اِنصاف ٹائمس ڈیسک
دہلی یونیورسٹی (DU) میں وقف ترمیمی قانون (Waqf Amendment Act) پر بات کرنا لا فیکلٹی کے طلبہ کو مہنگا پڑ گیا۔ طلبہ نے الزام لگایا ہے کہ جیسے ہی انہوں نے اس حساس قانون پر ایک پرامن گفتگو کا پروگرام منعقد کرنا چاہا، پولیس کی بھاری نفری تعینات کر کے انہیں روک دیا گیا، اور کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس واقعے کے بعد نہ صرف طلبہ بلکہ سول سوسائٹی میں بھی ناراضگی دیکھی جا رہی ہے۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ABVP کو کیمپس میں ہر قسم کی سہولتیں دی جاتی ہیں، جبکہ ہم جب اہم آئینی و سماجی مسائل پر بات کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خاموش کرا دیا جاتا ہے۔
طلبہ کا ردِ عمل
ایک طالبعلم نے سوال اٹھایا:
"کیا اب سوچنے کی آزادی پر بھی ترمیم کی جا رہی ہے؟”
دوسرے نے کہا:
"ہم وقف قانون کے قانونی اور سماجی اثرات پر بات کرنا چاہتے تھے، کوئی سیاسی مظاہرہ نہیں کر رہے تھے، لیکن ہماری آواز دبانے کے لیے فوراً پولیس بھیج دی گئی۔”
معاملہ کیا ہے؟
ذرائع کے مطابق لا فیکلٹی کے چند طلبہ نے کیمپس میں وقف ترمیمی قانون کے اثرات پر گفتگو کے لیے ایک نشست منعقد کرنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن یونیورسٹی انتظامیہ نے اجازت نہ ہونے کا بہانہ بنا کر پولیس کو بلا لیا، جس نے نہ صرف پروگرام روک دیا بلکہ بعض طلبہ کو حراست میں بھی لے لیا۔
طلبہ کا کہنا ہے کہ اس سے پہلے بھی کئی بار مختلف موضوعات پر یونیورسٹی میں پروگرام ہوئے ہیں، لیکن جب بات مسلمانوں سے متعلق مسائل پر ہو، تبھی انتظامیہ سختی دکھاتا ہے۔
طلبہ تنظیموں کا ردعمل
این.ایس.یو.آئی نے اس اقدام کو "اظہارِ رائے کی آزادی پر حملہ” قرار دیا۔
آئسا کا کہنا تھا کہ "جب ABVP کو ہر موقع پر سہولتیں ملتی ہیں، تو باقی طلبہ کو کیوں دبایا جا رہا ہے؟”
کئی اساتذہ نے بھی کہا کہ "یونیورسٹی کا ماحول اب صرف ایک سوچ کے لیے سازگار بنتا جا رہا ہے۔”
انتظامیہ کی خاموشی
واقعے کے 24 گھنٹے گزرنے کے باوجود دہلی یونیورسٹی کی انتظامیہ کی طرف سے کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا گیا۔
ملک کے ممتاز تعلیمی ادارے دہلی یونیورسٹی میں آئینی امور پر بات چیت کو روکنا، جمہوریت کی روح پر حملہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یونیورسٹیاں صرف ایک مخصوص نظریے کے لیے ہی محفوظ رہ گئی ہیں؟