یکم جنوری: مظفرپور کے یوم تاسیس پر خصوصی تحریر

Spread the love

مظفرپور میں جدید تعلیمی انقلاب کے بانی سید امداد علی

اسلم رحمانی
شعبۂ اردو نتیشور کالج، مظفرپور

برصغیر پاک و ہند میں 1857ء کی ناکام جنگ آزادی اور سقوطِ دہلی کے بعد مسلمانانِ برصغیر کی فلاح و بہود اور ان کی ہمہ جہت ترقی کے لیے جو کوششیں کی گئیں ، عرف عام میں وہ ” علی گڑھ تحریک ” کے نام سے جانی جاتی ہیں ۔ ” علی گڑھ تحریک ” ایک علمی ، ادبی ، فکری ، سیاسی اور سماجی تحریک تھی جس کے بنیاد گزاروں نے اس کے بینر تلے مختلف میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیے اور ملک و معاشرے میں اس کے دیر پا اثرات مرتب کیے۔ اس میں ایک اہم نام ریاست بہار کے ضلع مظفرپور کا بھی ہے، واضح رہے کہ موجودہ مظفرپور اٹھارہویں صدی کے دوران وجود میں آیا۔ مغل گورنر رضا خاں مظفر جنگ کے نام سے وابستہ ہے۔ جن کے متعلق کہاجاتاہے کہ وہ برطانوی عہد حکومت میں تحصیلدار بھی تھے۔مظفرپور تاریخی عظمتوں اور رفعتوں کا امین ہے۔ یہ خطہ ہر عہد میں مذہبی ثقافتی، سماجی، تعلیمی، معاشی اور ادبی طورپر متحرک و فعال رہا ہے۔ مظفرپور بھارتی ریاست بہار کے 38 اضلاع میں سے ایک مردم خیز ضلع ہے۔ فی الوقت مظفرپور ترہت کمشنری کا مرکز ہے جس میں چھے ضلعے آتے ہیں۔ مغربی چمپارن( بیتیا) ،مشرقی چمپارن( موتہاری) ،شیوہر، سیتامڑھی، ویشالی اور مظفرپور۔مظفرپور شمالی بہار کے سب سے بڑے تعلیمی، ثقافتی، ادبی، سماجی اور سیاسی مراکز میں سے ایک ہے۔تاریخی روایات کے مطابق یکم جنوری 1875ء میں مظفرپور کو ضلعی مرکز کی حیثیت حاصل ہوئی۔ سرسید احمد کی تحریک کو پروان چڑھانے میں مظفرپور کو اولیت حاصل ہے۔سرسید تحریک اور صوبہ بہار، سہ ماہی فکرو نظر، علی گڑھ، سرسید نمبر 1992 میں اشفاق عارفی لکھتے ہیں کہ:سرسید تحریک کا باضابطہ آغاز غازی پور میں سائنٹفک سوسائٹی کے قیام سے ہوا۔ سوسائٹی کے قیام کے فورا بعد دور دراز تک اس کے مقاصد اور کارکردگی کی شہرت پھیلتی گئی۔ بعد میں جب سوسائٹی نے اپنا ترجمان اخبار سائنٹفک سوسائٹی 1866ء نکالنا شروع کیا تو اس کی شہرت اور مقبولیت میں اور بھی اضافہ ہوااور دور دراز مقامات پر اس کے اثرات بھی مرتب ہونے لگے۔ بہار کا شہر مظفرپور متحدہ ہندوستان کا پہلا شہر ہے جہاں سب سے پہلے سرسید کی سائنٹفک سوسائٹی کے واضح اثرات اور علمی حمایت کا سراغ ملتا ہے۔
بہار سائنٹفک سوسائٹی:مظفرپور میں جدید تعلیمی تحریک کے پہلے علمبردار سید امداد علی (متوفی 8/اگست 1886) کی کاوشوں اور سرسید احمد کی
تحریک کے زیر اثر قائم بہار سائنٹفک سوسائٹی مظفرپور کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے گلزار بہار معرف بہ ریاض ترہت کے مصنف اجودھیا پرشاد لکھتے ہیں کہ:
مولوی سید امداد علی خانصاحب بہادر نے تاریخ 27/ فروری 1868 کو یہ مشورہ جملہ روسا و اہلکاران و مہاجنان و زمینداران قصبہ مظفرپور تدبیر معقول واسطے رفاہ ہند تجویز فرماکر ایک مجلس گورنمنٹ اسکول میں ترتیب دی تھی جسکے چیئرمین یعنی صدر انجمن جناب ڈاکٹر ولیم استوراٹ فیلن صاحب بہادر انسپکٹر اسکول ہائے صوبہ بہار تھے اور اس مجلس میں یہ بات قرار پائی کہ ایک درخواست بامید توسیع طریقہ تعلیم علوم اعلی بزبان ملکی اور تقرر قاعدہ امتحان یونیورسٹی بزبان مروجہ ہندوستان و عطائے سند و لقب لیاقت علمی بحضور نواب گورنر جنرل بہادر باجلاس کونسل بذریعہ مجسل (سین ٹفک سوسیٹی) جسکے سکریٹری خود جناب مولوی صاحب موصوف ہوئے۔
(گلزار بہار معروف بہ ریاض ترہت، ص: 67/ ناشر: مطبع مشرق، س اشاعت 1892 ،معاون: خدابخش لائبریری، پٹنہ)

سید امداد علی کی بہار سائنٹفک سوسائٹی کے اغراض و مقاصد،اہداف اور اس کے کارناموں پر روشنی ڈالتے ہوئے معروف فرانسیسی مورخ گارساں دتاسی لکھتے ہیں کہ:بہار کی مجلس علمی (سائنٹفک سوسائٹی) کا مرکز مظفرپور ہے۔ اس انجمن کے ارکان بیش تر مسلمان ہیں اور اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے عامتہ الناس کی اخلاقی و ذہنی زندگی کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے اور ان کےلئے اسباق کے ذریعے تعلیم کا انتظام کیا جائے۔ انجمن نے ایک یہ تجویز بھی منظور کی ہے کہ مغربی تصنیفات کے ہندوستانی میں ترجمے کرائے جائیں۔
انجمن ایک رسالہ بھی شائع کرتی ہے، انجمن کے ارکان کا ارادہ ہے کہ اس کےلئے عمارت بنوائی جائے، ایک بڑا کالج قائم کیا جائے اور غربا کےلئے زراعت و حرفت کی تعلیم کا خاص انتظام کیا جائے۔ اس وقت انجمن کے پانچ مدارس چل رہے ہیں جن میں بلا امتیاز مذہب ہندو اور مسلمان شریک کیے جاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستانی لوگوں کو غیر مذہب والوں کے ساتھ اپنے بچوں کو تعلیم دلانے میں کوئی اعتراض نہیں ہوتا جس طرح کہ فرانس اور آئر لینڈ میں بعض لوگوں کو ہوتا ہے جو دوسرے عقائد والوں سے بالکل علاحدہ رہنا چاہتے ہیں۔ ان مدارس میں ایک مدرسے نے خاص طور پر ترقی کی ہے۔ یہاں اردو کے ذریعے سے مغربی علوم پڑھائے جاتے ہیں اور طلبا کو اپنی مذہبی زبانوں کی بھی تعلیم دی جاتی ہے۔ چنانچہ ایک پنڈت سنسکرت کی تعلیم کےلئے اور مولوی عربی کےلئے مقرر ہے۔
(مقالات گارساں دتاسی، حصہ اول صفحہ 4/ شائع کردہ: انجمن ترقی اردو ہند دہلی 1943)

اخبار الاخیارسائنٹفک سوسائٹی کا ترجمان:بہار کے قدیم اخبارات میں ’اخبار الاخیار‘مظفرپور کی واضح اہمیت تسلیم کی جاتی ہے کیوں کہ یہ اخبار سرسیّد کی تحریک سے متعلّق تھا۔ تاریخی روایات کے مطابق
15ستمبر 1868 ء کو مطبع چشمہ نور، مظفر پورسے یہ جاری ہوا تھا۔ عام طور پر ہر شمارے میں 16 صفحات شامل ہوتے تھے۔ یہ اخبار 15 روزہ تھا اور اس کے صفحات بائیں سے دائیں جانب لکھے جاتے تھے۔ اس سلسلے سے اخبار میں کسی نے سوال کیا تو جواب میں ایڈیٹر نے 15 اپریل 1869ء کے شمارے میں یہ وضاحت کی کہ جلد ہی اس اخبار کو انگریزی میں بھی شایع کیا جائے گا۔ اس لیے پہلے سے ہی اس کے صفحات بائیں سے دائیں جانب کھُلیں گے۔ اس کے پہلے ایڈیٹر بابو اجودھیا پرشاد منیری تھے۔ آغاز سے 15 ستمبر 1870ء تک کے شمارے میں اجودھیا پرشاد کا ہی نام ملتا ہے۔ یکم ستمبر 1870ء سے دسمبر 1870 سے جو شمارے ملے، ان پر ایڈیٹر کی حیثیت سے منشی قربان علی خاں صاحب کا نام درج ہے۔ پروفیسر صفدر امام قادری رقمطراز ہیں کہ:سرورق پر ہی اس اخبار میں یہ درج ہوتا تھا کہ یہ صوبۂ بہار کی سائنٹفک سوسائٹی کا ترجمان ہے۔ 15 جون 1869ء کے شمارے میں سائنٹفک سوسائٹی کی سالانہ روداد کی اشاعت سے اس کی مزید وضاحت ہو جاتی ہے جس کا درج ذیل حصّہ تحقیقی جہت سے نہایت کارآمد ہے:

’’پانچواں منشا اس سوسیٹی کا یہ ہے بملاحظہ اخبار انگلستان و ہندوستان اور دیگر ممالک واقالیم کے ایک اخبار جو واسطے ترقّی فہم و فراست اہل ہند کے کافی ہو اور جس سے روز بروز اتحاد و محبت فیمابین رعایہ اور گورنمنٹ کے زیادہ ہو،چھاپ کر مشتہر کیا جاوے۔ تاریخ 15ستمبر 1868ء ایک اخبار باسم ’اخبار الاخیار‘ اسی صنعت کا مہینے میں دوبار اس سوسیٹی سے نکلتا ہے۔‘‘
‘اخبار الاخیار‘ چوںکہ سائنٹفک سوسائٹی، صوبۂ بہار کا ترجمان تھا، اس لیے اس اخبار کے مشمولات میں سرسیّد احمد خاں کے امور زیرِ بحث نہ آئیں، یہ کیسے ممکن تھا؟ قاضی عبدالودود نے اپنے مضمون (اخبارالاخیار، مظفرپور اور سیّد احمد خاں) میں ایسے اہم نوشتہ جات جمع کرنے کی کوشش کی ہے جس سے سرسیّد، سائنٹفک سوسائٹی اور دیگر متعلقات واضح ہوجائیں ۔’ اخبارالاخیار‘ کی اشاعت کا یہ وہی زمانہ ہے جب سرسیّد احمد خاں ہندستان سے انگلینڈ گئے اور پھر واپس ہوئے۔ اس اعتبار سے اس اخبار کے بعض مندرجات قومی اور سماجی معاملات میں ہمیں نئے سرے سے تجزیہ کرنے کے لیے مجبور کرتے ہیں۔ 15 جولائی1869ء کے شمارے میں سرسیّد کو حکومتِ برطانیہ کی طرف سے کے۔ایس۔آئی۔ کا اعزاز ملنے پر مبارک باد دی گئی ہے اور پھر ولایت کے سفر کے اسباب و علَلْ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ ’اخبارالاخیار‘ میں خطباتِ احمدیہ کے اشتہارات اور اس کے مشمولات کے بارے میں بھی واضح طور پر گفتگو کی گئی ہے۔ پروفیسر شاہ مقبول احمد کلکتّہ کی تحویل میں ’اخبار الاخیار‘ مظفر پور کے 43 شمارے بابت 15 اپریل 1869ء تا 15 دسمبر 1870 ء محفوظ تھے جن سے قاضی عبدالودود اور سیّد مظفر اقبال نے استفادہ کیا تھا۔ لیکن ان کی وفات کے بعد اب وہ شمارے کس حال میں ہیں، اس کا اندازہ مشکل ہے۔
مظفرپور میں جدید تعلیمی فضا قائم کرنے والی شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر سجاد لکھتے ہیں:
سید امداد علی، سید محمد تقی، دیوان مولا بخش جیسے لوگ ترہت میں جدید تعلیمی ادارے قائم کرنے میں پیش پیش تھے۔
(ہندوستانی مسلمان: مسائل و امکانات،ص: 237)
ایک یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ سید امداد علی کے مطالبہ پر ہی مظفرپور کے سینٹرل کالج( بھومیہار برہمن کالجیٹ اسکول) کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد 7/ نومبر 1871ء کو بنگال کے لیفٹیننٹ گورنر جی کیمپ بیل نے رکھا۔ اسی طرح شمالی بہار کے مشہور و معروف ایل ایس کالج مظفرپور کے قیام بھی سید امداد علی کی سائنٹفک سوسائٹی کا اہم کردار ہے، مظفرپور کے ضلع گزیٹئر (1907) کے صفحہ 134 کے حوالے سے پروفیسر سجاد لکھتے ہیں کہ:
بہار سائنٹفک سوسائٹی، مظفرپور، کے ٹرسٹ میں "بھومیہار برہمن سبھا” نے پچاس ہزار روپے کی رقم جمع کرکے ایک کالج قائم کرنے کی تجویز رکھی۔ یہ رقم کلکتہ یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ میں فیس کے طورپر(3/ جولائی 1899ء) میں جمع کرکے ایک کالج قائم کیا گیا۔ تب اسے سکنڈ گریڈ کالج یعنی” انٹرمیڈیٹ کالج” کا درجہ ملا پھر 1900ء میں اسے ” فرسٹ گریڈ کالج” یعنی ڈگری کالج کا درجہ حاصل ہوا۔ اس کالج کو چلانے میں 814 روپے ماہانہ خرچ آتے تھے۔ اس میں سے 306 روپے طلباء کی فیس سے آجاتے تھے۔ بقیہ رقم لنگٹ سنگھ، ایک ریلوے ٹھیکیدار، عطا کرتے تھے۔ دراصل 1899ء تک لنگٹ سنگھ اس کالج کو تقریبا پچاس ہزار روپے کی رقم ہر سال عنایت کرتے رہے۔ 1909ء میں کلکٹر (ایچ سی ووڈمین) نے کالج کا انتظام اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔ 1910ء میں کالج کی موجودہ عمارت کی بنیاد بنارس کے راجہ نے ڈالی۔10/ جولائی 1915ء کو حکومت نے اس کالج کو لے لیا اور اس کا نام ” گریئرسن بھومیہار برہمن کالج” رکھا۔ آزادی کے بعد 1951ء میں اس کالج کا نام لنگٹ سنگھ( 1850-1912) (ایل ایس کالج ) کے نام پر رکھا گیا۔ اس کالج کو مالی تعاون دینے میں دربھنگہ، بیتیا، جینت پور اور نرہن کے زمین داروں کا بھی نام آتا ہے۔ 1922 میں کالج کےلئے دو ہاسٹلوں کی بھی تعمیر کرائی گئی جن میں ایک کا نام ڈیوک ہاسٹل اور دوسرے کا نام لنگٹ سنگھ ہاسٹل رکھاگیا۔ ان ہاسٹلوں کےلئے رقم کی فراہمی وزیر تعلیم سید فخرالدین نے کرائی۔
سید محمد تقی، سید امداد علی کی ان تحریکوں میں ان کے سب سے بڑے معاون تھے۔ مظفرپور کے نواب سید محمد تقی۔ یہ بہار سائنٹفک سوسائٹی، مظفرپور کے بانی صدر تھے، سید محمد تقی کے والد کا نام سید یوسف علی تھا، جن کے والد ” عامل ” تھے ۔کہا جاتا ہے کہ بڑوراج گاؤں( ضلع مظفرپور کے مغربی سب ڈویژن میں واقع) میں ایک مندر کے افتتاح کے وقت ان کا انتقال ہوگیا اس کے خوں بہا میں 1356 مواضع کی زمینداری اس وقت کی حکومت نے دیا۔ 1845ء میں ضلع اسکول، مظفرپور کےلئے زمین انہوں نے ہی دی تھی اور ایک موضع جو گیاڑا( تحصیل دوہزار روپیہ سالانہ) کی پوری تحصیل اس اسکول کے اخراجات کےلئے مقرر کردی تھی۔ 7/ نومبر 1871ء کو قائم کیے گئے کالج ( جسے گارساں دتا سی نے مظفرپور سینٹرل کالج کہا ہے) کےلئے بھی زمین انھوں نے ہی دی تھی۔ اس کالج کے پہلے صدر بھی وہی تھے۔اسی طرح
سید محمد تقی کے خاندان سے تعلق رکھنے والے صحافی ایس ایم باقر کی اطلاع کے مطابق نواب محمد تقی خاں وقف اسٹیٹ بہار شیعہ وقف بورڈ میں درج نمبر 62/ محلہ کمرہ چندوارہ مظفرپور انہیں کی امانت ہے اسی طرح چندوارہ کی سڑک نواب روڈ انہیں، کے خاندان سے منسوب ہے۔ بقول پروفیسر محمد سجاد: دیوان مولا بخش نے بھی لال گنج میں زمین اسکول کےلئے دیا اور اس کی عمارت بھی بنوائی۔
لیکن افسوس کہ ہم نے اپنے ان بزرگوں کو فراموش کردیا ہے جنہوں نے مظفرپور بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مظفرپور کے کسی بھی فسانے میں ان لوگوں کا تذکرہ نہیں ہوتا جن کی کاوشوں کا خون مظفرپور کی شناخت کی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔بہرحال یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں اور واضح ہے کہ سید امداد علی، سید محمد تقی کی تحریک بہار سائنٹفک سوسائٹی نے ملت کی بہتر نمائندگی کی ہے۔ اس تحریک کو پائدار اور اس میں قوت و طاقت بخشنے کے لئے ہمیں ان کے روحانی، عرفانی افکار کو نمونہ عمل بنانا ہوگا اورانہی جیسا پاکیزہ عزم واستقلال بھی پیدا کرنا ہوگا۔ آ ج ایک بار پھر ملت کا ایک بڑا طبقہ خستہ حال اور ہر محاذ میں قابل رحم نظر آ رہا ہے۔
آ ج ملک میں جو ماحول ہے اس کو ہم کسی بھی قیمت پر نظر انداز نہیں کرسکتے پیں۔ ان سب حالات سے نبرد آ زما ہونے کے لئے ہمیں تعلیم و تعلم اور تدریس وتربیت پر پوری توجہ مبذول کرنی ہوگی۔ اسی کے ساتھ ساتھ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کو قائم کیا جائے تاکہ اسلاف کے خوابوں کی تعبیر پوری ہوسکے۔

Leave a Comment