چوہدری خالدہ تبسم
متعلمہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد
زندگی میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں ایک وہ جو خود کلامی کا سہارا لیتے ہوئے اپنے ساتھی خود بن کر اپنے ہی ساتھ اپنی منزلوں کی جانب نکل پڑتے ہیں اور دوسرے وہ جن کو گھر سے مکمل اہتماد ملتا ہے۔ ان کے ہر کام کے پیچھے ان کے گھر والوں کی مدد شامل ہوتی ہے اگر وہ کبھی غلط فیصلے لے بھی لےتب بھی ان کے خونی رشتے ان کو چھوڑ تے نہیں ہیں اعتماد دینے والے ماں باپ و بھائ بہن ہوتے ہیں جن کا انسانی زندگی میں وہی مقام ہے جو کہ انسانی جسم میں ریڑھ کی ہڈی کا ۔ ریڈ کی ہڈی جواب دے جائے تو خود کا لباس بدلنا بھی مشکل ہو جاتا ہے مگر دوسری جانب جن کے ساتھ ماں باپ بھائی بہن کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہو وہ زندگی کا ہر قدم لڑکھڑاتے ہوئے اٹھاتے ہیں ان پر بہاروں کے موسموں میں بھی خزاں طاری رہتی ہے۔ اسی لیے ایک بھائی کا بہن پر اعتماد کا ہونا ضروری ہے بہنیں تو یہاں تک کہتی ہیں کہ کسی اور آئینے کی ضرورت نہیں ہمیں تو بھائی کی آنکھیں ہئ سب سے خوبصورت بتاتی ہیں۔ بیٹیاں جب اس دنیا میں آتی ہیں تو ان کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کے دلوں میں بھی بہت سارے وسوسوں کی ولادت ہوتی ہے جو انکو گام بہ گام ڈراتے ہیں۔ مگر میرا یہ سوال ہے کہ بھائی کیا چیز ہے اور اس کی کیا اہمیت ہے۔ بیس سال کی بہن جب اپنے چار سال کے بھائی کو ساتھ بازار لے کر جاتی ہے تو وہ خود کو محفوظ سمجھتی ہے اور اسے اپنا محافظ تصور کرتی ہے۔ بھائی چھوٹے ہوں یا بڑے بہنوں کا مان ہوا کرتے ہیں۔ بھائی جب صوفے پر بیٹھ بہن کو پانی لانے کا حکم دیتے ہیں اور جو گلاس بہن لے کر آتی ہے اس میں صرف پانی ہی نہیں ہوتا بلکہ بہت ساری محبتیں بھی ہوتی ہیں۔ بھائی بہن کا انوکھا سا رشتہ کبھی پکی دوستی کے اور کبھی پکے دشمن مگر ضرورت پڑنے پر بھائی اگر بہن سے بڑا ہے والد کے بعد والد کا دوسرا کردار نبھاتا ہے اور اگر بہن بھائی سے بڑی ہے تو وہ والدہ کے بعد والدہ کے دوسرے کردار کو نبھاتی ہے یہ عمروں کا موازنہ معنی نہیں رکھتا بہن اور بھائی فطرتن جو بھی ایک دوسرے کے لئے ہوتے ہیں لاجواب ہوتے ہیں زندگی کی بھاگ دوڑ میں بہن بھائی ایک دوسرے کے لئے ہوا دارکھڑکیوں کی مانند ہوتے ہیں ۔ ایک بہن اور بھائی کا رشتہ ایک ورک کے دو اطراف کی طرح ہوتا ہے جو کبھی ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے۔ چونکہ ان میں یکساں ہمدردی کے مراحل اس لئے بھی بیشتر ہوتے ہیں کیوں کہ یہ دنیا کا وہ واحد رشتہ ہے جن نے ایک ہی عورت کی پستان سے دودھ پیا ہوتا ہے۔ دورے جدید میں پیدا ہوئے بچے جن کو ایک ماں کی چھاتی کا دودھ نصیب نہیں ہوا بلکہ الگ الگ وقتوں میں الگ الگ ذریعہ سے دودھ پلایا گیا ان میں بھی رشتے کا جنون اور احساس برابر ہی ہوتا ہے کیونکہ ان کی رگوں میں ایک ہی والدین کا خون دوڑرہا ہوتا ہے۔ ماؤں نے اپنی پستان سے دودھ نہ پلا کر اس کا متبادل تو ڈھونڈ لیا مگر ایک ماں کے شکم سے پیدا ہونے والے بچے کی رگوں میں دوڑنے والے خون کا متبادل نہ ڈھونڈ سکے۔ شاید اسی وجہ سے یہ رشتے بچے ہوئے ہیں اور دوسری سب سے بڑی وجہ ہمارا ہندوستانی ہونا ہے کیونکہ بیرونی ممالک کے مقابلے میں ہندوستانی گھرانے کچھ زیادہ ہی پر حساس ہوتے ہیں اور پر حساس ہونا ہی رسموں کو زیادہ نبھانے کی نشانی ہے ۔ اور ان ہی احساسات کو نبھاتے ہوئے بھائی اپنی بہن کی شادی کی رسموں کو مکمل کرنے کے لیے انتھک محنت سے کمر توڑوا لیتے ہیں۔ یہ کمر یوں ہی نہیں ٹوٹتی اس کے پیچھے ہزاروں جذبات ہوتے ہیں۔ بہن کی شادی کے لیے جہیز اکٹھا کرتے کرتے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے ہیں مگر بہن کو ڈولی میں بٹھانے کے بعد ایک بھائی اپنے ہاتھوں کے چھالے کبھی نہیں گنتا۔ خیر گنے بھی کیوں وہ کوئی احسان نہیں کر رہا ہوتا بلکہ باپ کے دوسرے کردار کا حق ادا کر رہا ہوتا ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا ہوتا ہے اور دوسری جانب بہنیں بھی بھائیوں کے لئے بہت ساری قربانیاں دیتی ہے، آپ تاریخ کے ورق ٹٹول کر دیکھ لو آپ کو اس طرح کی ہزاروں حقیقت پر مبنی کہانیاں مل جائیگی کہ بہنوں نے بھائیوں کے لیے اپنے زیورات بیچ ڈالے۔ اور یہاں تک کہ اپنے بچوں کے حصے کا حق بھی بھائیوں پر نثار کر دیا۔ بھائی کا بہن کے تہی اچھے سلوک کا بہن کی ازدواجی زندگی میں بھی بہت اثر ہوتا ہے سوچو جب ایک شوہر اپنی بیوی کو اس کے بھائی کی مثال دیتا ہے تو ایک بہن کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ خیر یہ بات تو ہوئی ان لوگوں کی جن کے یہاں ان رشتوں کی اہمیت ہوتی ہے مگر کیا ہوتا ہوگا ان بہینوں کا جن کو بھائی کے ہوتے ہوئے بھی ان کی عدم دستیابی ہی رہی اور دست شفقت حاصل نہیں ہوا۔ ویسے یہ حاصل اور لاحاصل کا سفر بھی کتنا عجیب ہوتا ہے اور کٹھن بھی۔ کاش میں لکھ سکوں تو لکھو ایک درگزر کی گئی بہن کی ترستی پلکوں کے اندر کی پتلیوں کی جنبش کا درد، توجہ کا انتظار کرتی پیشانی کی شکن کا راز ۔