انصاف ٹائمس ڈیسک
23-24 فروری 1991 کی رات، جموں و کشمیر کے کپواڑہ ضلع کے دو گاؤں—کنن اور پوشپورہ—میں بھارتی فوج کی جانب سے کیے گئے مبینہ اجتماعی زیادتی اور مظالم کا ایک خوفناک واقعہ سامنے آیا۔ یہ واقعہ بھارت میں فوجی دستوں کے ذریعہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
رپورٹس کے مطابق، اس رات بھارتی فوج کی 4 راجپوتانہ رائفلز کے جوانوں نے گاؤں میں کوارڈن اینڈ سرچ آپریشن (CASO) کے تحت چھاپہ مارا۔ مردوں کو گھروں سے باہر نکال دیا گیا، اور خواتین کے ساتھ مبینہ طور پر اجتماعی زیادتی کی گئی۔ مقامی افراد اور متاثرین کے مطابق، اس ہولناک جرم میں 23 سے زائد خواتین کو نشانہ بنایا گیا، جن میں معمر خواتین اور کم عمر لڑکیاں بھی شامل تھیں۔
واقعے کے بعد 27 مارچ 1991 کو اس وقت کے ضلع مجسٹریٹ ایس ایم یاسین نے اپنی رپورٹ میں اس واقعے کو "قابل اعتبار” قرار دیا اور ثبوتوں کو مضبوط بتایا۔ اس کے باوجود، بھارتی فوج نے الزامات کو مسترد کر دیا اور حکومت نے مقدمے کو آگے بڑھانے سے انکار کر دیا۔
1991 میں پریس کونسل آف انڈیا (PCI) کے اس وقت کے چیئرمین بی جی ورگیز نے فوج کے حق میں رپورٹ دی، جس میں الزامات کو "بے بنیاد” قرار دیا گیا۔ لیکن کئی آزاد صحافیوں اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے ایک منظم فوجی ظلم قرار دیا۔
2013 میں کپواڑہ کی 50 خواتین نے ریاستی انسانی حقوق کمیشن (SHRC) میں درخواست دائر کی، جس کے بعد عدالت نے نئے سرے سے تحقیقات کا حکم دیا۔ تاہم، 2014 میں جموں و کشمیر ہائی کورٹ نے مقدمہ بند کرنے کا حکم دیا۔
2018 میں سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی گئی، لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ اس معاملے میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) کی وجہ سے بھی انصاف نہیں مل سکا، کیونکہ اس قانون کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات حاصل ہوتے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور کئی بین الاقوامی تنظیموں نے اس واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ایمنسٹی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ واقعہ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر میں کی جانے والی وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا حصہ ہے۔
کنن-پوشپورہ سانحہ صرف ایک گاؤں کی کہانی نہیں، بلکہ کشمیر میں دہائیوں سے جاری فوجی جبر اور خواتین پر ہونے والے تشدد کی سنگین تصویر پیش کرتا ہے۔ انصاف کی جنگ آج بھی جاری ہے، لیکن AFSPA جیسے قوانین کی موجودگی کے سبب آج تک کسی بھی فوجی کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا جا سکا۔