انٹرویو نگار علیزے نجف
امریکہ میں مقیم سائیکاٹرسٹ ڈاکٹر قطب الدین ایک ایسی شخصیت ہیں جو دینی حمیت اور معاشرتی فلاح و بہبود کے حوالے سے اپنی ایک نمایاں پہچان رکھتے ہیں ، اردو زبان سے محبت ان کی رگ و پے میں بسی ہوئی ہے، ڈاکٹر محمد قطب الدین کا بنیادی تعلق حیدرآباد میں واقع ضلع نارائن پیٹ سے ہے انھوں نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد امریکہ کی یونیورسٹی آف مسوری سے ایم ڈی کیا، پھر سرجن بننے کے بجائے وہ علم نفسیات کی طرف راغب ہوئے انھوں نے نفسیات میں کئی ڈگری لی کلینکل سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کیا، سائیکاٹرک اور دماغی امراض کے علاج پہ انھیں عبور حاصل ہے، پچھلے چالیس سالوں سے وہ امریکہ میں مقیم ہیں وہ بیک وقت ڈاکٹر سائیکاٹرسٹ ہونے کے ساتھ ابن خلدون یونیورسٹی ترکی سمیت کئی یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر بھی ہیں وہ نفسیات کے موضوع پہ بین الاقوامی سطح پہ لکچرز دیتے رہتے ہیں، معاشرے کی خدمت کا جذبہ ان کی سرشت میں ہے وہ اب تک کئی ایسی تنظیموں کے ساتھ کام کر چکے ہیں جو کہ معاشرے میں نفسیاتی مسائل کو حل کرنے اور اس کے تئیں بیداری پیدا کرنے کی غرض سے قائم کی گئی ہے جس میں امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن، امریکن سائیکاٹرک ایسوسی ایشن، امریکن بورڈ آف ایڈکشن سائیکاٹری، اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، امریکن ریڈ کراس سوسائٹی سمیت کئی متعدد ادارے و تنظیمیں شامل ہیں۔
ڈاکٹر قطب الدین نے اپنے خطے کے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے غیر معمولی کوششیں کی ہیں اردو کی بقاء ارتقاء اور مسلمانوں کی ترقی کے لئے وہ دامے، درمے، سخنے مستعد رہتے ہیں، ڈاکٹر قطب الدین مغربی معاشرے میں رہتے ہوئے بھی آج بھی مشرقی تہذیب کے دلدادہ ہیں وہ انتہائی منکسر المزاج، بےریا اور سادہ دل انسان ہیں، ڈاکٹر قطب الدین ترکی کے صدر رجب طیب اردگان کے قریبی رفقاء میں بھی شامل ہیں ڈاکٹر قطب الدین عالمی باکسنگ چیمپئن محمد علی کلے کے ڈاکٹر رہ چکے ہیں، ڈاکٹر قطب الدین انتہائی دلچسپ شخصیت کے حامل انسان ہیں میں نے بطور انٹرویو نگار ان سے ہر موضوع پہ بات کی جن کا انھوں نے بہت خوش اسلوبی کے ساتھ جواب دیا۔
علیزے نجف : سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ آپ ہمیں خود سے متعارف کروائیں اور یہ بھی بتائیں کہ آپ کی نظر میں ڈاکٹر قطب الدین کون ہیں ؟
ڈاکٹر قطب الدین: نام محمد قطب الدین ابو شجاع میرا بنیادی تعلق حیدرآباد میں واقع میں ایک گاؤں نارائن پیٹ سے ہے جو کہ اس وقت ضلع بن گیا ہے پروفیشن کے اعتبار سے میرا تعلق میڈیکل اور نفسیات کی فیلڈ سے ہے، میں ایک سائیکاٹرسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ ایکٹیویسٹ بھی ہوں، میں چیریٹی ورک کے لئے میڈیکل آرگنائزیشنز میں کام کرتا ہوں اور اس کے علاوہ کئی مذہبی، علمی ادبی اور سائنسی آرگنائزیشن سے وابستہ ہوں، میں اس بات پہ یقین رکھتا ہوں کہ بندوں کی خدمت خدا سے قرب پیدا کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے، اس لئے میری بس یہی کوشش رہتی ہے کہ اپنے وقت کو ان کاموں میں صرف کروں جو کہ آخرت میں فوز و فلاح کا باعث بنیں۔
علیزے نجف: آپ کا بچپن کس طرح کے ماحول میں گذرا اس ماحول کی خصوصیات کیا تھیں ؟
ڈاکٹر قطب الدین: میرا بچپن اچھے ماحول میں گزرا میں جوائنٹ فیملی میں پلا بڑھا ہوں، میری فیملی کے زیادہ تر لوگ تجارت میں فوج اور میڈیسن میں رہے ہیں، میری دادی اماں آمنہ خاتون ایک حکیم تھیں، دادا تجارت کرتے تھے ہماری فیملی کی مالی حالت کافی اچھی تھی، اس لئے میرا بچپن کافی آسودہ حال رہا، چوں کہ میری فیملی میں بیک وقت کئی شعبے کے لوگ موجود تھے اس لئے مجھے بچپن میں ہی ایسا ماحول ملا جو بیک وقت کئی طرح کے اقدار و روایات کا مرکب تھا، بچپن میں ہی تجارت، اور میڈیکل سے متعلق بنیادی باتوں کا علم ہو گیا تھا میری فیملی کے کئی سارے لوگ بزنس مین تھے، میں بھی بزنس میں ہاتھ بٹاتا تھا اس طرح کی سماجی سرگرمیوں سے جڑے رہنے کی وجہ سے لوگوں سے تعلقات بنانے میں بہت آسانی ہوئی، میرے حلقہء احباب میں ہر طرح کے لوگ شامل تھے جس میں مسلم کے ساتھ ساتھ ہندو بھی شامل تھے، اس وقت ہندوستان کے معاشرتی ماحول میں فرقہ واریت بہت کم تھی، ہم سب بھائی چارہ کے ساتھ رہتے تھے، میں نے بچپن میں ہی اردو زبان کے ساتھ تیلگو زبان بھی سیکھ لی تھی، میرے نانا مجھے قرآن و حدیث پڑھاتے تھے اور نانی اماں مجھے ہمیشہ ہر رات بڑے اہتمام کے ساتھ کہانیاں سناتی تھی جسے ہم بڑے شوق سے سنتے تھے آج بھی ان کی بامحاورہ کہانیاں مجھے اچھی طرح یاد ہیں جو زندگی میں ایک روشنی بکھیر دیتی ہیں اور زندگی کی حقیقت کو سمجھنے میں کارآمد ثابت ہوتی ہیں میرے والد صاحب ڈاکٹر تھے میں نے ان سے بھی بہت کچھ سیکھا ہے اوران کی پریکٹس کافی مشہور تھی میری والدہ ہاؤس وائف تھیں انھوں نے ہمیشہ ہماری تربیت پہ خاص توجہ دی ان کی ہی تربیت اور کردار سازی کا نتیجہ ہے کہ آج میں اس مقام پہ ہوں۔
علیزے نجف: آپ کی تعلیمی لیاقت کیا ہے آپ کے تعلیمی سفر کا آغاز کہاں سے ہوا اور کن کن راستوں سے گزرتے ہوئے امریکہ تک پہنچا ؟
ڈاکٹر قطب الدین: پہلے میں نے نارائن پیٹ سے اردو میڈیم سے ہائی اسکول کیا اس کے بعد میٹرک پاس کیا ہمارے زمانے میں ہائی اسکول میں چار زبانیں پڑھائی جاتی تھیں اردو، تیلگو، کنڑا، مراٹھی، میں میٹرک پاس کر کے حیدرآباد چلا آیا جہاں سے سیف آباد سائنس کالج سے پڑھائی کی پھر اس کے بعد عثمانیہ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا اور ایم بی بی ایس مکمل کیا پھر وہیں سے ٹریننگ بھی لی اور کئی بڑے ڈاکٹروں کے ساتھ کام کیا میڈیکل ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد میری شادی ہوگئی اس کے ایک سال کے بعد ہم لوگ امریکہ آ گئے تو امریکہ آ کر ٹریننگ کے لئے کئی جگہ اپلائی کیا اور کولمبیا کی ایک یونیورسٹی سے انٹرن شپ کیا ٹریننگ مکمل ہونے کے بعد میں نے چائلڈ سائکلوجی اور ڈرگ ایڈکشن پہ اسپشلائزیشن کیا اس کے بعد میں نے امریکہ میں اپنی پروفیشنل زندگی کا آغاز کیا ساتھ ساتھ مزید اعلی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رہا ، اس وقت تک مجھے نفسیات میں کافی دلچسپی پیدا ہو چکی تھی، میں نے کلینکل سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کیا پھر اس کے بعد میں انڈیانا منتقل ہوگیا، میں نے یہاں پہ کئی ہاسپٹل میں چیئرمین کی حیثیت سے کام کیا، میں نے اسٹار سوسائٹی سروسز قائم کیا جس میں مینٹل ہیلتھ سے متعلق ساری فیسیلیٹی، فیملی سائیکاٹری کی ساری سہولیات موجود ہیں جو کہ اب تک چل رہا ہے اس کے کئی ساری برانچز ہیں ہر جگہ لوگوں کو نفسیات سے متعلق تمام ضروری سہولیات فراہم کی جارہی ہیں، انڈیانا اور شکاگو میں بھی میں پریکٹس کرتا ہوں اس دوران میں نے کئی آرگنائزیشن سے مثلاً امریکن اکیڈمی آف ایڈولسنسز سائیکاٹری، امریکن آف ایڈکشن سائیکاٹری، اسی طرح اور کئی فیلڈ سے وابستہ رہا ہوں اس میں اپنی خدمات انجام دیں یہ سفر ابھی بھی جاری ہے۔ نفسیات کے شعبے میں بطور سائکاٹرسٹ کام کرنے کے ساتھ ساتھ میں پڑھاتا بھی ہوں، نفسیات کے موضوع پہ لیکچرز بھی دیتا ہوں اس میں انڈیانا یونیورسٹی، نوٹڈ یونیورسٹی سرفہرست ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ترکی میں ابن خلدون یونیورسٹی میں وزیٹنگ پروفیسر ہوں جہاں بھی سائیکالوجی اور سائیکاٹری کے انٹرنیشنل کنونشن ہوتے ہیں تو اس میں بھی مقالے پیش کرتا رہا ہوں اس کے علاوہ کئی مذہبی ثقافتی میڈیکل چیریٹی آرگنائزیشن سے وابستہ ہوں کوشش کرتا ہوں کہ لوگوں کے لئے آسانیاں پیدا کروں جتنا کر سکتا ہوں اسے کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہوں۔
علیزے نجف: آپ نے ہندوستان اور امریکہ کے اعلی تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی ہے ان دونوں ملکوں کے تعلیمی نظام میں آپ کس طرح کا واضح فرق محسوس کرتے ہیں ہندوستانی تعلیمی اداروں کو یوروپی نظام تعلیم کی کن خوبیوں کو اپنانے کی ضرورت ہے؟
ڈاکٹر قطب الدین: ان دونوں ممالک کے تعلیمی نظام میں بنیادی فرق یہ ہے کہ انڈیا میں ایک لمیٹڈ انڈرسٹینڈنگ کا سسٹم ہے، طلبہ کی آزادی بہت محدود ہے، انھیں ایک خاص ڈگر پہ چلانے پہ زور دیا جاتا ہے ان کو ریسرچ کے حوالے سے زیادہ سہولت حاصل نہیں، جب کہ امریکہ میں ایسی کوئی حدبندی نہیں ہے لوگوں میں خیالات کے حوالے سے وسعت پائی جاتی ہے، وہ ہر موضوع پہ کھل کر بات کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں، ریسرچ کے حوالے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے امریکہ کے تعلیمی نظام کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہاں کے تعلیمی ادارے خودمختار ہے، اس میں سیاسی عمل دخل کم ہے، یہاں ایجوکیشن کو اہمیت دی جاتی یے، خوبیاں یہ ہے کہ یہاں پہ آپ کو منظم طریقے سے ایک ایک فیلڈ کے لئے ریسرچ کی سہولیات موجود ہیں اور لوگوں کا حوصلہ بھی اس کے لئے بڑھایا جاتا ہے ہر طرح کے ریسرچ پیپر کو پیش کرنے کے مواقع بھی انھیں فراہم کئے جاتے ہیں اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ مغربی ممالک سائنسی ایجادات اور ریسرچ کے میدان میں دیگر ممالک سے آگے ہیں۔ انڈیا کو بھی اس سمت میں پیش رفت کرنے کی خاص ضرورت ہے اور تعلیمی نظام پہ خصوصی توجہ دیتے ہوئے اس کی خودمختاری کو بحال کرنا اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔
علیزے نجف: آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی پھر امریکہ سے ایم ڈی کیا میڈیکل کی طرف جاتے جاتے آپ سائیکالوجی کی طرف کیسے آگئے سائیکالوجی کی کن خصوصیات نے آپ کو اپنی طرف متوجہ کیا؟
ڈاکٹر قطب الدین: انسان کو ایک طالب علم بن کر زندگی گزارنی چاہئے ایک طالب علم کی طرح ہمیشہ علم کی طلب و حصول کی کوشش جاری رکھنی چاہیے اس کے ذریعے ہی انسان ہمیشہ خود کو ایک بہتر انسان بنانے میں کامیاب ہو سکتا ہے، میں نے بھی ساری زندگی بس یہی کوشش کی کہ اپنی کمیوں پہ قابو پا سکوں ہمیشہ کچھ نیا اور بہتر کر سکوں، اس کے لئے میں نے ایم بی بی ایس کے بعد پھر ایم ڈی کیا ایم ڈی کے بعد میں باقاعدہ سرجن بننے کے بجائے سائیکالوجی کی طرف آ گیا اس میں پی ایچ ڈی کیا۔
سائیکالوجی اس لئے پسند آئی کہ میں نے جب جنرل میڈیسن میں کام کیا تھوڑے سال بعد مجھے اندازہ ہوا کہ سرجری اور جسمانی بیماریوں سے متعلق جان لینے کے بعد اب مجھے سائیکالوجی پہ بھی کمانڈ حاصل کرنی چاہئے اس کے بعد میں نے میڈیکل کی پریکٹس سے تھوڑا توقف لیا اور سائیکالوجی کے پیچ و خم اور اس کی الجھنوں کو سمجھنے کی کوشش میں لگ گیا پھر معلوم ہوا کہ یہ اپنے آپ میں بہت گہرائی رکھتا ہے، بےشک سائیکالوجی و سائیکاٹری بہت چیلنجنگ ہے، اس چیلنج نے مجھے اٹریکٹ کیا اس لئے میں نے سائیکاٹری کا شعبہ اختیار کیا، میں نے سائیکالوجی کا انتخاب اس لئے بھی کیا کہ سائیکالوجی میں ہر روز نئے پرابلمز آتے ہیں اور اس کے سولوشنز بھی نکلتے ہیں اس طرح اس میں ہمیشہ کچھ نیا موجود ہوتا ہے یہ میری طبیعت کے موافق تھا اس طرح میں میڈیکل سے نفسیات کی طرف ا گیا۔
علیزے نجف: آپ کا تعلق شعبہء نفسیات سے ہے ایک ماہر نفسیات کیا نفسیاتی عوارض سے مکمل طور سے محفوظ ہوتا ہے اگر نہیں تو اس کے نفسیاتی مسائل سے متاثر ہونے کے کتنے فیصد امکانات رہتے ہیں ؟
ڈاکٹر قطب الدین: نفسیات ایک بہت چیلنجنگ اور تھکا دینے والی فیلڈ ہے اور مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ ریوارڈنگ بھی ہے۔ جس طرح کسی بھی دوسرے پروفیشن میں چیلینجز ہوتے ہیں اسی طرح یہاں بھی چیلینجز ہیں لیکن جب انسان کسی خاص شعبے سے شغف رکھتا ہے تو پھر اس کی ہر مشکل کو سر کر لینے کا جذبہ بھی پیدا کر لیتا ہے۔ رہی بات یہ کہ ایک ماہر نفسیات نفسیاتی عوارض کا شکار کس حد تک ہو سکتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایک ماہر نفسیات کو ہر طرح کی صورتحال سے نمٹنے کی باقاعدہ ٹریننگ دی جاتی ہے، بےشک انسان ہمیشہ ایک سے فریم آف مائنڈ میں نہیں ہوتا اگر وہ کسی طرح کی الجھن میں مبتلا ہوتا بھی ہے تو وہ بہت جلد اس سے خود کو نکال لیتا ہے۔ مختلف طرح کے لوگوں کے ساتھ ڈیل کر کے اس کے تجربات میں اضافہ ہوتا ہے وہ وقت کے ساتھ زیادہ بہتر طریقے سے معاملات کو ہینڈل کرنا سیکھ جاتا ہے۔
علیزے نجف: آپ اپنے پروفیشنل سفر کے بارے میں مختصراً بتائیں آپ نے اب تک کن کن اداروں کے ساتھ کام کیا ہے بحیثیت ماہر نفسیات کے کیا آپ کو حسب منشا کامیابی ملی ہے یا ابھی مزید ترقی کے منازل طئے کرنے باقی ہیں ؟
😊
ڈاکٹر قطب الدین: میں نے بطور میڈیکل ڈاکٹر اور سائکاٹرسٹ کے بہت سے اداروں کے ساتھ کام کیا ہے، میرے کیرئر کا آغاز میڈیکل سے ہوا ہے تو اس میں بھی میں نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ساتھ کام کیا ہے سائیکاٹرک ایسو سی ایشن، میڈیکل ایسوسی ایشن، امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن ہیں امریکن ایسوسی ایشن آف فزیشین أف انڈین اورجن اسی طرح کے کئی ادارے یہاں ہیں ان سب کے ساتھ میں نے بہت کام کیا ہے اور اللہ کے فضل سے بہت آگے رہا مجھے ہمیشہ خوب سے خوب تر کی تلاش رہی میں ابھی بھی ایک مسافر کی طرح منزل کی طرف رواں دواں ہوں ابھی منزل بہت دور ہے مجھے بہت سے کام کرنے ہیں. اس میں سر فہرست کام یہ بھی ہے کہ میں ایک امریکن انڈین سائیکلوجیکل ایسوسی ایشن بناؤں جس میں اسپریچولٹی، فلاسفی اور سائیکالوجی کے کمبینیشںن کے ساتھ لوگوں کو تھیراپی کی سہولت فراہم کی جائے تاکہ لوگ زیادہ بہتر طریقے سے زندگی کو سمجھ سکیں اور اس سے لطف اندوز ہو سکیں۔
علیزے نجف: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ایک عام انسان کو بھی انسانی نفسیات سے متعلق بنیادی باتوں کا علم لازما ہونا چاہئے اس کی فراہمی کیسے ممکن بنائی جائے کیا وجہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی خود اپنی نفسیاتی صحت کے حوالے سے غافل ہیں؟
ڈاکٹر قطب الدین: ضرور انسان کو بنیادی باتوں کا علم ہونا چاہئے کیوں کہ انسان کو اس لئے ہی بنایا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو پہچانے اور اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھے، اس کے بغیر زندگی میں صحتمند توازن قائم رکھنا ازحد مشکل ہے، سائیکالوجی خود کو سمجھنے کا علم ہے، اور خود سے جڑی ذمےداریوں کو سمجھنا ضروری ہے انسان کی اصل حقیقت کو معرفت الٰہی کے بغیر سمجھنا ممکن نہیں، قرآن میں بھی اس کی تلقین کی گئی ہے کہ تمھیں اس لئے پیدا کیا گیا ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، ایک عربی کا جملہ جس کا مفہوم ہی جس نے اپنے آپ کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا اس بنیاد پہ یہ ضروری ہے کہ انسان اپنی سائیکالوجی کو سمجھے اپنے رویوں پہ نظر رکھے، قرآن میں انسانی نفسیات کو اعتدال میں رکھنے سے متعلق مختلف آیات میں کئی ساری ہدایات موجود ہیں جس پہ عمل کر کے انسان اپنی نفسیات کو متوازن پیمانے پہ رکھ سکتا ہے ، رہی بات پڑھے لکھے لوگوں کا نفسیات سے غافل ہونے کی تو بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی پروفیشنل زندگی پہ زیادہ توجہ دیتے ہیں، ان کی توجہ کا پورا مرکز باہر کی دنیا ہوتی ہے وہ خود پہ توجہ نہیں دے پاتے، اس ضمن میں ہم آج کے دور کو تین باتوں سے ڈسکرائب کر سکتے ہیں ایک نیرسزم دوسرا کیپٹلزم تیسرا شہوت یعنی نفس پرستی یہ نظریہ پوری دنیا پہ چھایا ہوا ہے تعلیم یافتہ طبقہ بآسانی اس کی گرفت میں آ جاتے ہیں جب معاشی طور پہ لوگ فارغ البال ہو جاتے ہیں تو اکثر لوگ اخلاقی اصولوں کو توڑتے ہوئے نظر آتے ہیں، وہ خود کو اصولوں سے مبرا سمجھ لیتے ہیں یہیں سے ہی نفسیاتی بیماریوں کے پنپنے کی شروعات ہوتی ہے۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں نفسیاتی مسائل سے متاثر لوگوں پہ پاگل پن کا ٹیگ لگا دیا جاتا ہے کیوں اسے جسمانی بیماری کی طرح ایک بیماری نہیں خیال کیا جاتا جس کا کہ علاج ممکن ہے اس حوالے سے آپ لوگوں سے کیا کہنا چاہیں گے؟
ڈاکٹر قطب الدین: یہ بات صحیح ہے جس طرح جسمانی بیماری ہے اسی طرح نفسیاتی بیماریاں بھی ہوتی ہیں، مگر نفسیاتی بیماری جسمانی بیماری کے مقابلے میں تھوڑی پیچیدہ بیماری ہے نفسیاتی بیماری کو آسانی سے پہچانا نہیں جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے حل کیا جا سکتا، اس میں وقت لگتا ہے اس میں توانائی اور ڈسپلن کی کافی ضرورت پڑتی ہے ہاں یہ سچ ہے کہ ان تمام شرائط کے ساتھ نفسیاتی بیماریوں کا مکمل علاج کیا جا سکتا ہے۔ نفسیاتی بیماریوں کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں آگاہی کم ہے لوگ اسے اس فرد کا خاص رویہ سمجھ کر نظر انداز کرتے رہتے ہیں اس وجہ سے بھی لوگ اسے بیماری نہیں سمجھتے، ہمارے یہاں کسی بھی طرح کی نفسیاتی بیماری کی طرف اس وقت توجہ دی جاتی ہے جب کہ وہ اپنی انتہا پہ پہنچ جاتی ہے ایسے میں ذہنی توازن بگڑ چکا ہوتا ہے اس وجہ سے لوگ نفسانی امراض کو پاگل پن کا نام دیتے ہیں۔ اس تاثر کو بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ بروقت ان امراض کی طرف توجہ دی جائے اور اس کو مناسب ٹریٹمنٹ مہیا کرایا جائے۔
علیزے نجف: اگر گھر کا سربراہ ہی کسی نفسیاتی مسئلے سے دو چار ہو، اس کے کئے گئے فیصلوں سے اہل خانہ suffer کر رہے ہوں مزید ستم یہ کہ وہ خود کو نارمل سمجھ رہا ہو تو ایسے میں گھر کے دیگر افراد ان کے ساتھ کس طرح ڈیل کرنا چاہئے ؟
ڈاکٹر قطب الدین: بےشک اگر گھر کا سربراہ کسی نفسیاتی مسئلے کا شکار ہے تو ضرور اس کے اثرات اہل خانہ پہ پڑتے ہیں ہر آدمی اپنے آپ کو اس دور میں نارمل ہی سمجھتا ہے چاہے اس کو کسی قسم کے سائیکلوجیکل پرابلم کا سامنا ہی کیوں نہ ہو اہل خانہ کو چاہئے کہ وہ اس کے ساتھ صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور ہر ممکن طریقے سے انھیں علاج کی طرف لانے کی کوشش کریں تاکہ اس کے مسائل کا صحیح حل مل سکے۔ اس کے ساتھ برملا اختلاف کرنے کے بجائے اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے انھیں مسئلے کی اصل نوعیت سمجھانے کی کوشش کریں اس طرح ان کو علاج کی طرف لایا جا سکتا ہے۔ جب ٹریٹمنٹ لے کر ایک بار خود کو زیادہ بہتر ہوتے ہوئے دیکھیں گے تو پھر وہ سمجھ لیں گے کہ مسائل کی وجہ ان کے باہر نہیں بلکہ ان کے اندر ہے اور اس کو دور کیا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں بچوں کی تربیت کے حوالے سے کوئی خاص بیداری نہیں پائی جاتی ماں باپ فقط بچوں کی جسمانی نشوونما کو ہی اپنی ذمےداری سمجھتے ہیں ذہن سازی کی ذمےداری وہ تعلیمی اداروں پہ ڈال دیتے ہیں ماں باپ کے اس ذہنی رویے کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
ڈاکٹر قطب الدین: بےشک بلکل صحیح کہا آپ نے کہ بچے کی جسمانی نشوونما کرتے ہوئے ذہنی نشوونما پہ بھی دھیان دینا چاہئے ہمارے یہاں اس طرف توجہ ذرا کم دی جاتی ہے، اس عدم توجہی کی وجہ بعض اوقات یہ ہوتی ہے کہ والدین پیرنٹنگ کی اہمیت کو سمجھ نہیں پاتے نہ ہی اسے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، والدین بچوں کے بگڑے رویوں کی ذمےداری تعلیمی اداروں پہ ڈال دیتے ہیں یہ تفصیل طلب موضوع ہے جس پہ گھنٹوں بات کی جا سکتی ہے، مختصراً بس یہ کہنا چاہوں گا کہ والدین کو پہلے سے پوری پلاننگ کرنی چاہئے کہ کس طرح بچوں کے رویوں کو ٹرینڈ کیا جائے، وہ کون سے رویے ہیں جو کہ فطری ہیں اس میں بےجا دخل اندازی سے گریز کرتے ہوئے کیا کیا جائے، ان کے اندر نظم و ضبط کیسے پیدا کیا جائے، ان کی اسکولنگ کیسے کی جائے ان کو کس طرح کا ماحول فراہم کیا جائے۔ یہ ایک بڑی ذمےداری ہے جس کے تئیں لاپرواہی برتنے کا ہم خمیازہ بھگت رہے ہیں، اس کمی کی وجہ سے بچے کی شخصیت میں ایک بڑا خلا رہ جاتا ہے، بچے پڑھ تو لیتے ہیں لیکن اس کی سمجھ نہیں رکھتے اس سے دنیا داری نبھائی جا سکتی ہے لیکن نفسیاتی سطح پہ اس کے مضر اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس کے لئے ماں باپ کو باقاعدہ پیرنٹنگ سکلز سیکھنے کی ضرورت ہے۔
علیزے نجف: بچوں کی تعلیمی سفر کی منصوبہ کرتے ہوئے عصری و مذہبی تعلیم کو کیسے مینیج کرنا چاہئے کیا محض ناظرہ قرآن پڑھا دینے سے مذہب سے ان کا تعلق پیدا کیا جا سکتا ہے اگر نہیں تو پھر کس طرح مذہبی علوم کے فراہمی کا اہتمام کیا جائے؟
ڈاکٹر قطب الدین اسلام عصری اور مذہبی تعلیم کو الگ الگ نہیں کرتا دونوں ہی انسان کے لئے ضروری ہے اس وقت بڑی مشکل یہ ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو عصری تعلیم تو دلا رہے ہیں لیکن مذہب سے بے رغبتی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہ رویہ اخلاقی کمزوری پیدا کرتا ہے، جو برائیوں سے بچنے کا جذبہ ہے وہ مفقود ہوتا جا رہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ ہم دنیاوی تعلیم کے ساتھ مذہبی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ دیں اگر ہم یہ نہیں کریں گے تو ہم نام نہاد ٹرینڈ میں الجھ کر رہ جائیں گے، آج کے دور میں فقط ظاہری مذہبی روایات اور مذہب کے نام پہ محدود معلومات فراہم کر کے نوجوانوں کے اندر دینی جذبہ نہیں پیدا کیا جا سکتا ۔دینی ذہن پروان چڑھانے کے لئے قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا بہت ضروری ہے ساتھ ہی ساتھ سیرت نبوی کا مطالعہ کرنا بھی ضروری ہے اس سے مذہب سے ایک ژندہ تعلق پیدا ہوتا ہے۔ جب تک مذہب ہماری روزمرہ کے معمولات میں اہمیت حاصل نہیں کرے گا اس وقت تک دینی ذہن نہیں پیدا کیا جا سکتا۔ اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بچوں کے اندر سوچنے و غور و فکر کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے، اگر وہ مذہب پہ سوال اٹھاتے ہیں تو ان کے سوال کو رد کرنے کے بجائے انھیں تحقیق کی طرف مائل کرنا چاہئے، خود بھی ان سوالات کے جواب حاصل کرنے میں اپنا حصہ حاصل ڈالنا چاہئے، بدلتے وقت کے تقاضے اس قدر تیزی سے بدل رہے ہیں کہ اب نئی نسل کے ذہن کو رسم و رواج کے حدود میں رکھ کر مذہب پرست نہیں بنایا جا سکتا۔
علیزے نجف: نوجوان نسل اس وقت کئی طرح کے ایڈکشن کا تیزی سے شکار ہورہی ہے ڈرگ منشیات کے علاوہ اسکرین ایڈکشن افیئر ایڈکشن وغیرہ وہ قبل از وقت ریلیشن شپ میں چلے جاتے ہیں ناسمجھی میں کئے گئے فیصلے اکثر غلط ثابت ہوتے ہیں اس طرح کے سارے ایڈکشن سے کیسے بچا جا سکتا ہے ؟
ڈاکٹر قطب الدین: یہ دور ایڈکشن کا دور ہے، ہر طرف ایسی چیزیں موجود ہیں جو ناپختہ ذہن کو بہت تیزی سے اپنی طرف کھینچ رہی ہیں ایسے میں ہمیں بہت ساری باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہو چکا ہے، سب سے پہلی چیز کہ بچوں کو صحت مند سرگرمیوں میں مصروف رکھنے کی کوشش کی جائے، جس سے ان کے اندر نظم و ضبط کے ساتھ صحیح و غلط کی تمیز بھی پیدا ہو سکے، ان سے ہر اس موضوع پہ بات کرنے کی کوشش کی جائے جس سے وہ مانوس ہونے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ انھیں یہ معلوم ہو سکے کہ وہ جس طرف جا رہے ہیں اس کی حقیقت کیا ہے، بچوں کو ایڈکشن سے بچانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ انھیں ایڈکشن سے متعلق پائے جانے والے معاشرتی رویے اور ان کے منفی مضمرات سے پوری طرح آگاہ کیا جائے، خود بچے کے ساتھ ایک اچھا جذباتی تعلق بنانے پہ توجہ دی جائے تاکہ بچہ جب بھی خود کو ڈپریسڈ فیل کرے تو وہ آپ سے بات کرنے میں جھجھک محسوس نہ کرے، اس حوالے سے ماں باپ کی ذمےداری یہ ہے کہ بچوں کو جج کرنے کے بجائے انھیں سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے انھیں مارجن دینے کی عادت بھی اپنائیں، موجودہ دور میں بچوں کو راہ راست پہ رکھنے کے لئے صرف پابندیاں کافی نہیں ہیں بلکہ انھیں صحیح علم فراہم کرنا اور ان سے مضبوط تعلق کو بنائے رکھنا بھی بہت ضروری ہے اور معاشرتی سطح پہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے ٹریننگ سینٹر قائم کئے جائیں جہاں پہ نوجوانوں کو ذہنی و نفسیاتی سطح پہ ایجوکیٹ کیا جا سکے۔ اگر ان کو صحیح ایجوکیشن نہیں دی جائے گی تو اس گوگل ایجوکیٹر کے دور میں وہ کہیں سے بھی جاننے کی کوشش کر سکتے ہیں ایسے میں ان کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ ان کے لئے کیا صحیح ہے اور کیا غلط ہے، یہیں سے ہی ان کے بھٹکنے کے چانسز بڑھ جاتے ہیں۔ ہر طرح کے ایڈکشن سے بچانے کے لئے قبل از وقت احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پہ غور کیا جائے نہ کہ جب وہ پوری طرح اس کے چنگل میں پھنس جائیں تو دہائیاں دینا شروع کر دیں۔ موجودہ دور میں ٹکنالوجی نے بہت آسانیاں بھی پیدا کر دی ہیں، آن لائن کسی بھی اکسپرٹ سے مدد لی جا سکتی ہے اور بہترین کتابوں کا مطالعہ کر کے بھی خود کو اس طرح کے مسائل سے باہر نکالا جا سکتا ہے۔
علیزے نجف: دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے انسان کو درپیش چیلنجز بھی بدل رہے ہیں اس کا سامنا کرنے کے لئے لائف سکلز کو سیکھنا ناگزیر ہو چکا ہے میرا سوال یہ ہے کہ ایک عام انسان کامیاب زندگی گزارنے کے لئے ان لائف سکلز کو کیسے سیکھے اور کن کن ذرائع کا سہارا لے؟
ڈاکٹر قطب الدین: بےشک دنیا بدل رہی ہے نصف صدی پہلے کی لرننگ سے موجودہ دور کے مسائل کا سامنا نہیں کیا جا سکتا، یہ تبدیلی بھی بلکل فطری ہے ہر دور کی اپنی کچھ خاص تہذیب و ثقافت ہوتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ مسائل کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے، آج کے مسائل نصف صدی پہلے کے مسائل سے کافی حد تک مختلف ہیں ایسے میں ضروری ہے کہ کوپنگ میکانزم کو بھی تبدیل کیا جائے، بےشک اس کے لئے لائف سکلز بھی سیکھنا ضروری ہے، پچھلی ایک دو دہائی سے اس شعبے میں بہت بیداری پیدا ہوئی ہے، ایسے میں زندگی میں درپیش چیلنجز کا سامنا کرنے کے لئے مطلوبہ سکلز کو بآسانی سیکھا جا سکتا ہے۔ یوٹیوب، گوگل نے پوری دنیا کے علوم کو ایک کلک میں قید کر دیا ہے۔ بےشک یہ بھی سچ ہے کہ ابھی لوگوں کے سیکھنے کی رفتار بہت سست ہے، بیشتر لوگ مسائل کی گمبھیرتا سے ہی ابھی پوری طرح واقف نہیں، لیکن ہم پر امید ہیں کہ انشاء اللہ لوگ درپیش ہر مشکل کا حل ڈھونڈ نکالیں گے۔
علیزے نجف: جسمانی صحت کی طرح نفسیاتی صحت بھی اوائل عمری میں اکثر و بیشتر متوازن سطح پہ رہتی ہے اس کے بعد وہ کون عادتیں یا رویے ہیں جو نفسیاتی صحت میں خرابی پیدا کرنے کی وجہ بنتے ہیں ان رویوں اور ان کے برے اثرات سے اپنی نفسیاتی صحت کو کیسے بچایا جا سکتا ہے؟
ڈاکٹر قطب الدین: سب سے پہلی چیز جو مسائل پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے وہ ہے صحیح پیرنٹنگ کا نہ ہونا ماں باپ کبھی کبھی خود اس حوالے سے غافل ہوتے ہیں اور کبھی کبھی وہ پیرنٹنگ کے صحیح اصولوں سے واقف نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کی صحیح تربیت کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اس کی وجہ سے بچے ماں باپ سے دور ہو جاتے ہیں اور غلط صحبت میں پڑ کر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں، چوں کہ یہ تبدیلی اس قدر عام ہو گئی ہے کہ وہ ان کو عام رویہ سمجھ کر اسے اپنائے رکھنے پہ بضد ہوتے ہیں، نفسیاتی بیماریاں دکھائی نہیں دیتیں اس لئے لوگ اسے آخری حد تک نظر انداز کرتے ہیں یہاں تک کہ مسائل حد سے بڑھ جاتے ہیں اس کی وجہ سے وہ نہ صرف خود مبتلائے آزار ہوتے ہیں بلکہ ان کی فیملی بھی اس کی وجہ سے suffer کر رہی ہوتی ہے، ڈرگ ایڈکشن ہو یا پھر کسی انتہا پسند رویے کا شکار ہونا یہ سب کچھ اسی ذیل میں آتا ہے، اس طرح کے مسائل سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے کہ انھیں مقصد کے ساتھ جینا سکھائیں، اصولوں کے ساتھ زندگی گزارنے کی ترغیب دلائیں۔ شعور کی عمر کو پہنچنے کے بعد ہر فرد کی ذمےداری ہوتی ہے کہ وہ اپنی جسمانی صحت کے ساتھ نفسیاتی صحت کا بھی خیال رکھے ماحول اور غذا کا بھی نفسیاتی صحت پہ گہرا اثر پڑتا ہے اس پہ خصوصی توجہ دیں۔
علیزے نجف: ہمارے یہاں کئی ساری نفسیاتی بیماریاں اس طرح عام ہو چکی ہیں کہ لوگ اسے نارمل سمجھنے لگے ہیں انھیں میں سے ایک بیماری نرگسیت ہے اچھا خاصا پڑھا لکھا طبقہ بھی اس کا شکار نظر آرہا ہے میرا سوال یہ ہے کہ لوگوں کے اس مرض میں مبتلا ہونے کی بنیادی وجہ کیا ہے کیا یہ بیماری جینیاتی سطح پہ بھی ٹرانسفر ہوتی ہے کیا اس کا علاج ممکن ہے ساتھ ہی ساتھ یہ بھی بتاتے چلیں کہ نرگسیت کے شکار لوگوں کے ساتھ کیسے ڈیل کیا جائے؟
ڈاکٹر قطب الدین: بےشک نارسسزم سے اچھا خاصا پڑھا لکھا طبقہ بھی متاثر ہے عالمی سطح پہ اس کے متاثرین کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے پہلے مغربی ممالک میں نارسسٹ لوگوں کی ایک کثیر تعداد پائی جاتی تھی لیکن اب مشرقی ممالک میں بھی لوگ اس سے متاثر ہوتے دکھائی دیتے ہیں، کیپٹلزم کی وجہ سے نارسسزم کو بہت بڑھاوا ملا ہے، جہاں تک اس کے علاج کا سوال ہے تو بےشک یہ معاشرتی سطح پہ یہ کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں ہے ایسے میں ضروری ہے کہ ہمیں معاشرتی اقدار اور انسانیت کے تقاضوں کو مزید اہمیت دی جائے، شروع سے ہی نوجوانوں کی عادات و اطوار اور ان کے عمل و ردعمل پہ گہری نگاہ رکھی جائے، اسے لعن طعن کرنے کے بجائے ان کے ساتھ صحتمند اطوار میں اشتراک کا ماحول پیدا کیا جائے۔ اس کا علاج ذرا مشکل سہی لیکن ممکن ہے، ان کے ساتھ ڈیل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے نارسسٹ کے مزاج کو از سر نو سمجھ لیا جائے، بےجا توقعات سے خود کو آزاد کر لیا جائے، اپنے ذہن کو اس کے ممکنہ رویے کے مطابق پہلے سے تیار کر لیا جائے تاکہ عین وقت پہ غلط ردعمل مسائل میں اضافے کا سبب نہ بنے۔ کوشش کیجیے ان کے ساتھ خود بھی دو چار سیشنز لے لیں تاکہ آپ کو خود کو سنبھالنا آسان ہو جائے۔
علیزے نجف: موجودہ دور انفارمیشن کا دور ہے انسان کی بساط اور سکت سے کہیں زیادہ معلومات ان تک پہنچ رہی ہے اس قدر علم اور آگہی کے باوجود کیا وجہ ہے کہ لوگ مزید بےسکون اور الجھے ہوئے نظر آتے ہیں ہر کوئی اپنے آپ میں تنہا ہے اس خلا کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے؟
ڈاکٹر قطب الدین: بےشک یہ صحیح کہا آپ نے موجودہ دور میں انفارمیشن کا ایک سیلاب ہے اب محض ایک کلک پہ دنیا جہان کا علم لوگوں کی رسائی میں ہوتا ہے مسئلہ یہ ہے کہ علم کی بہتات کے ہوتے ہوئے بھی ایک انارکیت اور جہالت ہر طرف نشوونما پاتی دکھائی دے رہی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ علم تو ہے لیکن شعور کی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے وہ اس علم کا صحیح استعمال کرنے سے قاصر ہیں اس کی وجہ سے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اگر علم کے برتنے کا سلیقہ نہ ہو تو زیادہ علم بھی وبال جان بن جاتا ہے اور کبھی کبھی صحیح علم کے غلط جگہ استعمال ہونے کی وجہ سے بھی فائدے کے بجائے نقصان میں اضافہ ہوتا ہے، اس کے لئے ضروری ہے کہ سوچ کی تربیت کی جائے نوجوان نسل کے طرز فکر کی صلاحیت کو باقاعدہ اصولوں کے ساتھ پروان چڑھایا جائے۔
علیزے نجف: زندگی کو کامیاب بنانے کے لئے اصولوں کا ہونا ناگزیر ہے آپ کی زندگی کے وہ تین بنیادی اصول کون سے ہیں جو آپ کو ذہنی سکون فراہم کرنے میں معاون ثابت ہوئے ہیں؟
ڈاکٹر قطب الدین: بےشک زندگی کو اصولوں سے مبرا نہیں کیا جا سکتا ، زندگی گزارنے کے اصول ہر کسی کے لئے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ اصولوں کی حیثیت آفاقی ہوتی ہے، ان بنیادی اصولوں میں سے پہلا اصول ہے خدا پر بھروسہ، اس پہ پختہ یقین یہ انسان کی فکر کو مثبت رخ پہ رکھنے اور پرامید رہنے میں معاون ہوتی ہے، اس کے علاوہ خود پہ بھروسہ بھی ہونا ضروری ہے تاکہ اپنے اندر موجود پوٹینشیل کو بروئے کار لایا جا سکے، اخلاقی قدروں کو اہمیت دینا بھی بنیادی اصولوں میں شامل ہے یہ تینوں چیزیں بہت ضروری ہے زندگی میں کامیاب ہونے کے لئے مسلسل جد و جہد ایک لازمی عنصر ہے، قدرت بعض اوقات ہمارا امتحان لے رہی ہوتی ہے اگر ہم ثابت قدمی کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لئے کوشش کرتے رہتے ہیں تو پھر وہ ہمیں ہماری منزل تک پہنچا ہی دیتا ہے، میں نے خود کے بارے میں بھی یہی تجربہ کیا ہے، میری مسلسل اور انتھک کوشش نے ہی مجھے موجودہ مقام تک پہنچایا ہے جب کبھی ناکامی سے سامنا ہوا میں نے خود پہ کام کیا اور اپنے مقصد کے حصول کے طریقوں اور ذرائع کا از سر نو جائزہ لیا پھر قدم آگے بڑھایا اس طرح میں نے خوداعتمادی کے ذریعے زندگی کے سارے مراحل کو طئے کیا ہے۔
علیزے نجف: آپ ایک کامیاب ماہر نفسیات ہیں کیا آپ کی زندگی میں کبھی کوئی ایسا لمحہ آیا ہے جب کسی ناکامی نے آپ کو دلگرفتہ کر دیا ہو، پھر آپ نے خود کو اس فیز سے کیسے باہر نکالا؟
ڈاکٹر قطب الدین: ہر انسان کو ناکامی سے گزر کر ہی کامیابی ملی ہے اگر کوئی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ میں ہمیشہ کامیابی ہی حاصل کرتا رہا ہوں مجھے کبھی ناکامی کا سامنا نہیں پڑا ہے تو یہ دعویٰ سرے سے ہی غلط ہے ناکامی کامیابی کے زینوں میں سے ایک زینہ ہے، جب ہم اس بات کو قبول کر لیتے ہیں تو ہم ناکامیوں سے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں، میری زندگی میں بھی کئی ایسے مواقع آئے جب ناکامی سے میرا سابقہ پڑا، اس وقت میں فرسٹریٹ ہوا وقتی طور پہ دکھی بھی ہوا لیکن پھر بہت جلد اپنی کمیوں پہ کام کیا اور غلطیوں کو درست کیا اور ازسر نو اس مطلوبہ منزل کی سمت میں اپنا سفر شروع کیا۔
علیزے نجف: اگر اس وقت میں آپ سے یہ سوال کروں کہ آپ کی زندگی کی سب سے بڑی یافت کیا ہے تو آپ کیا کہیں گے اور ایسا کیا کھویا ہے جس کی کمی آج بھی آپ کو دکھی کر دیتی ہے ؟
ڈاکٹر قطب الدین: یہ تو بڑا مشکل سوال ہے اس کے جواب میں یہ کہنا چاہوں گا کہ جب سے میں سائیکاٹری میں داخل ہوا تو میرے اندر کے تجسس کو ایک واضح وسیع دنیا مل گئی مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں سائیکاٹری کے لئے ہی بنا ہوں، اس میں انسانی رویوں کی سمجھ ان کے فکر کو سمجھنے اور روحانیت کو پروان چڑھانے والے عناصر موجود ہیں یہ ذہنی فکری روحانی جذباتی علم کا ایک بہترین مرکب ہے اس لئے یہ کہنا بھی کچھ غلط نہیں ہوگا نفسیاتی علم ہر طرح کے علوم کی جڑ میں موجود ہے، میں یافت کے حوالے سے یہی کہوں گا کہ سائیکاٹری میں آنا یہ میری سب سے بڑی یافت ہے۔ کیوں کہ اس میں آنے سے پہلے میں سرجن بننے کی کوشش میں تھا اور شاید میں ایم بی بی ایس اور ایم ڈی کرنے کے بعد اس فیلڈ میں داخل ہو بھی جاتا لیکن اسی دوران سائیکالوجی میں انٹرسٹ پیدا ہونے کے بعد اس میں کئی ڈگری لے کر سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کر کے اسی کا ہو کے رہ گیا۔ میرا کھونے کا سب سے بڑا دکھ وہ میری والدہ کے انتقال سے جڑا ہوا ہے یہ سانحہ دو سال پہلے ہوا ہے میری ہمیشہ سے خواہش تھی کہ میں ان کے ساتھ زیادہ وقت گزار سکوں پچھلے چالیس سالوں سے امریکہ میں اپنی پروفیشنل زندگی میں بہت مصروف ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ اتنا وقت نہیں گزار پایا جتنا کہ میں گزارنے کی خواہش رکھتا تھا۔
علیزے نجف: آپ اپنی پروفیشنل اور ذاتی زندگی میں بےشمار لوگوں سے ملے ہیں ان میں سے کن شخصیات سے آپ ازحد متاثر ہوئے اور کیوں؟
ڈاکٹر قطب الدین: اللہ کے فضل سے کئی سارے اچھے لوگوں سے ملاقات ہوئی یہاں پہ میں وہ چند نام لینا چاہوں گا میری سب سے پہلی رول ماڈل شخصیت میری دادی رہی ہیں ان کی سادگی اور زندگی کے اصول نے مجھے ہمیشہ متاثر کیا وہ وقت کو منظم انداز میں گزارنے کی قائل تھیں تاکہ اسے ضائع ہونے سے بچایا جا سکے، وہ زندگی کے تمام معاملے میں سادگی کی قائل تھیں جس سے کہ میں نے بہت کچھ سیکھا۔ دوسری شخصیت عالمی باکسنگ چیمپئن محمد علی کلے ہیں جن سے میں متاثر ہوا وہ میرے دوستوں میں شامل تھے دوستی کا یہ عرصہ ستائیس سالوں پہ محیط تھا عالمی باکسنگ چمپین ہونے کے باوجود اس کے مزاج میں سادگی کا عنصر غالب تھا وہ جب بھی میرے گھر آتے ان کے رویے میں کبھی بھی رتبے و مرتبے کا رعب نظر نہیں آیا وہ اکثر کہا کرتے تھے مجھے کسی چیز کا خوف نہیں سوائے خدا کے، مجھے اس کے سامنے جوابدہ سے ڈر لگتا ہے محمد علی کلے کے اسی رویے نے مجھے مزید ان کے قریب کر دیا اتنی بڑی شخصیت ہونے کے باوجود وہ انتہائی سادہ مزاج تھے میرے بچوں کے ساتھ بہت مزاحیہ باتیں کرتے۔ تیسری شخصیت میرے استاد سید احمد صاحب ہیں انھیں کی وجہ سے میں اردو زبان و ادب کا اسیر ہوا انھیں کی وجہ سے میرے اندر مطالعہء کتب کا شغف پیدا ہوا ہندوستان کے سابق صدر جمہوریہ حامد انصاری صاحب کی فکری بصیرت اور دوراندیشی نے مجھے بہت متاثر کیا وہ ایک وژینری انسان ہیں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے ارتقائی سفر کے حوالے سے وہ ہمیشہ فکر مند رہے ہیں۔ ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی شخصیت بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے اس اعلی منصب پہ ہوتے ہوئے بھی ان کے اندر سادگی اور متانت ہے، ان کا اصل وژن قوم کی ترقی اور عالمی سطح پہ مسلمانوں کے تحفظ و ترقی کے لئے فکرمند رہتے ہیں اور اپنے دائرہء اختیار میں رہتے ہوئے بھرپور کوشش بھی کرتے ہیں، امریکہ کے صدر اژلن کارٹر اور جمی کارٹر کے خدمت خلق کے جذبے نے مجھے ازحد متاثر کیا ذہنی صحت کے لئے انھوں نے کئی طرح کی اہم خدمات انجام دیں جس سے لوگوں کو بہت فائدے پہنچا ۔