✍️ عالمہ حمیرا حسین مومناتی (ایم اے ) شیخ پورہ دانی , دربھنگہ, بہار
رمضان المبارک کا مہینہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتیں اس کے بندوں کی طرف متوجہ ہوتی ہیں , خدا کی طرف سے انوار وبرکات کا سیلاب امڈ آتا ہے اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں، مگر ہم لوگ اس مبارک مہینے کی قدرومنزلت سے واقف نہیں، کیونکہ ہماری ساری فکر اور جدوجہد مادّیت اور دنیاوی کاروبار کے لیے ہے، اس مبارک مہینے کی قدردانی وہی لوگ کرتے ہیں جن کی فکر آخرت کے لیے اور جن کا محور مابعد الموت ہو . اب رمضان المبارک کا پہلا دو عشرہ گزر چکا ہے تو چاہئے کہ ماہ مبارک کے بچے ہوئے ایام کو غنیمت جانیں اور اپنے اوقات کو اللہ کی عبادت و اطاعت ، اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے میں صرف کریں اور بہتر ہوگا کہ اس سے استفادہ کے لئے ایک نظام العمل بنائیں ! اور اس کے مطابق اپنا وقت گزاریں , یہ نظام وقت کی حفاظت کرے گا , نیکیوں میں معاون ہوگا اور اس مہینہ کی سعادتوں اور برکتوں سے دامن مراد بھرنے کا وسیلہ بنے گا.
رمضان المبارک کے خصوصی اعمال ووظائف: وہ اعمال و وظائف جن کی اس ماہ میں خصوصی فضیلت اور تاکید آئی ہے-
(1) روزہ کا اہتمام عبادت کی نیت سے صبحِ صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رُکے رہنے کا نام روزہ ہے، اور یہ اس ماہ کا سب سے اہم عمل ہے , جیساکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے. شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْآنُ ھُدَی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِنَ الْھُدَیٰ وَالفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمْ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ (البقرہ)
(رمضان وہ مہینہ ہے جس میں نازل کیاگیا قرآن جو انسانوں کے لیے ہدایت ہے اور ہدایت کی واضح دلیل اور حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والا ہے؛ لہٰذا جو شخص اس مہینہ کو پائے تو اُس کے روزے ضرور رکھے)۔ دوسری جگہ ارشاد ہے یَا اَیُّھَا الذِیْنَ آمَنُوا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ(البقرة)
(اے ایمان والو فرض کیاگیا تم پر روزہ جیسے فرض کیاگیا تھا ان لوگوں پر جو تم سے پہلے تھے؛ تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ : إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ ، يدع طعامه وشهوته من أجلي ، للصائم فرحتان : فرحة عند لقاء ربه ولخلوف فم الصائم اطيب عند الله من ريح المسك (صحیح بخاری ،رقم 1893 )
"انسان جو بھی نیک عمل کرتا ہے ،اس کا اجراسے دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے۔لیکن روزے کے بابت اللہ عزوجل فرماتا ہے کہ یہ عمل(چونکہ) خالص میرے لیے ہے،اس لیے میں ہی اس کی جزا دوں گا۔(کیونکہ) روزے دار صرف میر ی خاطر اپنی جنسی خواہش،کھانا اور پینا چھوڑتا ہے۔روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں:ایک خوشی اسے روزہ کھولتے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری خوشی اسے اس وقت حاصل ہوگی جب وہ اپنے رب سے ملے گا اور روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں مشک سے بھی زیادہ پاکیزہ ہے”
ایک دوسری روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ (صحیح بخاری، رقم:1901)
"جس نے رمضان کے روزےایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے(یعنی اخلاص سے)رکھے تو اس کے پچھلے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں” لیکن یہ فضیلت اور اجرعظیم صرف کھانا پینا چھوڑ دینے سے حاصل نہیں ہو گا،بلکہ اس کا مستحق صرف وہ روزے دار قرار پائے گا جو صحیح معنوں میں روزوں کے تقاضے بھی پورے کرے گا۔جیسے جھوٹ ،غیبت،بدگوئی و گالی گلوچ ،دھوکہ و فریب اور اس قسم کی تمام بے ہودگیوں اور بدعملیوں سے بھی اجتناب کرے ۔اس لیے کہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
(من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه (صحیح بخاری , رقم:1903)
"جس نے جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا،تواللہ تعالیٰ کو کوئی حاجت نہیں کہ یہ شخص اپنا کھانا پینا چھوڑے”۔۔۔اور فرمایا:
"الصيام جنةوإذا كان يوم صوم أحدكم فلا يرفث، ولا يصخب فإن سابه أحد، أو قاتله فليقل: إني امرؤ صائم”
"روزہ ایک ڈھال ہے۔جب تم میں سے کسی کا روزے کا دن ہو،تو وہ نہ دل لگی کی باتیں کرے اور نہ شوروشغب۔اگر کوئی اسے گالی دے یالڑنے کی کوشش کرے تو(اس کو) کہہ دے کہ میں تو روزے دار ہوں”(بخاری ,رقم: 1903 مسلم, رقم:1151)
یعنی جس طرح ڈھال کےذریعے سے انسان دشمن کے وار سے اپنا بچاؤ کرتا ہے۔اس طرح جو روزے دار روزے کی ڈھال سے اللہ کی نافرمانی اور گناہوں سے بچے گا۔ گویا اس کے لیے ہی یہ روزہ جہنم سے بچاؤ کے لیے ڈھال ثابت ہوگا۔اس لیے جب ایک مسلمان روزہ رکھے،تو اس کے کانوں کا بھی روزہ ہو،اس کی آنکھ کابھی روزہ ہو،اس کی زبان کا بھی روزہ ہو،اور اسی طرح اس کے دیگراعضاء وجوارح کا بھی روزہ ہو۔یعنی اس کا کوئی بھی عضو اور جزء اللہ کی نافرمانی میں استعمال نہ ہو۔ (2) نماز تراویح کا اہتمام : رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد بیس رکعات باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے۔ نماز تراویح بالاجماع سنت مؤکدہ ہے اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں اس کی اہمیت و فضیلت بیان ہوئی ہے۔ خلفائے راشدین رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے نماز تراویح کی مداومت فرمائی ہے حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے کہ ’’میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو اپنے اوپر لازم کرلو‘‘۔ خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز تراویح ادا فرمائی اور اسے پسند فرمایا, پھر اس اندیشے سے مسجد نبوی میں آپﷺنے یہ نماز پڑھنا چھوڑ دیا کہ کہیں یہ فرض نہ ہوجائے اور امت کے لئے باعث مشقت ہو چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ سے آج تک امت میں بیس رکعت تراویح کا معمول رہا ہے اس لئے مسنون یہی ہے کہ بیس رکعت تراویح ادا کی جائے ایک حدیث جسے امام بخاری: (رقم:37) اور مسلم : (رقم:759)نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو شخص رمضان میں ایمان اور ثواب کی امید سے قیام کرے تو اس کے گزشتہ گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں نیز قیام اللیل کے جو عمومی فصائل ہیں وہ نماز تراویح پر بھی صادق آتے ہیں . لہذا تراویح پڑھنے کا ضرور اہتمام کریں , کیونکہ اس ماہ میں رسول اللہ ﷺ کی عبادت کی مقدار بڑھ جایا کرتی تھی اور نماز تراویح کے ذریعہ یہ سنت پوری ہوتی ہے , بعض حضرات تراویح میں قرآن مجید مکمل ہونے کے بعد نماز تراویح کا اہتمام ہی ختم کردیتے ہیں, یہ درست نہیں ہے , کیونکہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور قرآن کریم کا مکمل کرنا مستحب , نماز مستقل عمل ہے اور نماز میں قرآن مجید کی تکمیل ایک الگ عمل -(3) قرآن مجید کی تلاوت : رمضان المبارک کو تلاوت قرآن سے خاص مناسبت ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید رمضان المبارک میں ہی نازل ہوا۔ رمضان المبارک میں حضرت جبرئیل علیہ السلام پورا قرآن مجید رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا کرتے تھے اور ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتے تھے۔ گویا ماہ رمضان نزول قرآن کی یادگار اور اس کی سال گرہ ہے ۔ تلاوت قرآن کی اہمیت و فضیلت اس قدر ہے کہ قرآن کریم کے ایک حرف پڑھنے سے دس نیکیاں ملتی ہیں، اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے: ’’جس نے کتاب اللہ کاایک حرف پڑھا، اس کے لئے ایک نیکی ہے اورایک نیکی کابدلہ دس گناملتاہے، میں نہیں کہتاکہ آلم ایک حرف ہے؛ بل کہ الف ایک حرف ہے، لام ایک حرف ہے اورمیم ایک حرف ہے‘‘(سنن الترمذی، حدیث نمبر: 2910)،یعنی اگرکوئی صرف آلم پڑھ لیتاہے تووہ تیس نیکیوں کامستحق ہوجاتاہے۔ پھررمضان میں کئے ہوئے نیک کام کااجردوسرے دنوں کے مقابلہ میں کئی گنازیادہ ہوتاہے؛ اس لئے رمضان کامہینہ اس بات کاحق دارہے کہ اس میں خوب خوب تلاوت کی جائے
- اس لیے رمضان المبارک میں کم از کم تین پارہ یومیہ تلاوت کا معمول بنائیں۔ اگر تلاوت کے لیے کوئی خاص وقت بھی متعین نہ کریں تو ہر نماز سے پہلے یا بعد حسب سہولت تلاوت کر لیں۔ اس طرح قرآن مجید سے شغف اور تعلق میں اضافہ ہوگا اور اس کے ذریعے اجر کا جو ذخیرہ جمع ہوگا وہ شمار سے باہر ہے .
تلاوت کے وقت ایک بات ہمیشہ ملحوظ رہے کہ قرآن کا مقصد صرف الفاظ کی تلاوت نہیں ہے بلکہ قرآن مجید کا مفہوم سمجھنا اور اس کی ہدایات کو اپنی زندگی میں شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ قرآن اصلاً تو عمل کے لیے نازل ہوا تھا، اس لیے جب تک قرآن کو سمجھا نہ جائے، اس وقت تک گویا نزول قرآن کا مقصد پورا نہیں ہوا۔ جو لوگ عربی جانتے ہیں وہ تو سمجھ لیں گے لیکن جو عربی نہیں جانتے وہ پہلی فرصت میں یہ نیت کریں کہ وہ عربی سیکھیں گے تاکہ قرآن مجید کو سمجھ سکیں۔ جب تک عربی نہیں سیکھ پاتے اس وقت تک قرآن کا معتبر ترجمہ پڑھ کر اس کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اسی کے ساتھ کسی معتبر عالم کی نگرانی بھی رکھیں تاکہ فہم قرآن میں کوئی غلطی نہ ہو۔ (4) نوافل کی کثرت:
نوافل فرائض میں کمی و کوتاہی کی تلافی کرتے ہیں، عام دنوں میں بھی اس کااہتمام کرناچاہئے، رمضان المبارک میں اس کاخاص اہتمام اس لئے کرنا چاہئے کہ اس میں نوافل کاثواب عام دنوں کے فرائض کے برابرہوتاہے(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر: 1887)۔ نفل نمازوں میں کچھ وہ ہیں جو متعین اوقات میں پڑھنے کی ہیں جیسے نماز اشراق, نماز چاشت, نماز اوابین , نماز تہجد وغیرہ جبکہ دیگر نوافل اوقات مکروہہ کے علاوہ کسی بھی وقت ادا کئے جاسکتے ہیں. کوشش کرنی چاہئے کہ رمضان میں ان تمام نوافل نمازوں کو پڑھیں لیکن خاص کر تہجد کا اہتمام ضرور کریں, گیارہ مہینہ اس سے غفلت رہتی ہے؛ لیکن رمضان میں اللہ تبارک وتعالیٰ ایک اچھاموقع ہمیں عطاکرتاہے، ہم سحری کے لئے اٹھتے ہی ہیں، دس منٹ پہلے اٹھ جائیں اورجتنامیسرہو، تہجد پڑھ یں اوراللہ تعالیٰ کے سامنے بخشش چاہیں ؛ اس لئے کہ وقت ایساہوتاہے، جس میں اللہ رب العالمین آسمان ِدنیاپرنزول اجلال فرماتاہے اورکہتاہے کہ’’کون مجھ سے دعاکرتاہے کہ میں اس کی دعاقبول کروں ؟کون مجھ سے مانگتاہے کہ میں اسے نوازوں ؟ کون مجھ سے مغفرت چاہتاہے کہ میں اسے بخش دوں ؟‘‘(سنن ابوداؤد، حدیث نمبر:1317). (5) ذکرواذکار:
ذکرسے دل کواطمینان حاصل ہوتا ہے(الرعد: 28)، گیارہ مہینے فکرمعاش میں جو بے اطمینانی رہتی ہے، وہ ڈھکی چھپی بات نہیں، رمضان المبارک کا مہینہ دل کواطمینان دینے کامہینہ ہے؛ اس لئے ادھرادھرکی باتوں میں وقت ضائع کرنے کے بجائے ذکرواذکارمیں مشغول رہناچاہئے، اس سے دل کواطمینان تو حاصل ہوگا ہی، ثواب بھی خوب خوب ملے گا، ویسے بھی لایعنی باتوں میں مشغول ہونے سے روکاگیاہے، اللہ کے رسول ﷺ کاارشاد ہے: ’’آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے لایعنی باتوں کا ترک دیناہے‘‘(سنن الترمذی رقم :2318). (6) دعاؤں کا اہتمام
رمضان المبارک کا مہینہ دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے ،جس میں مومن بندوں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔اس سلسلہ میں نبی کریم ﷺ کے مختلف ارشادات منقول ہیں چناں چہ نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے کہ:اَلصَّائِمُ َلاُترَدُّدَعْوَتُہ‘۔( مسند احمد ؛۹۹۷۰)یعنی روزے دار کی دعا رَد نہیں کی جاتی ۔اور ایک حدیث میں ارشا د فرمایا:اِنَّ ِللّہ عتقاء فِیْ کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ ،لِکُلِّ عَبْدٍ ِمْنھُمْ َدعْوَۃٌ مُسْتَجَاْبَۃٌ۔( مسند احمد ؛۷۲۶۸)یعنی اللہ کے لئے ( رمضان )کے ہر دن اور رات میں ( بے شمار لوگ جہنم سے ) آزاد کئے جاتے ہیں ،اور ہر بندے کی دعا قبول کی جاتی ہے۔اسی طرح ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا:ثَلٰثَۃٔ لَا ُترَدُّ دَعْوَتُھُمْ اَلصَّائِمُ حَتّٰی یُفْطِرُ،وَالِْامَامُ الْعَادِلُ،وَدَعْوَۃُ الْمَظْلُوْمِ ۔۔۔(ترمذی؛۲۴۶۴)یعنی تین آدمیوں کی دعا رد نہیں ہوتی ،ایک روزہ دار کی افطار کے وقت ،دوسرے عادل بادشاہ کی ،تیسرے مظلوم کی۔سحری اور افطار کا وقت استجابت کے خصوصی اوقات ہیں . خاص کر اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں دعاؤں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے ۔ اس موقع کی ایک خاص دعا بھی حدیث میں وارد ہوئی ہے ۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ شبِ قدر کون سی رات ہے ، تو کیا دعا کروں؟آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح دعا کرنا: اللَّھُمَّ اِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔اے اللہ تو معاف کرنے والا اور معافی کو پسند کرنے والا ہے ،مجھے معاف فرما دیجیے ۔(ترمذی , رقم :3513) اس لئے رمضان میں دعا کا معمول رکھنا چاہئے اور اپنے لیے ، اپنے اعزہ و احباب کے لیے ، مرحومین کے لئے بلکہ پورے عالَم کے لیے خوب خوب دعائیں کی جائیں، کیوں کہ ان دنوں اور راتوں میں اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور بخشش کا بہانہ ڈھونڈتی ہے اور بعض دفع تو بے بہانہ بھی عطا کر دیتی ہے۔ (7) صدقہ وخیرات صدقات وخیرات کاعام حکم دیاگیاہے، یہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کودورکرتی ہے , بلا ومصیبت سے حفاظت اور بری موت سے بچاتی ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :
كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود الناس وَكَانَ اجود مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِينَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ يَلْقَاهُ فِي كُلِّ لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فَيُدَارِسُهُ الْقُرْانَ، فَلَرَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -اجود بِالْخَيْرِ مِنْ الرِّيحِ الْمُرْسَلَةِ. (مسلم, رقم 2208)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھلائی کے کاموں میں سب سے زیادہ سخاوت کرنے والے تھے اور آپ کی سب سے زیادہ سخاوت رمضان کے مہینے میں ہوتی تھی۔۔۔اس مہینے میں(قرآن کا دور کرنے کے لیے) آپ سے جب جبرئیل علیہ السلام ملتے،تو آپ کی سخاوت اتنی زیادہ اور اس طرح عام ہوتی جیسے تیز ہوا ہوتی ہے ،بلکہ اس سے بھی زیادہ”
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رمضان المبارک میں عام دنوں کے مقابلے میں صدقہ وخیرات کا زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔
صدقہ و خیرات کا مطلب ہے ،اللہ کی رضا جوئی کے لیے فقراء مساکین ،یتامی وبیوگان اور معاشرے کے معذور اور بے سہارا افراد کی ضروریات پر خرچ کرنا اور ان کی خبر گیری کرنا۔بے لباسوں کو لباس پہنانا، بھوکوں کو غلہ فراہم کرنا،بیماروں کا علاج معالجہ کرنا،یتیموں اور بیواؤں کی سر پرستی کرنا،معذوروں کاسہارا بننا،مقروضوں کو قرض کے بوجھ سے نجات دلا دینا اور اس طرح کےدیگر افراد کے ساتھ تعاون وہمدردی کرنا۔
سلف صالحین میں کھانا کھلانے کا ذوق وجذبہ بڑاعام تھا،اور یہ سلسلہ بھوکوں اور تنگ دستوں کو ہی کھلانے تک محدود نہ تھا ،بلکہ دوست احباب اور نیک لوگوں کی دعوت کرنا کا بھی شوق فراواں تھا،اس لیے کہ اس سے آ پس میں پیارومحبت میں اضافہ ہوتاہے اور نیک لوگوں کی دعائیں حاصل ہوتی ہیں جن سےگھروں میں خیر وبرکت کا نزول ہوتا ہے۔ (8) روزہ افطار کروانا
رمضان المبارک میں انفاق کی خاص ترغیب دی گئی بے خاص طور روزہ دار کو افطار کرانے کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فضیلت بیان فرمائی :
"مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ غَيْرَ أَنَّهُ لا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا” (ترمذی , رقم 807)
"جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا،تو اس کو بھی روزے دار کی مثل اجر ملے گا،بغیر اس کے کہ اللہ روزے دار کے اجر میں کوئی کمی کرے”
ایک دوسری حدیث میں فرمایا:
مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا أَوْ جَهَّزَ غَازِيًا فَلَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ (صحیح الترغیب, 2901)
"جس نے کسی روزے دار کا روزہ کھلوایا یا کسی مجاہد کوتیار کیا(سامان حرب دے کر) تو اس کے لیے بھی اس کی مثل اجر ہے”. (9) اعتکاف رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی ایک اہم خصوصیت اعتکاف ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک معمول تھا کہ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے تھے۔ حضرت ابن عمررضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان شریف کے آخری دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے۔ (بخاری، حدیث: 1885 ) صحیح بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف کرتے رہے حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا، پھر ان کے بعد ان کی ازواج مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ۔ (بخاری، حدیث : 1886)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سال رمضان شریف میں دس دنوں کا اعتکاف فرماتے تھے، اور جس سال آپ کا انتقال ہوا اس سال آپ نے بیس دنوں کا اعتکاف فرمایا۔ (بخاری، حدیث: 1903 ). آخری عشرہ کا اعتکاف (یعنی مسجد میں عبادت کی نیت سے قیام)سنت موکدہ علی الکفایہ ہے۔ اعتکاف مسجد کا حق ہے اور پورے محلہ والوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ان کا کوئی فرد مسجد میں ان دنوں اعتکاف کرے۔اگر محلہ کی مسجد میں کوئی بھی شخص اعتکاف نہ کرے توسارے محلہ والے گناہ گار ہوں گے. اعتکاف در اصل انسان کی اپنی عاجزی کا اظہار اور اللہ کی کبریائی اور اس کے سامنے خود سپردگی کا اعلان ہے۔
احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ کا اعتکاف خاص طور پر لیلة القدر کی تلاش اور اس کی برکات پانے کے لیے فرماتے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری عشرہ میں اعتکاف کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رمضان کے آخری دس دنوں میں لیلة القدر کو تلاش کرو۔(صحیح بخاری ،حدیث نمبر : 1880 ). رمضان المبارک کے فضائل، برکات، فوائد اورمنافع کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس ماہ کے لیے بالکل فارغ کرلیں، صرف اور صرف عبادت میں زیادہ سے زیادہ وقت خرچ کریں، ایک ایک گھڑی کا حساب لگائیں، کوئی ساعت ضائع ہوجائے تو اس پر ندامت ہو اور اس کی بھر پور تلافی کی کوشش کریں . رمضان المبارک کی قیمتی ساعتوں پر قابو پانے کی ایک آسان اور مجرب صورت یہ ہے کہ ہر ہر گھنٹہ کا نظام الاوقات بنالیں کہ کس وقت میں ہمیں کیا کرنا ہے.
رمضان کے حوالہ سے خود احتسابی کا اہم پیمانہ
یہ ایک اہم سوال ہے کہ رمضان کا مہینہ گزرنے کے بعد ہمیں کیسے معلوم ہوگا کہ ہم نے رمضان کی قدر کی یا نہیں؟ اس کے فوائد اور برکات ہمیں حاصل ہوئے یانہیں، اس اہم سوال کے جواب کا اہم پیمانہ خود اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: ”لعلکم تتقون“ (سورة بقرة:183 ) یعنی رمضان اور روزہ کا مقصد ہے کا حصول، تو ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ رمضان کے بعد ہماری زندگی میں تقویٰ آیا یا نہیں؟
اس کو آسان الفاظ میں اس طرح بھی سمجھ سکتے ہیں کہ رمضان گزرنے کے بعد بھی اگر ہماری زندگی پہلے کی طرح ہی گناہوں میں رہی، کوئی تبدیلی نہیں آئی تواس کا مطلب ہے کہ ہم نے رمضان کی کما حقہ قدر نہیں کی، اس کے مکمل فوائد ہمیں حاصل نہ ہوسکے۔
اوراگر رمضان کے بعد ہماری زندگی کا ورق پلٹ گیا، ہم عبادتوں کا اہتمام کرنے لگے، گناہوں سے بچنے لگے، حقوق ادا کرنے لگے، نبی کی سنت کی پیروی کرنے لگے، ہماری روز مرہ کی زندگی میں ایک اچھی و خوشگوار تبدیلی آگئی، تو یہ بالکل کھلی اور واضح علامت ہے کہ ہمارا رمضان قبول ہوا، ہم نے اس کی قدر کی اور اس کے فوائد، ثمرات اور برکات سے بہرہ ورہوگئے۔
اللہ جل شانہ ہم سب کو رمضان کی کما حقہ قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس کے انوار اور برکات سے مستفید فرمائے.
ماشاءاللہ تحریر بہت بہترین تحریر میں اگر محترمہ کا فوٹو نہ دیا جاتا تو شاید بہتر ہوتا یہ ہوتا کہ اگر اس