سپریم کورٹ کے جسٹس سوریہ کانت کا ریزرویشن پر سخت تبصرہ: “ریزرویشن اب ٹرین کے اُس ڈبے جیسا بن گیا ہے، جس میں جو چڑھ گیا وہ دوسروں کو چڑھنے نہیں دیتا

Spread the love

اِنصاف ٹائمس ڈیسک

سپریم کورٹ کے جسٹس سوریہ کانت نے ذات پر مبنی ریزرویشن پر ایک اہم اور سخت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ
“ریزرویشن اب ٹرین کے اُس ڈبے جیسا بن گیا ہے، جس میں جو شخص پہلے چڑھ گیا وہ دوسروں کو اندر آنے نہیں دیتا۔”
یہ تبصرہ انہوں نے وکلاء کی تنظیموں میں درج فہرست ذات (SC) اور درج فہرست قبائل (ST) کے لیے ریزرویشن کی مانگ پر سماعت کے دوران دیا۔

جسٹس سوریہ کانت نے واضح کیا کہ بار ایسوسی ایشنز کو ذات یا مذہب کی بنیاد پر تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے انتباہ دیا کہ وکلاء کی انجمنوں کو سیاسی پلیٹ فارم نہ بننے دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بغیر کسی ماہر کمیٹی کی رپورٹ کے ایسے اداروں میں ریزرویشن لاگو کرنا ایک “پنڈورا باکس” کھولنے جیسا ہوگا۔

قبل ازیں، سپریم کورٹ نے SC اور ST زمروں کے اندر ذیلی درجہ بندی کی اجازت دی تھی، تاکہ ریاستیں واقعی پسماندہ طبقات کو ریزرویشن کا فائدہ دے سکیں۔ تاہم، جسٹس پنکج متل نے ریزرویشن پالیسی کے از سرِ نو جائزے کی ضرورت پر زور دیا اور کہا کہ موجودہ نظام ذات پرستی کو پھر سے زندہ کر رہا ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ ریزرویشن کا فائدہ صرف پہلی نسل تک محدود ہونا چاہیے۔

اسی طرح، جسٹس بھوشن گوئی نے کہا کہ SC اور ST زمروں کے اندر موجود “کریمی لیئر” (نسبتاً خوشحال طبقہ) کی شناخت ہونی چاہیے اور انہیں ریزرویشن سے باہر کیا جانا چاہیے۔ ان کا ماننا ہے کہ صرف وہی لوگ ریزرویشن کے اصل حقدار ہیں جو حقیقی معنوں میں سماجی اور معاشی طور پر پسماندہ ہیں۔

سپریم کورٹ کے ان بیانات نے ریزرویشن پالیسی پر ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے، جس میں یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا موجودہ نظام واقعی سماجی انصاف کو فروغ دے رہا ہے یا محض کچھ مخصوص طبقوں کو ہی فائدہ پہنچا رہا ہے۔

Leave a Comment