اِنصاف ٹائمس ڈیسک
راجستھان کے ضلع ناگور کے کانتیا گاؤں میں ایک شرمناک واقعہ پیش آیا جہاں ایک دلت نوجوان کو صرف اس لیے ذات پات کی گالیاں دی گئیں اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ اس نے ایک دکان کے سامنے رکھے گھڑے سے پانی پی لیا تھا۔ اس واقعے نے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑا دی ہے۔
متاثرہ نوجوان، اوم پرکاش میگھوال، ضلع ناگور کے آو گاؤں کا رہائشی ہے۔ اتوار کی شام وہ ایک دوست کے ساتھ کسی رشتہ دار کی تقریب میں جا رہا تھا۔ راستے میں کانتیا گاؤں میں واقع ایک کریانہ دکان کے سامنے رکھے گھڑے سے اس نے لوہے کے گلاس سے پانی پیا۔
پانی پینے کے فوراً بعد دکان کے مالک کالو رام جاٹ اور اس کے دو ساتھی نرسی رام اور ایک اور شخص اوم پرکاش نے اسے روک کر نام اور ذات پوچھی۔ جب معلوم ہوا کہ وہ دلت ہے، تو تینوں نے اسے ذات پات کی گالیاں دیں، تشدد کیا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ نوجوان نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کرتے ہوئے گھڑا مٹی سے صاف بھی کیا، مگر مارپیٹ بند نہ ہوئی، اور وہ خوف کے عالم میں قریبی رشتہ دار کے گھر پناہ لینے پر مجبور ہوا۔
اسی رات ملزمان ایک کیمپر گاڑی میں دوبارہ آئے اور دلت بستی میں گاڑی دوڑاتے رہے۔ ٹائروں کی آوازیں نکال کر علاقے میں خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی۔ متاثرہ بستی میں زیادہ تر غریب دلت خاندان آباد ہیں، جو اس حرکت سے شدید خوفزدہ ہو گئے۔
اگلے دن متاثرہ نوجوان نے پولیس میں شکایت درج کرائی۔ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس رام پرتاپ بشنوئی نے گاؤں کا دورہ کیا، لیکن اس وقت تک تینوں ملزمان فرار ہو چکے تھے۔ بعد ازاں پولیس نے سرچ آپریشن کے بعد تینوں کو حراست میں لے لیا۔
ناگور کے ایس پی نارائن توگس نے بتایا کہ تینوں افراد کے خلاف انسداد مظالم ایکٹ (SC/ST Act) اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ پولیس تفتیش جاری ہے۔
تاہم متاثرہ خاندان کا الزام ہے کہ واقعے کے بعد مقامی پولیس کارروائی سے گریز کر رہی تھی، اور سوشل میڈیا پر ویڈیوز وائرل ہونے اور عوامی دباؤ کے بعد ہی معاملے کو سنجیدگی سے لیا گیا۔ منگل کو مقامی پولیس اہلکاروں نے میڈیا سے بھی بات کرنے سے گریز کیا۔
آزاد سماج پارٹی کے صدر اور نگینہ (اترپردیش) سے رکن پارلیمان چندرشیکھر آزاد نے واقعے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا "کانتیا گاؤں میں دلت نوجوانوں کو صرف پانی پینے کے جرم میں ذلیل کیا گیا، مارا گیا، اور برتن صاف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ کسی معمولی جھگڑے کا معاملہ نہیں بلکہ صدیوں پرانی ذات پات کی نفرت کا عکس ہے۔ کیا دلت اب بھی پانی پینے کا حق نہیں رکھتا؟”
یہ واقعہ 2022 کے جالور سانحے کی یاد دلاتا ہے، جب ایک دلت طالب علم کو ایک اسکول ٹیچر نے صرف اس وجہ سے پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا تھا کہ اس نے اعلیٰ ذات کے لیے مخصوص گھڑے سے پانی پی لیا تھا۔