المعہدالعالی الاسلامی میں تین نئے فوجداری قوانین اور مسلمانوں و دیگر پر اس کے اثرات کے عنوان پر بیرسٹر اویسی کا محاضرہ
پٹنہ (پریس ریلیز/اِنصاف ٹائمس)ہندوستان میں مودی حکومت کی جانب سے حال ہی میں نافذ العمل تینوں فوج داری قوانین در اصل عام شہری کی پریشانیوں اور محکمہ پولیس کے اختیارات میں اضافہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ تینوں قوانین دستور کے منافی اور بنیادی حقوق کی سخت مخالف ہے۔پولیس کے اختیارات میں اضافہ کرکے عام لوگوں پر ظلم کا ایک نیا باب کھول دیا گیا۔ دہشت گردی کے خلاف شقوں کو آسان کرکے اقلیتوں کے خلاف محاذ آرائی کا موقع فراہم کیا گیا۔مودی حکومت کا یہ کہنا کہ ملک سے انگریزی دور کے فوجداری قوانین کا مکمل طور پر خاتمہ کردیا گیا اور نئے قوانین کو باضابطہ مرتب کردیا گیا۔ حالاں کہ ان کا یہ دعوی سراسر غلط ہے۔ کیوں کہ آزادی کے بعد سے متعدد مواقع پر مرکزی حکومت کی جانب سے فوجداری قوانین میں حسبِ موقع ترمیم کی جاتی رہی ہے۔مرکزی حکومت کے علاوہ ریاستوں نے بھی اپنے اپنے اعتبار سے کریمنل لاء میں مختلف مواقع پر تبدیلیاں کرتی رہیں۔ اس طرح ان قوانین کو انگریزی دور کے قوانین کہنا بالکل غلط ہوگا۔ ان خیالات کا اظہار بیرسٹر اسدالدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد وصدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین نے المعہدالعالی الاسلامی قباء کالونی شاہین نگر حیدرآباد میں منعقدہ ایک اہم علمی محاضرہ بہ عنوان "تین نئے فوجداری قوانین اور مسلمانوں و دیگر پر اس کے اثرات” سے دورانِ خطاب کیا۔ اجلاس کی صدارت حضرت مولانا خالد سیف الله رحمانی مدظلہ العالی نے کی۔
بیرسٹر اویسی نے اپنے محاضرہ میں کہا کہ پچھلے جو فوجداری قوانین ملک میں نافذ العمل تھے وہ بھی مسلمانوں کے لیے ہمیشہ سے ہی دردِ سر رہے ہیں۔ انہوں ملک بھر میں پیش آنے والے واقعات اور سروے کرنے والی مستند تنظیموں سی ایس ڈی ایس ودیگر کے حوالے سے جیلوں میں بند مسلمانوں کے اعداد و شمار کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ پہلے بھی یہ قوانین میں جھول تھا اب تو ایک طرح سے عام لوگوں اور خاص طور پر غریبوں کے لیے نہایت پریشان کن قوانین ہیں۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈٹینشن قانون کا سب سے زیادہ استعمال مسلمانوں پر ہوا۔ انہوںنے نئے نافذالعمل قوانین پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پہلے کسی بھی شکایت پر پولیس کو فی الفور ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات تھے تاہم اب اس کو تبدیل کرکے ایف آئی آر درج کرنے میں 15دنوں کی مہلت فراہم کی گئی۔ نئے قوانین کے مطابق فوری ایف آئی آر درج نہیں ہوگا۔ پرائم آفیسی یہ دیکھے گا کہ شکایت کنندہ کی بات پر کیس بنے گا یا نہیں اور پھر اپنے اعتبار سے ایک وقت تک اس پر غور و خوض کے بعد ایف آئی آر درج کرے گا یا پھر اس شکایت کو وہیں پر ختم کردیا جائے گا۔ اس معاملہ میں شکایت کنندگان کو تکالیف کا سامنا ہونے کا قوی امکان ہے۔ اگر کسی کے خلاف کیس درج ہوا تو اس کو پولیس اس کو پندرہ دن تک پولیس اسٹیشن طلب کرسکتی ہے جب کہ اس مطلوبہ بندے کو اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہوگا کہ آیا کس معاملہ میں اس کو پولیس اسٹیشن طلب کیا جارہا ہے۔ اس طرح ہنگامی معاملات میں پولیس سے رجوع ہونے میں عوام خطرہ محسوس کرے گی اور غیر یقینی صورتحال کا شکار ہوجائے گی۔ نئے قوانین کے مطابق ایف آئی آر درج نہ ہونے پر جس طرح عدالت سے رجوع کیا جاتا تھا لیکن اب اس طرح عدالت سے رجوع نہیں کیا جاسکتا۔بیرسٹر اویسی نے اپنے محاضرہ میں کہا کہ ان نئے قوانین میں جو باتیں لائی گئیں اس میں یہ مسئلہ بھی نہایت اہمیت کا حامل ہوگیا کہ عام مقدمات میں بھی اب پولیس 90؍دن کی ریمانڈ طلب کرسکتی ہے جبکہ پہلے یہ 15؍دنوں کی مدت پر محدود تھا۔ اس طرح مدت میں توسیع پر پولیس کو مزید ڈرانے دھمکانے اور دباؤ ڈالنے کا موقع مل جائے گا۔ حالاں کہ پولیس کسٹڈی میں اقبال جرم کرنے والا دباؤ میں قبول کیا یا آزادانہ طور پر قبول کیا یہ عدالت کو معلوم کرنے کا حق تھا تاہم اب اس معاملہ میں پولیس کا بیان ہی فیصلہ کن رہے گا اور عدالت کے پاس ملزم سے یہ پوچھنے کا اختیار ختم ہوگیا کہ دباؤ میں بولا تھا یا حقیقت بیانی سے کام لیا تھا۔ بیرسٹر اویسی نے کہا کہ پولیس کسٹڈی میں ملزمین کے ساتھ پولیس کا ناروا سلوک اور اقبال جرم کے لیے دباؤ ڈالنے کے پریشان کن طور طریقے بھی نہایت تشویشناک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یو اے پی اے قانون میں دہشت گردی کی اصطلاح تبدیل کرکے رکھ دی گئی اب ملک میں معاشی طور پر بھی نقصان پہنچانے والا دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہوجائے گا۔ انہوں کہا کہ نئے قوانین کے تحت مجرم کی جائیدادیں قرق کرلینے کا اختیار دے دیا گیا۔مآب لنچنگ کے قانون میں تشدد کی وجہ بتاکر کیس سے مجرم بری ہونے کے راستے ہموار کردئیے گئے۔ پانچ لوگ اگر کہیں ہجومی تشدد میں ملوث پائے جاتے ہیں تو ان پانچوں سے وجوہات دریافت کی جائیں گی اور علیحدہ وجوہات بتانے پر انہیں معمولی سزائیں یا پھر معافی کی ساتھ بری کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام ملزمین کو ہتھکڑیاں لگانا اور لو جہاد پر قانون سازی جیسے معاملات سمجھ سے باہر ہے۔ انہوں نے کہا کہ مقدمات کا آن لائن مواد رکھنے کا نیا نظام بالکل غیر یقینی ہے۔ اس لیے کہ ملک بھر میں ہیکنگ کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔ حیدرآباد پولیس کی ویب سائٹ اس کی زندہ مثال ہے۔ تو اسطرح مقدمات میں آن لائن شواہدات کا معاملہ غیر یقینی صورتحال اختیار کرسکتا ہے۔
پروگرام کے شروع میں المعہد العالی الاسلامی کے طلبہ نے ملکی سیاست میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے کردار اور ویب سیریز اور نت نئے فلموں کے ذریعہ شرعی قوانین کا استہزاء نیز مسلمانوں کے ساتھ شرانگیزی کے واقعات پر پُر مغز روشنی ڈالی۔ نائب ناظم ادارہ مفتی عمر عابدین مدنی قاسمی نے نظامت کے فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ المعہد العالی الاسلامی کا تعارف اور اس کی کارکردگی نیز ادارہ کے امتیازات کو بیان کیا اور فارغین معہد کی ملک بھر میں جاری سرگرمیوں کو کم وقت میں مؤثر انداز میں پیش کیا۔ مفتی اشرف علی ناظم تعلیمات نے بیرسٹر اویسی کے لیے استقبالیہ کلمات کہے۔ اس موقع پر بیرسٹر اسد الدین اویسی کی گلپوشی کرتے ہوئے انہیں تہنیت پیش کی گئی۔ بیرسٹر اویسی کے محاضرہ کے بعد مولانا خالد سیف الله رحمانی ناظم ادارہ کی ایماء پر سوالات و جوابات کا سلسلہ چلا۔ جس میں بیرسٹر اویسی نے طلبہ کو اطمینان بخش جوابات دئیے۔ اس پروگرام میں ادارہ کے اساتذہ طلبہ کے علاوہ شہر کے بعض علماء کرام و باذوق عمائدین بھی شریک رہے۔ مولانا رحمانی کی دعاء پر پروگرام اختتام پذیر ہوا۔