ودود ساجد
گزشتہ 23 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ صادر کیا کہ اگر معاملہ مرحوم (بلکہ مقتول) فیضان کا نہ ہوتا تو ملک بھر کے تمام طاغوتی چینل اور شرپسند اینکر اسی فیصلہ پر بحث و مباحثہ کر رہے ہوتے۔
دہلی ہائی کورٹ کے جج‘ جسٹس انوپ جے رام بھمبانی نے مشرقی دہلی کی ایک پریشان حال ماں’قسمت النساء‘ کی درخواست پر اس کے بیٹے پر آنے والی افتاد کی تحقیقات سی بی آئی کو سونپ دی ہے۔ پولیس یا کسی اور ایجنسی کی تحقیقات سے غیر مطمئن عدالت کا سی بی آئی کو تحقیقات سونپنے کا فیصلہ یقینی طور پر اہم اور غیر معمولی ہی ہوتا ہے۔ قانون میں بھی اور متعدد مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلوں میں بھی اس اختیار کو انتہائی شاذ و نادر معاملات میں استعمال کرنے کی واضح ہدایات موجود ہیں۔ اس اعتبار سے 26 اور 27 فروری 2020 کی درمیانی شب میں مشرقی دہلی کے فسادات کے دوران پولیس کے ہاتھوں مظالم کے شکار فیضان کی موت کے معاملہ میں بھی دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ انتہائی اہم اور انتہائی غیر معمولی ہے۔
2019 میں مودی حکومت نے ’سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ‘ (سی اے اے) کے ذریعہ اس ملک کے اقلیتی طبقات اور خاص طور پر مسلمانوں کو جس مصیبت اور افراتفری میں مبتلا کیا تھا اس کے برے نتائج مختلف شکلوں میں آج تک سامنے آرہے ہیں۔ ان میں ایک بڑا واقعہ شمال مشرقی دہلی کے فسادکا تھا۔ مختلف خبر رساں اداروں نے پولیس اور ہسپتالوں کے ذرائع کے حوالہ سے بتایا تھا کہ پانچ درجن افراد ہلاک اور 200 سے زائد شدید طور پر زخمی ہوئے تھے۔
اسی دوران ایک واقعہ اور ہوا تھا جب چند مسلم نوجوانوں کو دہلی پولیس کے کچھ کارندوں نے گھیر لیا تھا۔ اس واقعہ کی دو ویڈیوز بھی وائرل ہوئی تھیں۔ یہ نوجوان زمین پر گرے ہوئے تھے اور پولیس والے ان کے گرد گھیرا بناکر انہیں بری طرح لاٹھیوں سے پیٹ رہے تھے۔ ایک نوجوان (فیضان) کے منہ‘ کان اور سر سے خون بہہ رہا تھا لیکن ’وطن کی محبت میں سرشار‘ ایک پولیس والا اس کے منہ پر لاٹھی کی ضرب لگاکر اس کے منہ سے جن گن من سننے کی جارحانہ فرمائش کر رہا تھا۔۔
فروری 2020 سے آج ہم جولائی 2024 میں آگئے ہیں لیکن ویڈیوز موجود ہونے کے باوجود دہلی پولیس کی کرائم برانچ ان پولیس والوں کا پتہ نہیں لگاسکی ہے جنہوں نے فیضان اور دوسرے مسلم نوجوانوں کے ساتھ یہ غیر انسانی سلوک کیا تھا۔ یہ بات فہم سے بالاتر ہے کہ آخر پولیس کو ہی اس معاملہ کی تحقیقات کیوں سونپی گئی تھی؟ لیکن ہائی کورٹ کے فیصلہ اور تبصرہ سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ دہلی پولیس کی کرائم برانچ نے چار سال برباد کئے اور وہ ان پولیس والوں تک نہیں پہنچ سکی جنہوں نے فیضان اور دوسرے مسلم نوجوانوں کے ساتھ سرعام ظالمانہ سلوک کیا تھا اور جس کی ویڈیوز موجود ہیں۔
جسٹس انوپ جے رام بھمبانی نے اپنے 38 صفحات اور40 پیراگراف پر مشتمل فیصلہ میں واقعات کو سلسلہ وار بیان کیا ہے۔ عدالت نے فیصلہ کے پیراگراف نمبر چار میں تحریر کیا ہے کہ ’’عرضی گزار (مقتول فیضان کی والدہ) کی کلیدی استدعا یہ ہے کہ فیضان کی موت اور اس پر پولیس مظالم کی تحقیقات کیلئے اس عدالت کی نگرانی میں ایک ایسی خصوصی تفتیشی کمیٹی (ایس آئی ٹی) تشکیل دینے کا حکم جاری کیا جائےجس میں وہ سینئر افسران شامل ہوں جن کا ریکارڈ واضح طور پر بے داغ ہو اور جو آزادانہ‘ پیشہ وارانہ‘ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ تحقیقات کیلئے معتبر سمجھے جاتے ہوں۔ عرضی گزارنے یہ بھی استدعا کی ہے کہ مذکورہ نئی کمیٹی سے عدالت وقتاً فوقتاً رپورٹ طلب بھی کرتی رہے اور تحقیقات ایک متعین وقت کے اندر کی جائے۔‘‘
یہ بات قابل ذکر ہے کہ مقتول فیضان کی والدہ نے عدالت سے دہلی پولیس کی ہی نئی ایس آئی ٹی سے تحقیقات کرانے کی اپیل کی تھی لیکن عدالت نے تحقیقات دہلی پولیس کو نہیں سونپی بلکہ مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کوسونپی۔ 23 سالہ فیضان غازی پور میں ایک گوشت کی دوکان پر کام کرتا تھا۔ 24 فروری 2020 کی شب وہ کردم پوری برج کی طرف اپنی والدہ کی تلاش میں نکلا تھا۔ اس کی والدہ دوسری کئی خواتین کے ساتھ سی اے اے کے خلاف منعقد ہونے والے احتجاج میں حصہ لے رہی تھیں۔ اس دوران اس کی والدہ گھر واپس آگئی۔ اسی وقت اطلاع ملی کہ مشرقی دہلی میں فساد پھوٹ پڑا ہے۔ فیضان کی ماں قسمت النساء اور اس کے بھائی ندیم نے باہر نکلنا مناسب نہ سمجھا۔ عدالت میں دائر حلف نامہ کے مطابق کچھ ہی دیر بعد معلوم ہوا کہ فیضان اور کچھ دوسرے مسلمان لڑکوں کو پولیس گھسیٹ کرلے گئی اور انہیں زدوکوب کیا گیا۔ سڑک پر شدید زخمی حالت میں پڑے ہوئے فیضان کو پولیس والوں نے کہا کہ وہ جن گن من سنائے۔ بعد میں فیضان کو پولیس ہی اپنی جپسی میں جی ٹی بی ہسپتال لے گئی جہاں اس کے سر اور کان کے زخموں کے ٹانکے لگانے کے بعد مزید علاج کیلئے کسی بڑے اسپیشلائزڈ ہسپتال کو لے جانے کو کہا گیا۔
ہائی کورٹ کے فیصلہ میں تحریر ہے کہ پولیس نے نہ تو فیضان کو کسی بڑے ہسپتال میں داخل کرایا اور نہ ہی جی ٹی بی ہسپتال میں ہی بھرتی رہنے دیا گیا۔ کافی بھاگ دوڑ کے بعد معلوم ہوا کہ فیضان اور کچھ دوسرے مسلم نوجوانوں کو جیوتی نگر پولیس اسٹیشن لایا گیا تھا۔ یہاں اسے غیر قانونی طور پر حراست میں رکھا گیا جبکہ اس کے سر‘ منہ اور کان سے خون بہہ رہا تھا۔ یہاں اس کی ماں اور بھائی کو تھانہ میں جانے نہیں دیا گیا۔ کچھ مقامی لیڈروں کی مداخلت کے بعد پولیس نے وعدہ کیا کہ جلد ہی فیضان کو رہا کردیا جائے گا۔
25 فروری کو کچھ ویڈیوز وائرل ہوگئیں جن میں فیضان اور دوسرے نوجوان شدید زخمی حالت میں سڑک پر پڑے ہوئے تھے اور پولیس والے انہیں گھیرے ہوئے مار رہے تھے۔ ویڈیو میں نظر آرہا ہے کہ پولیس والے نہ صرف ان نوجوانوں کو بری طرح مار پیٹ رہے ہیں بلکہ فرقہ وارایت سے بھرے ہوئے اشتعال انگیز فقرے بھی کس رہے ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ سب دیش دروہی (غداروطن) ہیں۔ وہ ان سے جن گن من سنانے کیلئے بھی کہہ رہے ہیں۔ فیصلہ میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دوسری ویڈیو میں پولیس والے یہ بھی کہتے ہوئے سنے جارہے ہیں کہ یہ لوگ ہندوستان میں رہتے ہیں لیکن انہیں آزادی چاہئے۔ پولیس والے انہیں بھدی بھدی گالیاں بھی دے رہے ہیں۔ آخر کار 25 فروری کی شب 11بجے فیضان کی ماں اور اس کے بھائی کو بلاکر پولیس نے فیضان کو ان کے حوالہ کردیا۔ اس وقت فیضان کے سر اور کان پر ٹانکے اور پٹیاں تھیں‘ ہاتھ پائوں سوجے ہوئے تھے اور وہ چلنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ وہ درد اور چوٹ کے سبب تڑپ رہا تھا۔ اس کے خون میں سنے ہوئےکپڑے پھٹے ہوئے تھے اور پائوں میں جوتے چپل نہیں تھے۔
فیصلہ میں یہ بھی تحریر ہے کہ فیضان کی ماں کے مطابق بے چینی اور سانس لینے میں دشواری کے باوجود اس کے بیٹے نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات اسے بتادئے تھے۔
مقامی ڈاکٹروں نے کہا کہ فیضان کی حالت بہت خراب ہے لہٰذا اس کی ماں نے اگلے روز دن میں ایک بجے اسے لوک نایک ہسپتال میں داخل کرا دیا لیکن یہاں اسی شب کو وہ زخموں کی تاب نہ لاکر چل بسا۔ دونوں ہسپتالوں کی میڈیکل رپورٹ نے بھی فیضان اور اس کی ماں کے ذریعہ عاید الزامات کی تصدیق کی ہے۔ انہی کی بنیاد پر 28 فروری کو ایف آئی آر کرائی گئی۔ اس دوران دہلی حکومت نے فساد میں ہلاک شدہ افراد کے معاوضہ کی اسکیم کے تحت فیضان کی ماں کو دس لاکھ روپیہ دئے۔ ایف آئی آر میں یہ بتائے جانے کے باوجود کہ دوسرے متاثرین اور خاص طور پر ایک نوجوان کوثر علی‘ فیضان پر ہونے والے مظالم کا چشم دید گواہ ہے‘ پولیس نے اس کے بیان نہیں لئے۔ یہی نہیں کرائم برانچ کے متعلقہ افسروں نے بار بار کہنے کے باوجود کوثر علی کے وہ کپڑے بھی ثبوت کے طور پر اپنے قبضہ میں نہیں لئے جو پولیس کی زدوکوب کے نتیجہ میں خون آلود ہوگئے تھے۔
اس کے برخلاف عدالت میں جمع اپنی رپورٹ میں کرائم برانچ نے لکھا کہ واردات کے مقام کے آس پاس نہ تو سرکاری سی سی ٹی وی کیمرے نصب ہیں اور نہ ہی پرائیویٹ۔ یہی نہیں پولیس نے یہ بھی بتایا کہ جو کیمرے جیوتی نگر پولیس اسٹیشن میں نصب ہیں وہ بھی کام نہیں کر رہے تھے۔ پولیس نے جھوٹی کہانی بنائی کہ فیضان اور دوسرے مسلم نوجوانوں کو فساد میں ہجوم نے مارا پیٹا اور پولیس انہیں جی ٹی بی ہسپتال لے گئی جہاں انہیں ابتدائی طبی امداد دے کر چھٹی کردی گئی۔
دہلی ہائی کورٹ کے جسٹس بھمبانی کا یہ فیصلہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ انہوں نے پیراگراف نمبر 28 میں لکھا ہے کہ ’’یہ نوٹ کرنا بہت اہم ہے کہ اس معاملہ میں انسانی حقوق کی بھیانک خلاف ورزی ہوئی اور پولیس والوں کے ذریعہ ہوئی۔ ان پولیس والوں کی شناخت ہونی ابھی باقی ہے تاہم یہ پولیس والے مذہبی تعصب اور عناد سے بھرے ہوئے تھے لہٰذا ان کی حرکت ’ہیٹ کرائم‘ (منافرت انگیز جرم) کے زمرے میں آتی ہے۔‘‘ عدالت نے اس فیصلہ میں سپریم کورٹ کے مشہور مقدمے ’تحسین پونا والا‘ کا تفصیل سے ذکر کیا ہے اور اسی سے ثابت کیا ہے کہ فیضان کے ملزم پولیس والے ’ہیٹ کرائم‘ کے مرتکب ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ نے اس زمرے کو دہشت گردی سے تعبیر کیا ہے۔
جسٹس بھمبانی نے فیصلہ کے پیراگراف 30 سے 36 تک جو کچھ لکھا ہے اس کی تلخیص یہ ہے کہ:1- ’’شفا ف ٹرائل کیلئے شفاف تحقیقات بھی ضروری ہے‘ یہ دستور کے آرٹیکل 21 کا اہم جزو ہے‘ انصاف ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے‘ شفاف تحقیقات نہ ہونے کی صورت میں انصاف کی معتبریت بھی مجروح ہوگی اور عدالتی عمل بھی بے کارجائے گا‘
2- موجودہ کیس میں جہاں انصاف کے محافظوں پر ہی جرم کے ارتکاب کا الزام ہے وہیں جرم کا ارتکاب کرنے والے اسی ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں جو ان پر عاید الزامات کی تحقیقات کر رہی ہے‘ اس صورتحال میں متاثرین میں اعتماد بحال نہیں کیا جاسکتا‘
3- تحقیقات میں پائی جانے والی بڑی خامیاں‘ تاخیری حربے اس امر کے متقاضی ہیں کہ تحقیقات کسی دوسری ایجنسی کو سونپی جائے تاکہ متاثرین کے اندر کم سے کم اعتماد تو بحال ہو‘
4- اب یہ کہنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں کہ دہلی پولیس نے اب تک جو کچھ کیا ہے وہ بہت دیر میں بہت کم کیا ہے‘ اب چار سال کے بعد ان ملزم پولیس والوں کا جدید ترین سائنٹفک ٹیسٹ کرنے کا بھی کوئی معنی نہیں رہ جاتا جو اس رات وہاں ڈیوٹی پر تھے۔
5- یہ عدالت بہت زیادہ سخت تبصرہ کئے بغیر اپنا یہ مشاہدہ درج کرنے پر مجبور ہے کہ اس مقدمہ کی تفتیش میں واضح طور پر جان بوجھ کر تاخیرکی گئی اور ایسی خاکہ نگاری کی گئی کہ جس کا مقصد ان افراد کو بچانا ہے جن پر فیضان پر وحشیانہ حملہ کرنے کا شبہ ہے۔
6- اس سے بدترین بات اور کیا ہوگی کہ جنہیں قانون کی رکھوالی دی گئی تھی‘ اور جن کے پاس طاقت اور اختیار تھا‘ وہی متعصبانہ ذہنیت سے کام لیتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‘‘ (عدالت کا تبصرہ ختم) جسٹس بھمبانی نے جو کچھ کیا وہ ان کا فرض تھا۔ اس ملک کے قانون اور آئین نے انہیں اس کا مکلف بنایا ہے۔ لیکن 27 فروری کی شب مشرقی دہلی کے ہی فساد کے ایک واقعہ میں ایسا ہی ایک فرض دہلی ہائی کورٹ کے سابق جج‘ جسٹس ایس مرلی دھر نے بھی انجام دیا تھا۔ انہوں نے آدھی رات کو اپنی رہائش گاہ پر عدالت لگاکر دہلی پولیس سے سخت سوالات کئے تھے اور بی جے پی لیڈر کپل مشرا اور انوراگ ٹھاکر کی اشتعال انگیز ویڈیوز دکھاکر ان کے خلاف کارروائی نہ کرنے پرانتباہ دیا تھا۔ انہوں نے اگلی صبح دس بجے پولیس کمشنرکو بھی طلب کرلیا تھا لیکن راتوں رات ان کا تبادلہ کرکے پنجاب ہائی کورٹ بھیج دیا گیا۔ ان کا دور تک پیچھا کیا گیا اور سپریم کورٹ کالجیم کی سفارش کے باوجود انہیں سپریم کورٹ میں مقرر نہیں کیا گیا۔ ایک بہترین جج‘ جس نے ملیانہ /ہاشم پورہ میں 72 مسلمانوں کے ایک درجن سے زائد رہا ہوجانے والے قاتل پی اے سی والوں کوسزا سنائی تھی‘ اڑیسہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے منصب سے ہی سبکدوش ہوگیا۔ ایسے میں جسٹس بھمبانی نے جو کیا وہ فرض شناسی سے آگے کا ہی کوئی ہمالیائی کام ہے۔۔۔