کراچی بیکری پر بی جے پی کارکنوں کا حملہ: ’بھارت ماتا کی جے‘ کے نعروں کے ساتھ توڑ پھوڑ، بیکری انتظامیہ کی حفاظت کی اپیل

Spread the love

اِنصاف ٹائمس ڈیسک

پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے اعلان کے ایک دن بعد حیدرآباد کے شمس آباد علاقے میں واقع معروف کراچی بیکری کی ایک شاخ پر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) سے وابستہ افراد نے مبینہ طور پر حملہ کر کے شدید توڑ پھوڑ کی۔ حملہ آوروں نے ‘بھارت ماتا کی جے’، ‘پاکستان مردہ باد’ اور ‘جے جوان’ کے نعرے لگاتے ہوئے بیکری کے سائن بورڈ کو نقصان پہنچایا۔

واقعے کے ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہے ہیں جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کئی نوجوان زعفرانی اسکارف پہنے اور بھارتی پرچم تھامے ہوئے ‘کراچی’ کے نام والے بورڈ پر لاٹھیاں برسا رہے ہیں۔ واقعے میں کوئی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے، تاہم اس عمل نے بیکری انتظامیہ اور مقامی شہریوں میں بےچینی پیدا کر دی ہے۔

پولیس کا موقف اور کارروائی

راجیو گاندھی انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے انسپکٹر کے. بال راجو نے نیوز ویب سائٹ ’دی نیوز منٹ‘ کو بتایا کہ حملہ آور بی جے پی سے تعلق رکھتے تھے۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے توڑ پھوڑ کو روکا اور بھارتیہ نیایہ سنہیتا (BNS) کی دفعہ 126 (غلط طریقے سے روکنے) سمیت متعدد دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

پس منظر اور حالیہ دباؤ

یہ واقعہ ایسے وقت میں پیش آیا ہے جب 22 اپریل کو پہلگام میں ہوئے دہشت گرد حملے کے بعد ملک بھر میں تناؤ کی فضا قائم ہے، اور دائیں بازو کے گروہ اس واقعے کو بنیاد بنا کر مختلف اقلیتوں اور علامتی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

واقعے سے چند روز قبل کراچی بیکری کے مالکان راجیش رمنانی اور ہریش رمنانی نے تلنگانہ کے وزیر اعلیٰ ریونت ریڈی اور ڈائریکٹر جنرل پولیس ڈاکٹر جتیندر سے بیکری کی حفاظت اور رہنمائی کی اپیل کی تھی۔

’نام ہماری شناخت ہے، شہریت نہیں‘ — بیکری انتظامیہ کا ردعمل

کراچی بیکری نے انسٹاگرام پر اپنے حالیہ بیان میں لکھا:
“ہم فخر کے ساتھ بھارتی ہیں۔ ہمارا نام ہماری تاریخ کا حصہ ہے، شہریت کا نہیں۔”
بیکری کا آغاز 1953ء میں سندھ سے ہجرت کر کے آنے والے ہندو تاجر کھنچند رمنانی نے کیا تھا، جو راجیش اور ہریش کے دادا تھے۔ اپنے منفرد بسکٹ اور دیگر بیکری مصنوعات کی وجہ سے کراچی بیکری پورے بھارت میں مقبول ہے۔

دائیں بازو کے گروہوں کی مہم

پہلگام حملے کے بعد دائیں بازو کے گروہوں نے کراچی بیکری کے خلاف مہم چھیڑ دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، وشاکھاپٹنم میں بھی 6 مئی کو ایک دائیں بازو کے گروہ نے مظاہرہ کرتے ہوئے ’کراچی‘ نام کو ہٹانے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ حیدرآباد میں مختلف شاخوں پر زبردستی بھارتی پرچم لگانے کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔

سوالات اور تشویش

یہ حملہ ایک بار پھر اس بحث کو ہوا دے رہا ہے کہ کیا بھارت میں کاروبار کرنے والے ان شہریوں کو صرف ان کے اداروں کے نام کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا سکتا ہے؟
کراچی بیکری کا نام ماضی میں بھی تنازع کا مرکز بنتا رہا ہے، خاص طور پر جب پاک-بھارت تعلقات میں تناؤ پیدا ہوتا ہے، لیکن اس بار ایک بار پھر شدت پسند نظریات کی جھلک کھل کر سامنے آئی ہے۔

Leave a Comment