علیزے نجف
دنیا بڑی تیزی سے بدل رہی ہے اکیسوین صدی نے اس تیز رفتاری کو مہمیز دے دی ہے اس کے چلتے جہاں دنیا میں بےشمار تبدیلیاں واقع ہوئیں ہیں جو کہ منفی و مثبت دونوں ہی ہیں اسی میں ایک تبدیلی کا نام گلوبل وارمنگ ہے یعنی عالمی پیمانے پر درجہء حرارت کا معمول سے بڑھ جانا اور یہ اضافہ بتدریج بڑھتا ہی جا رہا ہے خالق کائنات نے اس دنیا کو ایک اصول پہ کاربند کیا ہے جو کہ گذرتے وقت کے ساتھ سائنسی تحقیق دانوں نے بھی تسلیم کر لیا ہے لیکن ترقی کی اندھا دھند دوڑ میں انسانوں نے ایسی غلطیاں کی ہیں جس نے نظام دنیا میں اتھل پتھل پیدا کردی ہے اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والے منفی اثرات میں گلوبل وارمنگ بھی شامل ہے۔ سائنس دانوں نے اسے ایک بڑی تباہی سے تعبیر کیا ہے اور اس تباہی کے پیچھے کئ وجوہات ہیں ۔ فی الوقت خلا میں مختلف طرح کی گیسیں پائی جا رہی ہیں جو کہ نیم مستقل ہوتی ہیں اس کی خاصیت یہ ہے کہ یہ قدرتی طور پہ نہیں بلکہ زمین پر ہونے والے مختلف قسم کے عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں اس میں خاص طور سے کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین ، کلوروفلور کاربن ہیں جس کے ہوا میں شامل ہونے سے درجہء حرارت میں اضافہ ہو جاتا ہے پچھلے ۳۰ سے ۳۵ سالوں میں درجہء حرارت میں تیزی کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اس میں گرین ہاؤس کا ایک اہم رول ہے ان گیسوں کا فضا میں بلا روک ٹوک کے بڑھتے جانے سے ایسی بے ترتیبی پیدا ہو رہی ہے جس کی اگر بروقت روک تھام نہ کی گئی تو گذرتے وقت کے ساتھ اس کو معتدل بنانا اور اس کی فطری سطح پہ لانا اتنا ہی مشکل ہوتا چلا جائے گا ۔
زمین کے درجہء حرارت میں اس اضافے کا سبب کافی حد تک انسان اور اس کی ایجادات ہیں جنگلوں کی کٹائی سے فضا میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے بھاپ بننے کی شرح میں بھی تیزی آئی ہے یہ سب گرین ہاؤس گیسیں ہیں جو کہ موسمی نظام کو متاثر کرتی ہیں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے دنیا کے بعض حصوں میں نمی اور بعض حصوں میں خشکی کا اضافہ ہو رہا ہے اس سے سب سے زیادہ نقصان زراعت اور سمندری ساحلی علاقوں کا ہوگا کیوں کہ گلیشیر کے پگھلنے سے سمندر کی سطح میں اضافے کا خطرہ ہے جس سے بارش کے دوران ان علاقوں میں سیلاب کے آنے کے قوی امکانات ہیں اور کچھ علاقے قحط سالی کی زد میں بھی آ سکتے ہیں اس آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے جنگلات میں پودوں درختوں اور پرندوں کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے ہوا بارش درجہء حرارت سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں اس لئے ان کو یکساں اہمیت دینا بہت ضروری ہے مختلف درجہء حرارت کی سطح میں اضافے پر مبنی نمونوں نے تباہ کن سیلاب ، خشک سالی ، جنگل کی آگ ، اور سمندری تیزابیت ، اور زمین اور پانی دونوں طرف کام کرنے والے ماحولیاتی نظام کے ممکنہ حد متاثر ہونے کی پیشن گوئی کی ہے بھوک جنگ اور اس طرح کی پیشن گوئیاں درحقیقت اس لئے کی جاتی ہیں تاکہ ہم قبل از وقت بہترین حکمت عملی کے ذریعے ان ممکنہ نقصانات سے بچ سکیں اگر ہم اس پہلو کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوں اور کوشش کریں کہ ہم ماحولیاتی نظام کو بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کریں گے تو شاید یہ کوشش اس بہتری کی طرف بڑھنے والا ایک مثبت قدم بن جائے ۔
ہم صرف اس وقت کے تہذیبی ماحول میں پائی جانے والی آسائشوں کے تئیں اپنے رویے بدل کر گلوبل وارمنگ کو شکست نہیں دے سکتے کیوں کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ پھیلانے کا مرکزی ذریعہ مینوفیکچرنگ انڈسٹریز سے مربوط ہیں جب تک اس کا غیر ضرر متبادل نہیں نکالا جاتا اس مسئلے کی سنگینی جوں کی توں برقرار رہے گی کیوں کہ یہ فیکٹریز طرح طرح کے ایندھن کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے کیمکل بھی استعمال کرتی ہیں اور اپنا تمام زہریلا کچرا اور فضلا زمین پر یا پھر دریاؤں اور سمندروں میں پھینک دیتے ہیں اس کے منفی اثرات سے سمندری جانوروں کی زندگیاں خطرے میں پڑ گئی ہیں اور کئی جانوروں کی نسلیں بھی ختم ہو رہی ہیں
عالمی سطح پہ درجہء حرارت کے مسلسل اضافے کے بارے میں آب و ہوا کے سائنس دانوں کے درمیان وسیع اتفاق رائے نے متعدد ریاستوں اور کارپوریشنوں اور افراد کو گلوبل وارمنگ کو روکنے اور ماحول کو فطری بہاؤ میں لانے کی طرف متوجہ کیا ہے بہت سی تنظیموں نے یہ مشورہ دیا کہ ماحولیاتی سسٹم کو متاثر کرنے والے افراد و کارپوریشن کے خلاف قانونی کارروائی کرنی چاہئے تاکہ لوگ اس کی سنگینی سے واقف ہو سکیں
ماحول کا تحفظ اور اسے انحطاط سے بچانے کی ذمےداری نہ صرف حکومت کی ہے بلکہ عام شہریوں کی بھی ہے کیوں کہ یہ عالمی مسئلہ ہے جس میں ہر فرد بنیادی کردار ادا کر سکتا ہے ماحولیات کے بقا کے لئے پالیسی بناتے وقت معاشی اور اخلاقی پہلوؤں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کیوں کہ دیکھنے میں یہ بھی آتا ہے کہ پالیسیوں کے تعیین کے بعد اکثر اس کے نفاذ میں وہ سختی اور ایمانداری نظر نہیں آتی جو کہ ہونا چاہئے ۔ وسائل کے تحفظ اور نئے وسائل کے منصوبے نیز جدید ٹکنالوجی سے ماحول کو بہتر بنانے کی کوشش بھی کرتے رہنا چاہئے ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی آبادی اس وقت 68 بلین ہے 2030 تک 83 بلین ہو جانے کا اندازہ لگایا جا رہا ہے، غریب ممالک کی ابادی میں اضافے کی شرح کچھ زیادہ ہی ہے جس سے وسائل پر دباؤ بڑھتا ہے اور افلاس اور بیماری میں بھی اضافہ ہوتا ہے اس لئے اس سلسلے میں ایک قومی پالیسی کی ضرورت ہے جو کہ انسانی ابادی کے تناسب کے ساتھ وسائل میں بھی اضافے کا موجب بن سکے۔
ان تمام باتوں کا لب و لباب یہی ہے کہ ماحولیاتی انحطاط کو روکنے کے لئے اور اس کو معتدل بنانے کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرتے رہنا چاہئے کیوں کہ اس کے بغیر قابل بقا ترقی ممکن نہیں
اس کے لئے سب سے ضروری ہے کہ صاف ستھری توانائی کے متبادل کو اپنایا جائے، ہم صدیوں سے کوئلہ، تیل، گیس کا استعمال کرتے آ رہے ہیں جس سے بڑی مقدار میں کاربن ڈائی آکسائڈ اور گرین گیسوں کا اخراج ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے اس لئے وائنڈ، سولر، اور ہائڈرو پاور جیسے قابل تجدید انرجی پاور کا استعمال کرنے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ اس طرح کی انرجی سے گرین گیسوں کا اخراج بہت کم ہوتا ہے۔
گلوبل وارمنگ کو کم کرنے کے ایسے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے جو کہ کاربن ٹیکس اور انرجی کے موثر طریقوں کو فروغ دے، حکومت اس کے لیے سبسڈی بھی فراہم کرے، اس لئے ہر شہری کو چاہئے کہ وہ صرف انھیں سیاسی لیڈروں کو ووٹ دے جو کہ موسمی تبدیلیوں سے نمٹنے کو ترجیح دے اور گلوبل وارمنگ کو اعتدال میں لانے کی کوشش کرے اور ایسے کاروبار کو سپورٹ کرے جو کہ ماحول دوست ہوں۔
دنیا کے جنگلات ایک اسپنج کی طرح کام کرتے ہیں جو فضا میں خارج ہونے والی کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرتے ہیں اس طرح یہ یقینی ہے کہ بڑے پیمانے پہ شجرکاری اور جنگلات کی بحالی کی کوششوں سے گلوبل وارمنگ کے خطرے سے نمٹا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ نقل و حمل کے ذرائع کے صحیح استعمال سے بھی اس خطرے کو کم کیا جا سکتا ہے جیسے پیدل چلنا، بائیک چلانا، پبلک ٹرانسپورٹ کا استعمال کرنا، یا ہائبرڈ یا الیکٹرک کاریں چلانا ہمارے کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد کر سکتا ہے۔ گھروں میں بجلی کے بےجا استعمال میں کمی لانا بھی ایک مؤثر عمل ہو سکتا ہے اس طرح کے اقدامات سے انرجی کو بچایا جا سکتا ہے جس سے کہ کاربن کے اخراج میں کمی واقع ہو گی.
بلاشبہ، گلوبل وارمنگ کو روکنے کے لیے ایک تبدیلی، ٹھوس اور مستقل کوشش کی ضرورت ہے۔ انفرادی اور اجتماعی دونوں سطح پہ اس کے لئے کوشش کرنا ازحد ضروری ہے، ہماری نئے نئے ذرائع استعمال کرنے کی صلاحیت، ہمارا لچکدار رویہ، اور لاکھوں لوگوں میں پیدا ہونے والا ماحولیاتی شعور اس امید کو سچ کر سکتا ہے کہ زمین ایک بار پھر آنے والی نسلوں کے لیے ایک محفوظ، پائیدار گھر بن سکتی ہے۔ ہم سب ایک ہی سیارے پہ رہتے ہیں، اور اس کے باشندوں کے طور پر، یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ہم زمین پر موجود تمام حیاتیات کی بقا کے لیے گلوبل وارمنگ کو روکیں۔ کیوں کہ ہمارا مستقبل ہمارے آج کے اقدامات پہ منحصر ہے۔