اِنصاف ٹائمس ڈیسک
بہار کے مونگیر شہر میں مہا شِیوراتری کے موقع پر بجرنگ دل کی جانب سے نکالی گئی شوبھایاترا میں ‘لَو جہاد’ کے موضوع پر مبنی ایک جھانکی نے سیاسی تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ اس جھانکی میں مبینہ طور پر مسلم مردوں کے ذریعے ہندو لڑکیوں پر ہونے والے "مظالم” کو دکھایا گیا تھا، جس میں ایک فریج میں کٹی ہوئی گڑیا کے ٹکڑے اور مختلف اخبارات کی سرخیاں شامل تھیں۔
*اپوزیشن کی سخت تنقید
اس جھانکی کی سخت مذمت کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے اسے فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ راشٹریہ جنتا دل (RJD) کے ترجمان مرتیونجے تیواری نے کہا کہ یہ ریاست میں ماحول خراب کرنے اور فسادات کو ہوا دینے کی سازش ہے۔ کانگریس کے ترجمان گیان رنجن گپتا نے بھی اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی آئین کسی کو بھی کسی مذہب کو نشانہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا، اور بجرنگ دل کا یہ قدم غیر آئینی ہے۔
*بجرنگ دل کا دفاع
بجرنگ دل مونگیر کے کنوینر سوربھ ایس. سمپنا نے کہا کہ یہ جھانکی صرف ایک "سماجی پیغام” دینے کی کوشش تھی۔ ان کے مطابق، "ہم نے کسی مذہب کو نشانہ نہیں بنایا بلکہ صرف وہ خبریں دکھائیں جو مختلف اخبارات میں شائع ہو چکی ہیں۔ ہمارا مقصد لوگوں کو آگاہ کرنا تھا کہ شادی کے نام پر ہندو لڑکیوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔”
اس واقعے نے بہار میں سیاسی درجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔ اپوزیشن اسے فرقہ واریت کو بڑھاوا دینے کا ایک منصوبہ قرار دے رہی ہے، جبکہ بجرنگ دل اسے "سماجی بیداری” کا ایک ذریعہ بتا رہا ہے۔