اِنصاف ٹائمس ڈیسک
سپریم کورٹ نے کولکاتا، دہلی، بنگلورو اور حیدرآباد کے حکام پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے کیونکہ وہ اپنے شہروں میں مینوئل اسکینجرنگ اور مینوئل سیور صفائی کے خاتمے کے لیے کوئی ٹھوس منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ عدالت نے ان شہروں کے حکام کو اگلی سماعت میں ذاتی طور پر حاضر ہونے کی سخت ہدایت دی ہے۔
عدالت کے سخت سوالات
سپریم کورٹ نے پوچھا کہ جب مینوئل اسکینجرنگ کی وجہ سے مسلسل اموات ہو رہی ہیں، تو متعلقہ حکام یہ دعویٰ کیسے کر سکتے ہیں کہ یہ غیر انسانی روایت ختم ہو چکی ہے؟ عدالت نے واضح کیا کہ یہ صرف انتظامی ناکامی نہیں بلکہ انسانی بے حسی بھی ہے۔
یہ معاملہ اس وقت اٹھایا گیا جب 29 جنوری کو جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس اروِند کمار کی بینچ نے ملک کے چھ بڑے شہروں—دہلی، ممبئی، کولکاتا، چنئی، بنگلورو اور حیدرآباد—سے پوچھا کہ وہ مینوئل اسکینجرنگ کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔ عدالت نے حکام کو 13 فروری تک حلف نامہ جمع کرانے کا حکم دیا تھا۔
کون ناکام ہوا، کون کامیاب؟
ممبئی اور چنئی کے حکام نے تسلی بخش رپورٹ پیش کی، لیکن دہلی، کولکاتا، بنگلورو اور حیدرآباد کے حکام کوئی واضح منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے۔ اس پر عدالت نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکام کے پاس کوئی ٹھوس حکمت عملی نہیں ہے، تو انہیں خود عدالت میں حاضر ہو کر جواب دینا ہوگا۔
اگلی سماعت میں سخت کارروائی کے اشارے
سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ صرف دعووں سے کام نہیں چلے گا۔ عدالت نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ مینوئل اسکینجرنگ کے نتیجے میں ہونے والی اموات کے لیے ذمہ دار حکام اور ٹھیکیداروں کے خلاف فوجداری مقدمہ کیوں نہ چلایا جائے۔
اس معاملے کی اگلی سماعت 20 مارچ کو ہوگی۔ عدالت کے اس سخت مؤقف سے واضح ہے کہ اب محض زبانی دعوے نہیں بلکہ عملی اقدامات کی توقع کی جا رہی ہے۔
مینوئل اسکینجرنگ پر کب پابندی عائد کی گئی تھی؟
یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت میں پہلی بار 1993 میں مینوئل اسکینجرنگ پر پابندی عائد کی گئی تھی اور 2013 میں اسے مکمل طور پر غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود، یہ غیر انسانی روایت آج بھی جاری ہے اور ملک بھر میں کئی صفائی کارکن سیور کی صفائی کے دوران جان گنوا چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کے اس حکم کو مینوئل اسکینجرنگ کے خلاف ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت اور انتظامیہ اس مسئلے کو حل کرنے میں کتنی سنجیدگی دکھاتے ہیں۔