✍: سمیع اللّٰہ خان
بات تب کی ہے جب راقم سطور اپنی عمر کے گیارہویں پڑاﺅ میں داخل ہوا تھا، ایک دن مقامی لائبریری میں کسی کام سے جانا ہوا، واپسی میں بائیں جانب کی آخری الماری پر نظر ٹھہر گئی جس کے گردوغبار سے لفظ ” بھوت ” گویا مجھے ڈرانے کی کوشش کررہاتھا، میں نے الماری پر اٹی دھول سے بےپروا ہوکر کتاب باہر نکالی اور تب کتاب کا پورا نام سامنے آیا جو کچھ یوں تھا ” برف کے بھوت ” مجھے عجیب لگا کہ بھلا برف کے بھوت کیسے ہوتے ہونگے؟ اسی وقت کتاب کو پڑھنا شروع کردیا، اور پھر کیا تھا؟ عشق اس منزل پر پہنچ گیاکہ ساتویں جماعت میں پہنچتے پہنچتے گھر میں چھوٹے اور بڑے بھائی کو سحرانگیز ادب کے حلقہٴ ارادت میں شامل کروالیا، لائبریرین سے نظریں بچا کر ابنِ صفی کی کتابوں کو پار کر لانے (پڑھ کر پھر پہنچا بھی دیتے تھے) کا ایک سلسلہ شروع ہوا، شب و روز اسی میں گزرنے لگے، اور پھر ایک دن لائبریری کا اسٹاک ختم ہوگیا، اب عجیب صورتحال ہوگئی تھی، چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے، ہر جگہ کبھی عمران اور جولیا کے درمیان صلح کی پلاننگ چلتی رہتی تو کبھی تھریسیا کو راہ راست پر لانے کی فکر دامن گیر ہوتی، کبھی فریدی کی عظمت و استقامت اور چوطرفہ پختگی پر خیالی گھوڑوں میں مقابلہ جاری رہتا تو کبھی حمید کی مستقل مزاج کھلنڈرے پن پر انگشت بدنداں رہتا، غرض ہر کردار سیٹ ہوچکا تھا، دانش منزل، رانا پیلس، ایکس ٹو، سے لیکر رام گڑھ، سردار گڑھ، بلیک فورس، اور فریدی کی کوٹھی متعین ہوچکی تھی، لیکن اُف رے قیامت کہ اٹھتے اٹھتے نقاب، حجاب ہوگیا، قصہ مختصر یہ کہ، بعدازاں کافی جتن اور چوطرفہ ” فلسفیانہ ” مخالفتوں کے باوجود ہم نے ابن صفی کو پیسے جوڑ جوڑ کر حاصل کیا اور اپنی عالمیت کے آخری سال تک دَور مکمل کرلیا_
ابنِ صفی کی کتابوں میں تجسس، منظر کشی، تفکیر اور مکالمہ نگاری کے شاندار اسلوب کا ایسا ٹھہراﺅ ہوتا ہے کہ قاری کو مقناطیسی انداز میں سطروں سے مربوط رکھتا ہے_
ابنِ صفی کا قلم جہاں جادوئی تاثیر رکھتا ہے وہیں ہر مزاحیہ اور قہقہہ بار عبارت کے بعد ان کے علمی، فکری اور معلوماتی جاہ و جلال کا مقدمہ بھی قائم کرتاہے، لیکن ہر آنے والی کہانی ان کے انسانی مزاج اور خاکسارانہ طبیعت سے مہکتی رہتی ہے_
ابنِ صفی دراصل دنیائے ادب کے مطلق بادشاہوں میں سے تھے، ایک ایسے دور میں جبکہ اردو ادب، افسانہ اور ناول نگاری فحش مِرچوں کے بغیر کامیاب تجارت نہیں دیتی تھی، ایسےمیں اسرار احمد ابن صفی نے جاسوسی ادب کے ذریعے جن ہزاروں انمٹ صفحات کو وجود بخشا ہے وہ اردو ادب پر عہد ساز احسان ہے، ان کے تمام کردار جن کو بالادستی اور فتح حاصل ہوتی تھی انہیں بھی ہمیشہ کردار کی پختگی اور بلندی کے ساتھ پيش کرکے یہ پیغام دیا کہ ” کامیاب ہیرو ” وہی ہے جس کے نہ صرف یہ کہ اعصاب و قوٰی طاقتور ہوں بلکہ وہ شفاف کردار کا بھی مالک ہو_
ابنِ صفی کا لٹریچر بیشمار پی ایچ ڈی ریسرچ کا مستحق ہے، ان کے پیغام میں دل چھوتی تاثیر اور ایسی عمومیت ہوتی ہے کہ قاری کو جھنجھوڑ دیتی ہے
ابنِ صفی نے اپنے پورے لٹریچر میں جابجا مشرقي تہذیب سے نہ صرف یہ کہ والہانہ وابستگی کا اظہار کیا ہے بلکہ مادیت زدہ مغرب پر ہر جگہ مشرق کی بالادستی کو ثابت بھی کیا ہے_
ابنِ صفی کے لٹریچر ان مغرب زدہ اذہان کے لیے فکرانگیز ہوجاتے ہيں جو محض اسباب اور آلات کی فراہمی کو دنیا کی کامیابی تصور کرتے ہیں_
ابنِ صفی نے اپنے لٹریچر کے ذریعے مادّہ پرست مغربیوں کی اخلاقی اور سماجی برائیوں پر جس طرح کلام کیا ہے اس نے ان کی علمِ نفسیات اور تاریخ اقوام پر گرفت کو بھی واضح کیا یے_
ابن صفی نے ایسے عہد میں جبکہ دنیا اپنی تشکیل نو کے درمیانی مراحل سے گزررہی تھی، جب غیر فطری فلسفوں اور ٹکنالوجی کی باڑھ آئی ہوئی تھی، تب عہد رفتہ کی عظمت اور فطرت کی بالادستی کو ثابت کرنے کی کوششیں کی تھیں_
ابنِ صفی نے غریبوں اور مزدوروں سمیت دنیا بھر کے عام انسانوں کی ترجمانی کی تھی اور یہ ثابت کیا تھا کہ موجودہ اور متوقع دنیا میں انسانی دنیا کے اصل دشمن حکمران، ترقی پسند سائنسی تجار اور سرمایہ دار طبقے کے انسان نما بھیڑیے ہوں گے_
ابن صفی نے دنیا کو بتلایا کہ انیسویں اور بیسویں صدی میں رصد گاہوں، سائنس لیبارٹریوں، طبی سینٹروں اور حقوق انسانی کے ناموں پر عام انسانوں کی زندگیوں کا سودا ہورہا ہے اور آگے چلکر نیو ورلڈ آرڈر کا یہ سامراج عام دنیا کو ان لالچی اور خواہش پرستوں کے چنگل میں سسکتا چھوڑ دےگا_
ابن صفی نے حکومتی سسٹم اور اس کے خبررساں ذرائع کے لیے جس طرح کی شاہراہوں کی نشاندہی کی ہے وہ ان کے تخلیقی اور تنظیمی دماغ کا ہی شاہکار ہے_
ابنِ صفی نے اپنے پورے لٹریچر میں اپنی نظریاتی بالادستی کو ثابت کرنے کے لیے جس طرح شرافت، ظرافت اور انسانی روایات کا پاس و لحاظ رکھا ہے وہ بین المذاہب ” آداب اختلاف ” کا شاندار نمونہ ہے_
خاص بات یہ ہیکہ اتنا سب کچھ ان کی کتابوں میں اسقدر مکالماتی اور دلچسپ پیرائے میں ہےکہ قاری کو دوران مطالعہ اکتاہٹ یا خشکی کا دور دور تک احساس ہی نہیں ہوتا_
ابنٍ صفی کی برسی ہر برسی کی طرح آج بھي ہے، آنے والے سالوں میں بھی یہ دن گزرتا رہےگا لیکن وہ ہمیشہ ہمیش کے لیے اپنے لٹریچر سمیت زندہ ہیں اور زندہ رہیں گے، بلکہ سچائی تو یہ ہیکہ ابنِ صفی کے قارئین کے لیے ہر دن یومِ صفی سے کم نہیں، اور ان کی یہ زندہ و جاوداں عظمت اس دور کے کاسہ لیس اہلِ زبان اور زر پرست اہلِ ادب کے لیے طمانچہ ہے کیوں کہ زبان دانوں اور پیشہ ور ادیبوں نے ابنِ صفی کو کبھی ان کا حق نہیں دیا، لیکن ابنِ صفی کی عظمت و جلالت پر کوئی فرق نہیں پڑا، میں دلچسپی ہونے کےباوجود ادب و ادبیات پر اسی لیے قلم نہیں اٹھاتا کہ آج کا ادبی خیمہ تقریباﹰ بناوٹی ہے، ابنِ صفی جیسوں کی بےتاج بادشاہت ہم جیسے تشنگانِ ادب کی سیرابی اور سکون کے لیے کافی ہے_
الله کی رحمت ہو ابن صفی پر، اور ان کی آل و اولاد پر، اور برصغیر کے مسلمانوں کو اس عظیم دماغ کی قدردانی کی توفیق مرحمت فرمائے کہ ادب و دانش کی خونِ صد ہزار انجم میں وہ تن تنہا نویدِ سحر بنے_
samiullahkhanofficial97@gmail.com