اس طرح سے زکوٰۃ کا ایک مد ہے قیدیوں کو رہا کرنے کا جو بےقصور افراد جیل کے اندر بند ہیں یا جو مسلمین قوم و ملت کے تقویت کے لئے اسلام کے بقا کے لیے جدو جہد کرتے ہوئے جیل کو چلے گئے انکی رہائی کے لئے کوشش کرنا- اس راستے میں اپنا مال خرچ کرنا بھی ہمیں یہ رمضان سکھاتا ہے۔
اسلام کی کئی بڑی فتوحات رمضان کے مہینے میں ہوئی ہیں ۔اس سے ہمیں یہ پیغام ملتا ہے ہم مضبوطی کے ساتھ کفر کے خلاف ظُلم کے خلاف جدو جہد کرےاور اس میں ہم کمزوری کے شکار نہ ہوں کیوں کہ اللّٰہ تبارک وتعالی نے کم تعداد کو بڑی تعداد پر جیت دی ہے ۔جنگ بدر اس کی مثال ہے ۔جنگ بدر 17 رمضان کو ہوئی تھی، غزوہ بدر جو اسلام اور کفر کے درمیان پہلا عظیم اور فیصلہ کن معرکہ تھا اپنے اندر بے شمار روشن ’’سبق‘‘ سموئے ہوئے ہے ۔ مثلاً یہ کہ اگر رضائے الٰہی حاصل اور شامل ہو تو تعداد اور اسلحہ کوئی معانی نہیں رکھتا ، اسلام میں رشتے خون سے نہیں، بلکہ دین سے طے ہوتے ہیں ۔
مسلمانوں میں اگر شوق شہادت زندہ اور روشن ہو تو انہیں کوئی قوت شکست نہیں دے سکتی ، تکبر، غرور اور شرک بالآخر خاک میں ملتا اور رسوا ہوتا ہے، جو لوگ معجزات اور غیبی مدد کے بارے میں شکوک میں مبتلا رہتے ہیں انہیں غزوہ بدر کی تفصیلات کو غور سے پڑھنا چاہئے اور غور کرنا چاہئے۔ مختصر یہ کہ بدر کی فتح نے اسلامی حکومت کی بنیاد رکھ دی اور پھر اس کے بعد اسلام کرہ ارض پر اس قدر تیزی سے پھیلا کہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی – لہندا ہمیں جنگ بدر والے شجاعت اور صبر کو اپنی زندگی میں اتارنے کی کوشش بھی کرنی چاہیے