ڈاکٹر علیم خان فلکی
صدر،سوشیو ریفارمس سوسائٹی، حیدر آباد
9642571721
خطبہ حجۃ الوداع کا چوتھا اہم نکتہ: جاہلیت کے دور کے تمام رسم و رواج ناجائز
الا کل شئی من امر جاہلیۃ تحت قدمی موضوع۔
خبردار! جاہلیت کے تمام دستور میرے دونوں پاؤں کے نیچے ہیں۔ (مسلم ۷۳۲۱)
قرآن کی رو سے جتنی قومیں ہلاک ہوئیں ان کے جرائم میں سے ایک جرم یہ بھی تھا کہ جب ان سے کہا جاتا کہ نبی کی اتباع کرو تو وہ کہتے: "ہم تو اسی کی اتباع کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے "۔ آج مسلمانوں میں بھی بے شمار ایسے مذہبی، تہذیبی اور کاروباری طریقے مروج ہیں جن کی شریعت میں کوئی بنیاد نہیں لیکن وہ ان پر اس لیے جمے ہوئے ہوتے ہیں کہ "یہ ان کے آباء و اجداد سے چلا آ رہا ہے۔”
خطبہ حجۃ الوداع میں آپ ﷺ نے واضح طور سے فرما دیا کہ آج تک باپ دادا کے جاہلانہ رسوم و رواج یا نظریات کیلئے مروتاً جو بھی چھوٹ تھی، آج کے بعد "الیوم اکملت لکم دینکم۔۔۔” کی بنیاد پر صرف اور صرف وہی چیز روا ہوگی جو قرآن اور سنت میں ہوگی ورنہ وہ پاؤں کے نیچے یعنی دفن کر دی جائے گی۔
زمانہ جاہلیت کے مزید نجانے کتنی رسومات ہیں جنہیں ہم آج بھی عزیز رکھتے ہیں۔ بہنوں کو جہیز دے کر وراثت سے محروم رکھنا تو عام بات ہے جس پر آگے گفتگو ہوگی۔ ویسے بھی جہیز خود زمانہ جاہلیت کی ایک ایسی رسم ہے جو ہندوستان کے مشرک سماج میں رائج تھی۔ پھر عورت کو وراثت سے محروم رکھنا بھی ہندو اور عرب سوسائیٹی میں عام تھا۔ آج حجۃ الوداع کا خطبہ ہر مسلمان سے متقاضی ہے کہ زمانہ جہالت کی اس رسمِ جہیز اور عورت کو وراثت سے بے دخل کرنے کی مشرکانہ روایت کو ختم کر دیا جائے۔
لوگ ایک طرف تو لاکھوں کا جہیز ڈٹ کر وصول کرتے ہیں لیکن مہر کے بارے میں اڑ جاتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد نے کبھی زیادہ مہر نہیں باندھا اور نہ کبھی نقد ادا کیا۔ جبکہ مہر کے معاملے میں سخت احکام یہ ہیں کہ عورت کا مہر خوشدلی کے ساتھ دو اور نقد ادائیگی کرو (سورہ النساء)۔مشرکین شادی کی رسموں کو ایک ایک ہفتہ مناتے تھے۔ آپ ﷺ نے نکاح کئے اور ”النکاح من سنتی“ کہہ کر یہ بتادیا کہ اب آپﷺ کو ماننے والے ہر شخص پر یہ واجب ہیکہ جس طریقے پر آپ ﷺ نے نکاح کیا وہی نکاح سنت ہے۔ اسطرح بارات، منگنی، سانچق، جہیز، تلک، جمعگی، پاوں میس، دلہن کی وداعی کے دن لڑکی کے والدین کے خرچے پر کھانے کی دعوتیں وغیرہ وغیرہ یہ دورِ جاہلیت کی وہ رسمیں ہیں۔ جنہیں بدقسمتی سے کئی لوگ نہ صرف جائز کرتے ہیں بلکہ ان کو ایسے مولوی بھی مل جاتے ہیں جو ان کو جائز کا فتوٰی بھی دے دیتے ہیں۔
شہروں سے باہر نکل کر دیکھیے تو اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں میں جاہلیت کی کیسی کیسی رسمیں موجود ہیں جاکر یقین نہیں آتا کہ ہم مسلمانوں کی کسی بستی میں داخل ہو گئے ہیں۔ جیسے بچے کی پیدائش پر زنخوں سے دعا کروانا، ہر نئے کام کے لیے فال نکلوانا، نئی دلہنوں کا اولادِ نیک کے لیے ڈبکی لگانا، چاند گرہن یا سورج گرہن کے موقع پر نمازوں کے بجائے آسن لگوانا، ہندوؤں کی طرح گلے یا ہاتھوں میں رنگین ڈوریاں یا تعویذ باندھنا، بیوہ کی شادی کو عیب سمجھنا، تقریبات میں کسی بیوہ یا یتیم لڑکیوں کا دلہن کے قریب آنے کو بدشگونی سمجھنا، شگون نکلوانا وغیرہ۔ اس قسم کی ایسی بے شمار رسمیں ہیں جو قدیم ہندوؤں کے ذریعے چلی آ رہی ہیں اور مسلمان معاشرے میں بھی رچ بس گئی ہیں۔ اسی وجہ سے سفلی عمل اور چمتکار دکھانے والے باباؤں کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔مختصر یہ کہ ہر شخص اپنے گھر میں جاہلانہ دور کی کسی نہ کسی رسم کو باقی رکھے ہوئے ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ ہم اپنے گھر کی پہلے خبر لیں پھر زمانے پر تنقید کریں۔
ماتم،عَلَم، نوحے، مرثیے وغیرہ بھی دورِ جاہلیت کے وہ اوامر ہیں جن سے رسول اللہﷺ نے سختی سے منع فرمایاتھا۔
شہادتِ حسین ؓ سے قبل شہادتِ حمزہؓ ہوچکی ہے جس کا رسول اللہ ﷺ نے کسطرح سوگ یا ماتم منایا یہ بھی تذکرہ سیرت میں موجود ہے۔ جس دردناک طریقے سے حضرت حمزہؓ کو شہید کیاگیا اور آپﷺ کو اُن سے جس قدر محبت تھی یہ بھی ہمیں معلوم ہے۔ اب امام حسینؓ کا غم منانے والے خود ہی سوچ لیں کہ وہ کسی کی شہادت کا سوگ منانے کا طریقہ رسول اللہﷺ کے طریقے پر پر ہے یا دورِ جاہلیت کے طریقے پر۔ اس کربلا کے واقعے کے ذریعے صدیوں سے شیعہ حضرات اور سنت الجماعت بالخصوص بریلوی حضرات نئی نسلوں میں مسلمانوں میں آپس میں محبت کا جذبہ پیدا کرنے کے شیعہ اور سنّی میں نفرت، عصبیت اور اصل دین سے مکمل گمراہی پیدا کررہے ہیں۔ دین کے اصل پیغام کے بجائے من گھڑت حدیثیں، قصے اور داستانیں سناکر ہر ہر مسلمان کو ایک دوسرے کیلئے مشتبہ بنادیا گیا۔
خطبہ حجۃ الوداع کا پانچواں اہم نکتہ: کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فضیلت ہے نہ فوقیت
الا لا فضل لعربی علی عجمی ولا العجمی علی العربی، ولا لا احمرعلی اسود ولا اسود علی احمر اِالّا بالتقوی ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم۔ (بیہقی، شعب الایمان ۷۳۱۵، عسقلانی، فتح الباری، مسند احمد ۱۹۳۲۲)
سن لو: کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، اور سن لو کسی گورے کو کسی کالے پر یا کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت نہیں، سوائے تقوی کے۔ اللہ کے نزدیک تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔
ہر ملک کا قانون اگرچہ یہی کہتا ہے لیکن ہر جگہ کہیں نہ کہیں تحفظات ]reservations[ ہیں۔ آپ ﷺ کا یہ حکم محض مسجد یا امامت کے لیے یا روزِ قیامت کے لیے مخصوص نہیں بلکہ آپ (ﷺ) نے اسے ملکی سیاست میں بھی برت کر دکھا دیا۔ غلام کے بیٹے کو کہیں سپہ سالاری عطا کر دی تو کہیں سیاہ حبشی بلال (رضی اللہ عنہ) کو موذن بنا دیا۔ اسامہ بن زید (رضی اللہ عنہ) کے نکاح میں اپنی چچا زاد بہن دے دی تو ایک مرتبہ یہ بھی فرما دیا کہ "اگر بیٹی فاطمہ (رضی اللہ عنہا) پر بھی چوری کا الزام ثابت ہو تو ان کے بھی ہاتھ کاٹے جائیں گے "۔
حیرت ہوتی ہے کہ پاکستانیاں بنگالیوں پر، مہاجر پنجابیوں پر، حیدرآبادی ملیالیوں پر، یوپی والے بہاریوں پر، سعودی تمام غیر سعودیوں پر، عربی عجمیوں پر، الغرض ہر شخص لسانی، علاقائی اور قومی یاتہذیبی بنیادوں پر ایک دوسرے پر فوقیت اور اکڑ دکھاتا ہے۔ علامہ اقبال نے اسی عصبیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ”ان تازہ خدوں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا وہ مذہب کا کفن ہے“
سعودی عرب میں آج بھی ایسے بے شمار علاقے ہیں جہاں اگر کوئی غیر سعودی شخص امامت کیلئے آگے بڑھ جائے تو سعودی اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے۔ امیر عرب ممالک کا قانون ہیکہ ان کا مرد شہری کسی بھی دوسرے ملک کی عورت سے نکاح، مسیار یا متعہ کرسکتا ہے لیکن عورت کسی دوسرے ملک کے شہری سے نہ شادی کرسکتی ہے نہ بچے پیدا کرسکتی ہے۔ اگر کسی نے یہ غلطی کی تو اس عورت کو شہریت اور وراثت دونوں سے خارج کردیاجاتاہے۔ اس کے مقابلے میں اہلِ مغرب کے ہاں حجۃ الوداع کے اس خطبہ کا یہ اصول ناٖفذ ہیکہ وہ کسی کالے گورے کا فرق نہیں دیکھتے اور ہر شخص کو پورے پورے انسانی حقوق دیتے ہیں۔ امیر عرب ممالک جہاں اس خطبہ کا ایک ایک نکتہ بنیادی قانوں کی حیثیت میں ہونا چاہئے تھا بدقسمتی سے وہاں اسلام خود ایک بغیر اقامے کے غیر قانونی بنگلہ دیشی کی طرح رہتاہے۔ اسطرح آج جن مسلمانوں کو عرب و عجم، کالے گورے کے ہر فرق کو مٹانے کے منصب پر قائم کیاگیا تھا وہی آج انسانی حقوق کی پامالی میں سب سے آگے ہیں۔
خطبہ حجۃ الوداع کا چھٹا اہم نکتہ: آج کے بعد سود جائز نہیں۔
الا و ان کل ربا کان فی الجاہلیۃ موضوع لکم رؤس اموالکم:
جاہلیت کے تمام سود بھی باطل کر دئے گئے ہیں تم صرف اپنے اصلی مال کے حقدار ہو۔ (ترمذی ۶۱۴۱، مسلم ۷۳۱۲)
عہدِ حاضر کو عہدِ اقتصادیات Era of Economics & Commerce کہا جا سکتا ہے۔ بنکوں کے نظام کے بغیر آج زندگی کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جو لوگ بنک سے اجتناب کر کے یا بنک کی سودی رقم کو انفاق کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ سودی نظام سے محفوظ ہیں وہ گویا احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ایک طرف سودی کاروبار کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے جنگ کرنے والوں کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور یہاں تک تنبیہ ہے کہ سود کھانا ماں سے زنا کرنے کے برابر ہے تو دوسری طرف سودی نظام پوری دنیا پر اس قدر غلبہ پا چکا ہے کہ گویا خون بن کر ہر جسم میں دوڑ رہا ہے۔ہم کو یہاں اپنی شکست تسلیم کرنا چاہیے کہ ہم دنیا کو بے شمار مذہبی، فقہی، روحانی، صوفیانہ اور جہاد و قتال کے نظریات تو ضرور دے سکے لیکن صحیح نظامِ معیشت نہ دے سکے۔ مدرسے نے جب علم کی دینی اور دنیاوی خانوں میں تقسیم کی، اس وقت ان تمام مضامین کو خارج از مدرسہ کر دیا جو آج انسانی تہذیب و بقا کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں جیسے سائینس، ریاضی، نفسیات، ادب، فلکیات وغیرہ۔ انہی میں اکنامکس اور کامرس بھی شامل ہیں۔ پھر 1857ء کے جہاد نے بھی وہ اثرات ڈالے جو اس وقت تو فائدہ مند تھے لیکن اس کے بعد سے آج تک ہم کو نقصانات پہنچ رہے ہیں۔ اس وقت انگریزوں کے مکمل بائیکاٹ کی مہم نے قوم میں جوشِ آزادی کے ساتھ ساتھ دلیری، شجاعت اور خود اعتمادی تو زبردست پیدا کر دی لیکن انگریزوں کے بائیکاٹ کی جو اسٹریٹیجی اُس وقت اپنائی گئی تھی جو کہ بہترین حکمتِ عملی تھی بدقسمتی سے ہم نے وقت کے گزرجانے کے باوجود اسکو آج تک اٹھائے رکھا۔ اس روش نے بہت نقصان پہنچایا۔ انگریزوں نے بنکنگ، انشورنس، انگریزی تعلیم، تعلیمِ نسواں، فیملی پلاننگ وغیرہ متعارف کروائے اور ہمارے علماء نے ان تمام چیزوں کو حرام قرار دینے پر پوری طاقت صرف کر دی۔اُس وقت عوام کے ذہنوں کو انگریز کے خلاف تیار کرنا تھا۔ موسم سازگار تھا، زمین زرخیز تھی لہذا عوام کے ذہنوں میں یہ بات آسانی سے بیٹھ گئی۔ انگریز چلا گیا لیکن وہ باتیں آج تک ذہنوں میں بیٹھی ہوئی ہیں۔ چونکہ ہمارے مدرسے میں نہ اکنامکس کا مضمون ہے، نہ کامرس کا، نہ بنکنگ کا اور نہ عالمی اقتصادیات کا۔ اس لیے آج کے مسائل کا استخراج بھی عموماً انہی مسائل سے کیا جاتا ہے جن کو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ نے بارہ سو سال پہلے قلمبند کیے تھے یا پھر فتاویٰ عالمگیری یا فتاویٰ شامی وغیرہ جن کو تین چار سو سال گزر چکے ہیں۔ ان مسائل کے استخراج کی بنیاد بھی وہی ہے کہ چاول کے بدلے سیب اور کھجور کے بدلے گیہوں کی تجارت و لین دین کس حد تک جائز ہے اور کس حد تک جائز نہیں؟ اس لیے احمد بن عبدالعزیز بن باز سابق مفتی اعظم سعودی عرب نے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں ایک جسارت آمیز حقیقت بیان کی کہ "اسلامی معاشیات کے مضمون پر امت مسلمہ نے آج تک کاپی پیسٹ کے علاوہ کچھ نہیں کیا۔” ورنہ آج کے بنکاری نظام پر تنقیدیں کرنے والے بہت پہلے دنیا کو ایک متبادل نظام دے چکے ہوتے۔ سوال یہ نہیں ہے کہ موجودہ معاشی نظام سود سے کتنا آلودہ ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ اسے باطل قرار دینے والوں نے دنیا کو متبادل نظام کیا دیا ہے۔
متبادل نظام تو شاید اس وقت دیا جا سکتا جب عصر حاضر میں اسلام کو قائم کرنے والے مضامین بھی مدرسے کے نصاب میں شامل ہوتے۔ اسلامی نظامِ معیشت کے قیام کا اگرچہ ایران، پاکستان اور سعودی عرب نے دعویٰ تو کیا ہے لیکن اس کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ہم اسی نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ وہ کسی شہر کا دو چار سو افراد کے زر تعاون سے قائم ہونے والا بلاسودی بیت المال ہو کہ سرکاری سطح پر قائم ہونے والا کوئی سعودی یا ایرانی بنک۔ ہر جگہ نظام وہی ہے صرف نام اسلامی ہے۔ سود کا عنصر ناگزیر ہے۔ مصلحتاً کہیں اسے سروس چارج کہا جاتا ہے، کہیں کمیشن ]commission[، کہیں سبسکرپشن فیس تو کہیں کنٹری بیوشن ]contribution[۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ: سود کی آیات عہد نبوت کے آخری دور میں نازل ہوئیں، اس سے پہلے کہ رسول اللہ ﷺ ان کی تشریح کرتے آپ کا انتقال ہو چکا تھا۔
ایسا ہرگز نہیں کہ امت میں باصلاحیت اذہان کی کمی ہے۔ لیکن ایسے لوگ جو بنکوں اور انشورنس کا متبادل نظام دے سکتے ہیں ان کو اس کے قریب آتے ہی "بنک حرام، انشورنس حرام، اللہ سے جنگ، ماں سے زنا” وغیرہ وغیرہ کی وارننگ سے ایسا ڈرا دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو کوئی دوسری لائن اختیار کر لیتے ہیں یا پھر ایک کنفیوزڈ ذہن لے کر بنکوں کے نظام میں ہی کام کرتے ہیں اور اسے مضبوط کرتے ہیں۔ (اس موضوع پر تفصیلی گفتگو سوشیو ریفارمز سوسائیٹی کی ویب سائیٹ لائف انشورنس اینڈ مسلمس پر ملاحظہ فرمائیں۔)
ایک اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں جہیز اور گھر کی دیگر ضروریات کے لیے سود پر خریدنا عام ہوتا جا رہا ہے جو کہ "شدید ضرورت” کی تعریف میں داخل نہیں۔ سود کے اس کاروبار کو تقویت پہنچانے میں مسلمان بھی آگے آگے ہیں بالخصوص جہیز اور شادی کے اسراف وغیرہ کے لیے۔ ہماری سماجی اور دعوتی تحریکوں کو ایک علیحدہ ایجنڈا بنا کر سود کے اس لین دین کے خلاف عوامی بیداری پیدا کرنا چاہیے۔
خطبہ حجۃ الوداع کا ساتواں اہم نکتہ: عورتوں کے حقوق صحیح ادا کرو
فاتقواللہ فی انساء کم فانکم اخذتموھن بامان اللہ۔
پس عورتوں کے معاملے میں خدا سے ڈرو کیونکہ تم نے انہیں اللہ کی ایک امانت کے طور پر حاصل کیا ہے۔(مسلم ۷۳۱۲، مسند احمد ۴۷۷۹۱)
رسول اللہ ﷺ نے نہ صرف حجۃ الوداع کے موقع پر بلکہ اپنی آخری وصیت میں بھی عورتوں کے حقوق ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔گوگل سرچ پر مختلف ملکوں میں عورت کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں، گھریلو تشدد، عصمت ریزی و قتل کی اگر شماریات دیکھی جائے تو پتا چلے گا کہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کا اوسط 34 فیصد ہے۔ یعنی ہر تیسری عورت کے ساتھ ظلم و ستم کا سلسلہ چل رہا ہے۔ گھر کے باہر انتہائی بااخلاق نظر آنے والے مرد گھر کے اندرکتنے جاہل ہوتے ہیں اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل ہے۔ بیوی کی تنخواہ یا ترکے پر قبضہ کرنے والوں کی شرح 60 فیصد ہے۔ 27 فیصد لوگ بیوی کے جہیز اور اس کی کمائی پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔ عورت اگر علیحدگی چاہے تو انتقاماً اسے لٹکا کر رکھنے والے مردوں کی تعداد 84لاکھوں میں ہے۔ جبکہ جہیز ہراسانی کیس میں مرد کو ملوث کر کے عدالتی مقدمات میں اسے پھنسانے والی عورتوں کی تعداد 62 فیصد ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی اہم ترین سنتوں میں سے ایک سنت کونسلنگ کی بھی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا: کیا میں تمہیں ایک ایسی بات نہ بتاؤں جو درجے میں نماز روزہ زکوٰۃ حج اور کئی نیکیوں سے افضل ہے؟ صحابہ نے عرض کیا: ضرور بتائیے یا رسول اللہ (ﷺ)!” تب آپ ﷺ نے فرمایا: "لوگوں کے درمیان اختلافات کو دور کرنا، اس سے دین مونڈھ جاتا ہے۔” (ابو داوٗد، ابن حبان)۔ لیکن اس سنت کو مکمل نظرانداز کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے دوسری قوموں کی طرح مسلم معاشرے میں عورت کی حیثیت مذہبی، علمی اور سماجی طور پر مکمل حاشیائی ہے۔اسلام نے عورت کو آزادی دی، مرد کے برابر حقوق عطا کیے۔ اگر ہم عورت کے حقوق کو صحیح طور پر ادا کریں تو ویمنس رائیٹس چارٹر کی دنیا کو شاید ضرورت نہ پڑے۔(مزید تفصیلات راقم الحروف کی تصانیف ”جہیز۔ حقوقِ انسانی اور حقوقِ نسواں کی ایک کھلی خلاف ورزی“ اور ”مسلم سوسائٹی میں عورت کی حاشیائی حیثیت“پڑھی جاسکتی ہیں)
خطبہ حجۃ الوداع کا آٹھواں اہم نکتہ: اگر قرآن کو پڑہتے رہوگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔
”و قدترکت فیکم مالن تضلوا بعدہ اعتصم بہ کتاب اللہ۔
میں تم میں ایک چیز چھوڑ جاتا ہوں، اگر تم نے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا تو گمراہ نہ ہوں گے۔ وہ چیز ہے کتاب اللہ۔ (مسلم ۷۳۱۲، عبداللہ بن عمر مسند روایانی ۶۱۴۱)
یہ بات ہر شخص کی زبان پر ہے اور ہر خطیب، واعظ اور مقرر کا تکیہ کلام ہے کہ "اگر ہم قرآن کو مضبوطی سے تھام لیں گے تو کبھی گمراہ نہ ہوں گے "۔ پھر کیا وجہ ہے کہ سب کا قرآن ایک ہے اور سبھی یہی پڑھتے ہیں، پھر بھی چاروں طرف اتنی بے دینی، بے حسی اور اختلافات کیوں ہیں؟ اس کی نفسیاتی وجوہات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن یہ سوچے بغیر پڑھتے ہیں کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟ قرآن میں تاریخ، فلسفہ، سائینس، اخلاقیات، معاشیات وغیرہ کے بے شمار موضوعات ہیں۔ قرآن ایک ایسا مینول ]Manual[ ہے جو ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔ جس طرح ایک طالب علم اپنے نصاب کی تمام موٹی موٹی کتابوں کو شروع سے آخر تک پڑھتا نہیں بیٹھتا بلکہ انہی صفحات پر محنت کرتا ہے جو امتحان میں پوچھے جائیں گے۔۔۔ اسی طرز پر قرآن پڑھنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو قرآن میں وہ چیز تو تلاش نہیں کرتے جو ان پر واجب العمل ہے بلکہ وہ چیزیں پڑھتے ہیں جو ان کے علم میں خوب اضافہ کرتی ہیں۔ بحث، تقریر، درس و تدریس میں مدد کرتی ہیں۔ شخصیت کو نمایاں کرنے اور رعب دار گفتگو کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ یا پھر ان کے عقیدے کے بزرگوں نے جن سورتوں کے فضائل بتا دیے کہ فلاں سورت پڑھنے سے نوکری لگ جاتی ہے اور فلاں سورت کی تلاوت سے اولاد نرینہ پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اس لیے بھی قرآن کثرت سے پڑھتے ہیں کہ مرحوم ابا جان اور امی جان کی بخشش ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے والدین کی مغفرت فرمائے کہ اولاد کے قرآن پڑھنے سے مرحوم والدین کو بے شک اس کا اجر پہنچتا ہے، لیکن یہ بہرحال ایک علیحدہ موضوع ہے۔ گمراہیوں سے بچنے کے لیے قرآن کو پڑھنے کا جہاں تک تعلق ہے تو سب سے پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ ہم قرآن سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ قرآن نہ تراویح میں سہ شبی یا پنچ شبی شبینہ سننے اور سنانے کے لیے آیا ہے اور نہ تجوید اور قرات کے مقابلوں کے لیے نازل ہوا ہے۔ قرآن بیک وقت نہ غارِ حرا میں نازل ہوا، نہ کسی خانقاہ میں، نہسب سے پہلی وجہ یہ ہے کہ ہم قرآن پڑھتے تو ہیں لیکن یہ سوچے بغیر پڑھتے ہیں کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟ قرآن میں تاریخ، فلسفہ، سائینس، اخلاقیات، معاشیات وغیرہ کے بے شمار موضوعات ہیں۔ قرآن ایک ایسا مینول ]Manual[ ہے جو ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق رہنمائی کرتا ہے۔ جس طرح ایک طالب علم اپنے نصاب کی تمام موٹی موٹی کتابوں کو شروع سے آخر تک پڑھتا نہیں بیٹھتا بلکہ انہی صفحات پر محنت کرتا ہے جو امتحان میں پوچھے جائیں گے۔۔۔ اسی طرز پر قرآن پڑھنے والوں کی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو قرآن میں وہ چیز تو تلاش نہیں کرتے جو ان پر واجب العمل ہے بلکہ وہ چیزیں پڑھتے ہیں جو ان کے علم میں خوب اضافہ کرتی ہیں۔ بحث، تقریر، درس و تدریس میں مدد کرتی ہیں۔ شخصیت کو نمایاں کرنے اور رعب دار گفتگو کرنے میں مدد کرتی ہیں۔ یا پھر ان کے عقیدے کے بزرگوں نے جن سورتوں کے فضائل بتا دیے کہ فلاں سورت پڑھنے سے نوکری لگ جاتی ہے اور فلاں سورت کی تلاوت سے اولاد نرینہ پیدا ہوتی ہے۔ لوگ اس لیے بھی قرآن کثرت سے پڑھتے ہیں کہ مرحوم ابا جان اور امی جان کی بخشش ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ ان کے والدین کی مغفرت فرمائے کہ اولاد کے قرآن پڑھنے سے مرحوم والدین کو بے شک اس کا اجر پہنچتا ہے، لیکن یہ بہرحال ایک علیحدہ موضوع ہے۔ گمراہیوں سے بچنے کے لیے قرآن کو پڑھنے کا جہاں تک تعلق ہے تو سب سے پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ ہم قرآن سے حاصل کیا کرنا چاہتے ہیں؟ قرآن نہ تراویح میں سہ شبی یا پنچ شبی شبینہ سننے اور سنانے کے لیے آیا ہے اور نہ تجوید اور قرات کے مقابلوں کے لیے نازل ہوا ہے۔ قرآن بیک وقت نہ غارِ حرا میں نازل ہوا، نہ کسی خانقاہ میں، نہ گھر اور نہ کسی جلسے میں۔
قم فانذر کے ساتھ ہی یہ طے ہو گیا کہ یہ ایک دعوتی پیغام ہے جسے لے کر گھر، خاندان، محلہ، بازار، دوست، دشمن، جنگ اور امن، ہر جگہ اسے ساتھ لے کر جانا ہے قرآن کو گھر یا مدرسہ یا درس و اجتماع میں بیٹھ کر سنا جا سکتا ہے، پڑھا جا سکتا ہے۔۔ لیکن اس کو مضبوطی سے تھامنے کے معنی اسی وقت سمجھ میں آتے ہیں جب ہم اسکے ایک ایک آیت کو لیں اور غور کریں کہ یہ آیت مجھ سے کیا چاہتی ہے۔
ترے ضمیر پر جب تک نہ ہو نزولِ کتاب گرہ کشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشاف
لوگ قرآن کو اپنی ہدایت کے لیے نہیں بلکہ اپنے شوق اور مزاج کی تکمیل کے لیے پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایک صاحب کاروبار میں مستقل جھوٹ اور چکمہ بازی سے کام لیتے ہیں لیکن ان کو قرآن کے حروف مقطعات سے بڑی دلچسپی ہے۔ ہر محفل میں ان کے معنی و مطالب پر بحث کرتے ہیں۔ ایک صاحب جو اپنے بیٹوں کی شادی میں پورا پورا جہیز وصول کر چکے ہیں، وہ قرآن میں وراثت، طلاق اور تعدد ازواج کے مسائل کا گہرائی سے مطالعہ کرتے ہیں۔ چندہ وصول کرنے والوں کو قرآن میں موجود انفاق والی آیات مقدسہ سے دلچسپی ہوتی ہے۔ معصوم نوجوانوں کو جہاد کے نام پر قتل و غارت گری کی جانب ورغلانے والوں کو جہاد و قتال کی آیات پسند ہیں۔ درس و تقریر کرنے والوں کو حد جاری کرنے والی وہ ساری آیات ازبر ہیں جو دوسروں پر نافذ کی جاسکتی ہیں۔ مگر ایسی آیتیں تو انہیں نظر ہی نہیں آتیں جن کی رو سے وہ خود اپنے اوپر بھی حد جاری کر سکیں۔ الغرض لوگوں نے قرآن کو مضبوطی سے تھاما تو ہے لیکن افسوس کہ اس کے ذریعے اپنی گمراہیوں اور خامیوں کو دور کرنے کی نیت ان کے پیش نظر نہیں ہوتی بلکہ دوسروں کی گمراہیوں اور خامیوں کی نشاندھی کیلئے کام آتی ہیں۔
قرآن کو مضبوطی سے تھامنے کا تقاضا یہ ہے کہ جو لوگ مسلمانوں کے اندر سے شرک و بدعات کو مٹانا چاہتے ہیں، وہ پہلے "ادعوا ال سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ” کے معنی و مطالب سمجھیں۔ کسی بھی کلمہ گو فرد کو مشرک، کافر، فاسق اور بدعتی وغیرہ جیسے القابات سے سرفراز کرنے سے قبل قرآن میں یہ تلاش کریں کہ "ایسا کہنے کی قرآن انہیں کہاں اجازت دیتا ہے؟” بے شک اللہ تعالیٰ نے خود قرآن میں کئی جگہ تکفیر اور لعنت سے کام لیا ہے لیکن اپنا یہ اختیار اس نے کسی جگہ بندوں کے حوالے نہیں کیا۔
دولت مند اور سرمایہ کار قرآن میں حلال کمائی، خرچ اور بچت والی آیتوں کو پڑھ کر سمجھیں۔ غریب صبر و شکر کی آیات پر غور کریں۔ ہر مسلمان پہلے ان آیات پر تدبر کرے جن میں ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر حقوق ہیں۔ ہر شوہر پہلے عورتوں کے حقوق والی آیات کو پڑھے۔ مختصر یہ کہ ہر فرد پہلے ان فرائض کے بارے میں مطالعہ کرے جو اس پر گھر، خاندان، کاروبار، نوکری اور دیگر سماجی معاملات کے سلسلے میں اس پر واجب ہیں۔ اگر صرف پڑھنے اور رٹنے کی بات ہوتی تو یہ چند منٹوں میں ممکن تھا لیکن ان آیات بینات پر غور و فکر کرنے، تدبر کرنے، عمل کرنے اور پھیلانے کے لیے تو ساری عمر بھی ناکافی ہے۔۔
ہر مسلمان اگر اپنی زندگی سے متعلق احکامات والی آیات کو اچھی طرح سمجھ لے، بھلے ہی اس نے تجوید یا عربی نہ سیکھی ہو، فلسفہ یا تاریخ ِ اسلامی نہ پڑھی ہو، بھلے ہی وہ توحید کی گتھیاں سلجھا نہ سکا ہو، بھلے ہی اس نے جنت و دوزخ کے طول و عرض نہ ناپے ہوں، بھلے ہی وہ حقوق اللہ کی ادائیگی میں کمزور رہا ہو۔۔ لیکن اگر اس نے حقوق العباد اور اپنے معاملاتِ زندگی سے متعلق آیات کو مضبوطی سے تھام لیا ہے تو ان شاء اللہ یہ کافی ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق معاف کر دے۔کیونکہ پورا اسلام، قرآن اور عقیدہٗ آخرت دو ہی چیزوں پر قائم ہے۔ ایک حلال رزق کی طلب اور حصول دوسرے حقوق العباد۔ حلال رزق کے تعلق سے امام غزالی نے احیاالعلوم میں ایک حدیث نقل کی ہے کہ ”عبادات کے دس جز ہیں اور نو جز رزقِ حلال کی طلب اور حصول کے ہیں“ اور حقوق العباد کے تعلق سے کئی احادیث موجود ہیں جیسے ”قیامت کے روز ہر شخص کے تین اعمال نامے پیش ہوں گے۔ ایک شرک سے متعلق ہوگا، دوسرے حقوق العباد اور تیسرے حقوق اللہ“ اگر اس نے کلمہ کا دل سے اقرا ر کیا ہے اور حقوق العباد کے اعمال نامے میں کامیاب رہے تو اللہ تعالیٰ اپنے حقوق کے بارے میں چاہے تو حساب لے چاہے تو معاف کردے لیکن حقوق العباد کے معاملے اسکی معافی نہیں ہوگی“۔ کیونکہ قرآن کا مقصد یہ ہے کہ وہ ایک مثالی انسان، مثالی بیوی یا شوہر، مثالی باپ اور اولاد، مثالی تاجرو خریدار، مثالی مالک و ماتحت، مثالی حاکم و رعایا، مثالی امیرو غریب وغیرہ پیدا کرنا چاہتا ہے نہ کہ محض نام کے نمازی یا روزہ دار یا حاجی جو کہ گلی گلی پائے جاتے ہیں۔