اِنصاف ٹائمس ڈیسک
چھتیس گڑھ کے نکسلی متاثرہ ضلع بیجاپور میں دو سینئر ماؤ نواز رہنما بھاسکر اور سُدھاکر گزشتہ دو روز میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ ہوئی جھڑپوں میں مارے گئے۔ پولیس نے ان جھڑپوں کو نکسلیوں کے خلاف ایک بڑی کامیابی قرار دیا ہے، تاہم شہری تنظیمیں اور انسانی حقوق کے کارکنان اسے جعلی مقابلہ قرار دے رہے ہیں۔
پولیس نے کہا کہ یہ جھڑپ بیجاپور کے جنگلات میں ہوئی، جہاں دونوں رہنماؤں کے علاوہ کچھ دیگر ماؤ نواز بھی موجود تھے۔
سکیورٹی فورسز نے دعویٰ کیا کہ جھڑپ کے دوران بھاری ہتھیار برآمد کیے گئے ہیں۔
حکام نے بتایا کہ بھاسکر اور سُدھاکر طویل عرصے سے ماؤ نواز سرگرمیوں میں ملوث تھے اور ان کے خلاف کئی مقدمات میں وارنٹ بھی جاری تھے۔
اس کارروائی کو نکسلیوں کی کمر توڑنے والا بڑا آپریشن بتایا جا رہا ہے۔
کئی شہری تنظیموں اور انسانی حقوق کارکنوں نے الزام لگایا ہے کہ یہ جھڑپ جعلی ہے اور دونوں رہنماؤں کو گرفتار کر کے تحویل میں مار دیا گیا۔
ان تنظیموں نے ریاستی اور مرکزی حکومت سے آزادانہ تفتیش کا مطالبہ کیا ہے۔
مقامی لوگ بھی جھڑپ کے اصل حقائق پر شک و شبہات میں مبتلا ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہیں، جب کہ کچھ اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی سمجھ رہے ہیں۔
چھتیس گڑھ کی حکومت اور مرکزی سکیورٹی فورسز برسوں سے نکسلی مسئلے پر قابو پانے کے لیے آپریشن چلا رہی ہیں۔
گزشتہ چند سالوں میں کئی بڑے آپریشن کیے گئے ہیں، جن میں بڑی تعداد میں ماؤ نواز رہنما مارے یا گرفتار ہوئے ہیں۔
تاہم نکسلی مسئلہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوا اور علاقے میں سکیورٹی صورتحال اب بھی چیلنجنگ ہے۔
حزب اختلاف کی جماعتوں نے جعلی مقابلوں کے الزامات کی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو قانون کے دائرے میں رہ کر کارروائی کرنی چاہیے اور انسانی حقوق کا احترام کرنا چاہیے۔
حکومت نے فی الحال اس معاملے پر کوئی تفصیلی بیان جاری نہیں کیا، لیکن کہا کہ سکیورٹی فورسز کی کارروائی سے علاقے میں امن قائم ہوگا۔
بیجاپور میں دو سینئر ماؤ نواز رہنماؤں کی ہلاکت نے نکسلی مخالف مہم کو نئی بحث میں لا دیا ہے۔ پولیس اور شہری تنظیموں کے بیانات میں تضاد نے صورت حال کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس معاملے کی آزادانہ تفتیش اور شفافیت اب سب سے بڑا مطالبہ بن گیا ہے