مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے۔ڈاکٹر حفظ الرحمن کی قابل ستائش کاوش شمیم اکرم رحمانی: معاون قاضی امارت شرعیہ

Spread the love

تعلیم کی اہمیت مسلم ہے،کم از کم اس دور میں تو تعلیم کی اہمیت سے انکار کی گنجائش بالکل نہیں ہے، ہر فرد حتی کہ سماج کا جاہل بھی نہ صرف علم کی اہمیت سے آشنا ہے بلکہ سماج کو پڑھا لکھا دیکھنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ وہ خود بھی اپنے بچوں کو پڑھاتا لکھاتا ہے، اور بسااوقات بڑی دشوار گزار راہوں پر چل کر تعلیم یافتہ بناتا ہے جس کے معنی یہ ہوئے کہ علم کی اہمیت پر پوری انسانی آبادی کا اتفاق ہے، لیکن کون سے علوم حاصل کئے جائیں، علم کی کتنی قسمیں ہیں،نصاب علم کیا ہونے چاہئیں، مدارس کے موجودہ نظام کو کیسے زیادہ موثر اور ملت کے استحکام کا ذریعہ بنایا جا سکتا ہے،یہ وہ سوالات ہیں جو لمبے عرصے سے نہ صرف اٹھائے جارہے ہیں بلکہ مختلف انداز سے ان کے جوابات بھی دئیے جارہے ہیں، لیکن دقت یہ ہے کہ سوالات و جوابات کے اس حسین سلسلے سے عام طور پر وہ قابل احترام لوگ غائب ہیں جن کی موجودگی زیادہ کار آمد ثابت ہوسکتی ہے، ان کی فکر میں اب تک وہ تبدیلی نہیں آئی ہے جس کی توقع کی جارہی ہے، اس کے معنی یہ ہوئے کہ ابھی اور زیادہ لکھنے، بولنے، سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے، زیر نظر کتاب”مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے“ اسی ضرورت کی تکمیل کی قابل قدر کاوش ہے، جس کے لئے مصنف کتاب جناب ڈاکٹر حفظ الرحمن صاحب مبارکبادیوں اور حوصلہ افزائیوں کے بجا طور پر مستحق ہیں، تُو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبوللیلیٰ بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبولعلامہ اقبال مورخہ 12/ستمبر 2022 کی بات ہے، مجھے مصنف کتاب جناب ڈاکٹر حفظ الرحمن صاحب سے ملاقات کا موقع ملا،وہ اپنے ساتھ یہ کتاب بھی لے کر آئے تھے سو انہوں نے مجھے عنایت کی اور کتاب میرے پاس آگئی، کتاب کا تذکرہ سوشل میڈیا کے واسطے پہلے ہی سن چکا تھا اور جس موضوع پر اس کتاب کی تصنیف عمل میں آئی ہے وہ موضوع اہم بھی تھا اور پسندیدہ بھی، لہذا میں نے شوق کے ہاتھوں سے کتاب اٹھائی، پہلی کتاب جو زیر مطالعہ تھی اسے چھوڑ کر اس کتاب کا مطالعہ شروع کردیا اور الحمدللہ فاضل مصنف کی خواہش کے مطابق جستہ جستہ ہی سہی لیکن بالاستیعاب مطالعہ کرلیا، دوران مطالعہ واضح طور پر احساس ہوا کہ مصنف نے اپنی اس کتاب میں انصاف کے ساتھ نہ صرف حقائق کا جائزہ لیا ہے بلکہ ایسی تجویزیں بھی پیش کی ہیں جو فی الواقع قابل عمل ہوسکتی ہیں، انہوں نے نصاب تعلیم کا ایک خاکِہ بھی پیش کیا ہے جس سے اختلاف کی گنجائش ہے، لیکن میرا احساس ہے کہ ان کے ذریعے پیش کردہ نصاب تعلیم کے خاکے کو آنے والے دنوں میں نظرانداز نہیں کیا جاسکے گا، ان کے ذریعہ پیش کردہ نصاب تعلیم کا تصور در اصل درس نظامی میں ضروری جزوی تبدیلی اور تخصصات کے کچھ نئے شعبوں کے قیام سے پورا ہوسکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ یہ کام بھی آسان نہیں ہے، اسی لئے انہوں نے زمین پر اتارنے میں پیش آنی والی دشواریوں کو حل کرنے کے طریقے بھی بتائے ہیں اور کچھ قابل قدر تجاویز بھی پیش کی ہیں۔مصنف نے کتاب کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے(1) نصاب تعلیم (2) مشورے اور گزارشیں۔کتاب کے دونوں حصے کئی اہم ذیلی عناوین پر مشتمل ہیں پہلے حصے میں ”موجودہ علمی تحدیاں اور مدارس اسلامیہ، مشترکہ تعلیمی لائحہ، تخصص فی السیاسہ، تخصص فی الاقتصاد، تخصص فی الاجتماع“ کے عناوین قائم کئے گئے ہیں جبکہ دوسرے حصے میں ”انگریزی اساتذہ کی قلت کا مسئلہ، فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات، انگریزی داں علماء اور مدارس و مساجد، نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات، اتحاد ملت اور ملت اسلامیہ، ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری، مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم، اسلامی اقامت خانہ کا قیام، دینی و اخلاقی تربیت، مدرسہ و مسجد کی نام گزاری“ کے عناوین قائم کئے گئے ہیں اور تمام عناوین کے تحت بیش قیمت مواد کو خوش اسلوبی، سادگی، دردمندی اور معروضیت کے ساتھ سپردقرطاس کیاگیا ہے جو دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے، پوری کتاب میں کہیں طعن و تشنیع کے تیر بھی نہیں چلائے گئے ہیں جیسا کہ اس موضوع پر لکھنے والے عام طور پر چلاتے ہیں بلکہ نہایت سنجیدگی،متانت اور احتیاط کے ساتھ گفتگو کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مصنف نے اس کتاب میں لسان قوم کی ضرورت پر بھی سیر بحث کی ہے اور ایک جگہ سہ لسانی فارمولہ بھی پیش کیا ہے جس کے تحت عربی، اور انگریزی کے ساتھ مقامی زبان کی تدریس کو ضرورت کاحصہ بتایا ہے جس سے مجھے بھی اتفاق ہے البتہ انہوں نے فارسی کو مکمل نظرانداز کردیا ہے حالانکہ فارسی زبان کی ابتدائی تعلیم بر صغیر کی کئی زبانوں کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہے، لہذا طلبہ اور علماء کے لئے فارسی سے نامانوسیت کسی بھی حال میں مناسب نہیں ہے، اسی طرح مصنف نے دعوتی اہداف کو سامنے رکھ کر گفتگو کرتے ہوئے مدارس کو چینی، فرنچ اور سنسکرت زبانوں کی تدریس کے لئے خصوصی انتظام کا مشورہ دیاہے جس کی ضرورت سے اس لئے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے لیکن فی الوقت اس پر عمل بظاہر ناممکن ہے، اس لئے کہ مدارس کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں، ہاں مستقبل کے وسیع تر مقاصد کو سامنے رکھ کر اس حوالے سے کوئی لائحہ عمل طے کیاجاسکتاہے۔ بلاشبہ موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب کوئی نئی چیز نہیں ہے، اس لئے کہ نصاب تعلیم اور نظام تعلیم ایسے عناوین ہیں جو گزشتہ ڈیڑھ صدیوں سے بہت زیادہ موضوع بحث بنے ہوئے ہیں، لیکن یہ سچائی ہے کہ کتاب کے مشمولات میں کچھ چیزیں بہت اہم اور نئی ہیں جو نہ صرف مصنف کے تخلیقی ذہن اور وسعت فکر کی آئینہ دار ہیں، بلکہ زمین پر اترکر بہترین، مثبت اور دور رس اثرات مرتب کرنے کی استعداد رکھتی ہیں، یہ کتاب کم از کم ان تمام لوگوں کو ضرور پڑھنا چاہیے جو تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور اس میدان میں کچھ کام کررہے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب نہ صرف اصلاح نصاب کی بحث کو آگے بڑھانے میں ممد و مددگارثابت ہوگی بلکہ خوشگوار تعلیمی تبدیلی کے لئے سنگ میل بھی بنے گی ان شاء اللہ۔ پوری کتاب دو سو صفحات پر مشتمل ہے، دوسرے صفحے پر کتاب کی قیمت 300 روپے درج ہے لیکن ابھی رعایتی قیمت 200 روپے میں مل سکتی ہے جیسا کہ مصنف نے مجھ سے کہا ہے مصنف کا رابطہ نمبر:9990457104،بھی کتاب کے اسی دوسرے صفحے پر موجود ہے اوران سے بات کی جاسکتی ہے اس کے علاوہ دو اداروں ”مرکز المعارف حضرت بشارت کریم، احاطہ کریمیہ، مقام وڈاک خانہ گڑھول شریف، وایابدھ نگرہ،ضلع سیتا مڑھی، اور مدرسہ اسلامیہ بحرالعلوم،کٹائی پوسٹ اپھرولی،ضلع مظفر پور“ کے نام بھی لکھے ہوئے ہیں جہاں یہ کتاب لی جا سکتی ہے، اب دعا گو ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کتاب کو مصنف کے لئے دونوں جہاں کی سرخروئی کا ذریعہ بنائے۔

Leave a Comment