۔✒️:امام علی مقصود فلاحی۔متعلم: جرنلزم اینڈ ماس کمیونیکیشن۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد۔اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے، جس میں سے ایک روزہ بھی ہے، روزہ ایک ایسی عبادت ہے جسے اللہ نے ہر پیغمبر کی امت پر فرض کیا ہے اور اس امت محمدیہ پر بھی فرض کیا ہے جیسا کہ قرآن شاہد ہے: اے ایمان والوں تم پر روزہ اسی طرح فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا۔اسآیت سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو ہر امت پر فرض رہی ہے۔رمضان کا لغوی معنی: رمضان کے معنی ہیں "جھلسا دینا” "جلا دینا” چونکہ سب سے پہلے یہ مہینہ (رمضان المبارک) سخت جھلسا دینے والی گرمی میں آیا تھا اسی لئے اس مہینے کو رمضان کا مہینہ کہتے ہیں۔لیکن بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ چونکہ اس مہینے میں اللہ کی خاص رحمتیں نازل ہوتی ہیں اور اللہ اپنے فضل و کرم سے بندوں کے گناہوں کو جھلسا دیتا ہے اور انکے گناہوں کو جلا دیتا ہے اسی لئے اسمہینہ کو "رمضان” کا مہینہ کہتے ہیں۔روزے سے مراد یہ ہے کہ بندہ صبح سے شام تک کھانے پینے اور مباشرت سے پر ہیز کرے۔بہر حال! جلد ہی یہ مہینہ ہمارے درمیان آنے والا ہے، رحمتوں اور برکتوں کا خزانہ لانے والا ہے، بچھڑے ہوئے لوگوں کو مسجد میں اکٹھا کرنے والا ہے، اتحاد و اتفاق کا جھنڈا لہرانے والا ہے، ایک ہی دستر خوان پر سب کو بٹھانے والا ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے جس کے تعلق سے جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اور جہنم کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے، اور شیاطین کو زنجیروں سے جکڑ دیا جاتا ہے۔ (بخاری و مسلم)حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص رمضان کا ایک روزہ بلا عذر شرعی کے چھوڑ دے اور ساری عمر اس روزے کی تلافی کے لئے روزے رکھتے رہے تب بھی اس روزے کی کمی پوری نہیں ہو گی۔ ( ترمذی) قارئین! اسماہ میں بعض اعمال ایسے ہیں جنہیں ہر مسلمان جانتا ہے اور اس پر عمل بھی کرتا ہے مثلاً روزے رکھنا، تراویح پڑھنا۔جبکہ رمضان المبارک کا مہینہ ہم سے اس سے زیادہ عبادات کا مطالبہ کرتا ہے، جسکا ذکر قرآن پاک میں بھی موجود ہے جیسا کہ فرمان باری ہے:کہ ہم نے انسانوں اور جناتوں کو صرف اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔اب یہاں ایک سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اللہ نے اپنی عبادت کے لئے انسانوں کو ہی کیوں پیدا کیا؟ کیا فرشتے اسکی عبادت کے لئے کافی نہیں تھے؟ جو کہ مسلسل اسکی عبادت میں ہمہ تن و ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں، اور وہ انسانوں سے اچھی عبادت کرتے ہیں، اسکی تسبیح و تحمید کی گیت گاتے رہتے ہیں، اور فرشتوں کو بھی معلوم ہے کہ ہم انسانوں سے اچھی عبادت کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، یہی وجہ تھی کہ جب اللہ نے انسانوں کو پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو فرشتوں نے اعتراض کیا تھا کہ اے اللہ تو ایسی مخلوق کیوں پیدا کر رہا ہے جو زمین پر خون خرابا کریں گے، اسکے جواب میں اللہ نے کہا تھا کہ اے فرشتوں جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔بہر کیف معلوم ہوا کہ فرشتے تو پہلے ہی سے اللہ کی تسبیح و تقدیس کر رہے تھے اور انہیں اس بات کا احساس بھی تھا کہ اللہ کی عبادت ہم سے اچھا کوئی نہیں کرسکتا، اسی وجہ سے انہوں نے اعتراض بھی کیا تھا۔ تو پھر اللہ نے اپنی عبادت کے لئے انسانوں اور جناتوں کو کیوں پیدا کیا؟اسکا جواب یہ ہے کہ بیشک اللہ کے فرشتے اسکی عبادت کر رہے ہیں، اسکی تسبیح و تقدیس میں ہمہ تن مشغول بھی ہیں، لیکن انکی عبادات بالکل مختلف نوعیت کی ہے، اس لیے کہ فرشتے جو عبادت کر رہے ہیں انکے مزاج میں اسکے خلاف کام کرنے کا امکان ہی نہیں ہے۔کیونکہ اگر وہ چاہیں کہ چند لمحے کے لئے اللہ کی عبادت نہ کریں تو ایسا ہو ہی نہیں سکتا، انکے اندر گناہ کرنے کی صلاحیت ہی نہیں ہے، انکے اندر خواہشات نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، نہ وہ کھانے کی لذت سے واقف ہیں نہ وہ پینے کی اشیاء سے واقف ہیں، نہ وہ بیوی بچوں کے پیار سے آشنا ہیں۔اسکے بر عکس انسانوں میں بے شمار خواہشات موجود ہیں، وہ کھاتے بھی ہیں، پیتے بھی ہیں، اور دوسرے کام بھی کرتے ہیں۔اس لئے اللہ نے فرشتوں کی عبادات پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں رکھا کیونکہ انکے اندر گناہ نام کی کوئی چیز ہی نہیں ہے، اس لئے اگر فرشتے کوئی گناہ نہیں کر رہے ہیں تو اس میں فرشتوں کا کوئی کمال نہیں ہے۔کمال تو انسانوں کا ہے۔مثلاً ایک شخص نابینا ہے اور ایک شخص بینا ہے اور دونوں ہی آنکھوں کی معصیت سے پر ہیز کرتے ہیں ، نہ دونوں فلم دیکھتے ہیں نہ ہی کسی پر گندی نگاہ ڈالتے ہیں اور ساری عمر بدنگاہی سے بچتے رہتے ہیں۔لیکن دونوں میں آسمان و زمین کا فرق ہے، ان دونوں میں کمال اس شخص کا ہے جو بینا ہے جو ہر چیز کو دیکھ سکتا ہے جسکے اندر بدنگاہی کی صلاحیت موجود ہے، جسکے اندر اتنی صلاحیت موجود ہے کہ وہ فلم دیکھ سکے لیکن پھر بھی نہ دیکھے تو کمال اسی کا ہے۔نا بینا شخص تو پہلے ہی سے مجبور ہے، وہ تو مجبور محض ہے، چاہ کر بھی وہ بد نگاہی نہیں کرسکتا، چاہ کر بھی وہ فلم نہیں دیکھ سکتا۔بہر کیف معلوم ہوا کہ کمال اسی کا ہوتا ہے جسکے اندر گناہ کی صلاحیت ہو پھر بھی وہ گناہ نہ کرے، جسکے اندر گناہ کی صلاحیت نہ وہ اور وہ گناہوں سے بچے تو اس میں اسکا کوئی کمال نہیں ہے۔لہٰذا اگر فرشتے صبح سے شام تک نہ کھائیں نہ پیئیں تو اس میں انکا کوئی کمال نہیں ہے، اس لئے کہ نہ انہیں بھوک لگتی ہے نہ انہیں پیاس لگتی ہے۔لیکن انسان ان تمام حاجتوں کو لیکر پیدا ہوا ہے، لہذا کوئی انسان کتنے ہی بڑے مقام پر پہنچ جائے، حتی کہ سب سے اعلٰی مقام یعنی مقام نبوت پر بھی فائز ہو جائے تو وہ بھی کھانے پینے سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔چنانچہ کفار نے یہی اعتراض کیا تھا کہ : یہ کیسا رسول ہے جو کھانا بھی کھاتا ہے اور بازاروں میں بھی چلتا پھرتا ہے۔معلوم ہوا کہ کھانے پینے کا تقاضہ ہر انسان کے ساتھ یہاں تک کہ انبیاء کے ساتھ بھی لگا ہوا ہے۔اب اگر انسان کو بھوک لگ رہی ہے لیکن وہ اللہ کے حکم کی وجہ سے وہ کھانا نہیں کھا رہا ہے تو وہ کمال کی بات ہے۔اسی لئے اللہ نے ہمیں پیدا کیا کہ اسکے اندر گناہوں کی ساری صلاحیتیں ہوں گی لیکن جب میرا حکم ہوگا تو وہ اس گناہ سے باز آجائے گا، جب بھی اسکے اندر گناہ کرنے کا داعیہ پیدا ہوگا تو مجھے یاد کر لے گا، جسکی وجہ سے میں اسے ایسی جنت دوں گا جسکی صفت(عرضھا السموات والارض) ہوگی۔معلوم ہوا کہ اللہ نے انسانوں کو جس عبادت کے لئے پیدا کیا ہے وہ فرشتوں کے بس میں نہیں تھا اسی لئے انسانوں کو پیدا کیا۔اب سوال یہ ہے کہ عبادت کسے کہتے ہیں؟ صرف نماز روزہ زکوۃ حج وغیرہ ادا کر لینا ہی عبادت ہے ؟ یا کچھ اور.تو اس سلسلے میں مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عبادت تین چیزوں سے ملکر بنتی ہے۔(١) آقا کی وفاداری (٢) آقا کی اطاعت (٣) آقا کی تعظیم۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بندہ کو جب بھی اللہ کسی چیز کا حکم دے تو وہ فوراً اسے بجا لاے، اگر اللہ کہتا ہے کہ تو نماز پڑھ تجھ پر نماز فرض ہے تو بندہ کو بندگی کا لحاظ رکھتے ہوئے اس حکم کو پورا کرنا ہوگا۔ اگر اللہ یہ کہتا ہے کہ اے میرے بندے تو میرے نبی کی اطاعت کر تو بندے کو اپنی بندگی کا لحاظ رکھتے ہوئے نبی کی اطاعت کرنی پڑے گی، پھر جب نبی یہ کہے کہ اے میری امت تو کسی کو تکلیف نہ دے تو امت پر یہ لازم ہو گا کہ وہ کسی کو تکلیف نہ دے، اگر نبی یہ کہے کہ اے میری امت تو حلال روزی کی تلاش میں رہ اور حرام کی کمائی سے دور رہ، تو اس امت پر لازم ہے کہ وہ اس حکم کی تعمیل کرے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ بندہ ہر وقت اور ہر حال میں خدا کے قانون کی اطاعت کرے اور ہر اس قانون کی پابندی سے آزاد ہو جائے جو قانون الھی کے خلاف ہو۔اگر انسان کا ہر فعل اس طریقے کے مطابق ہوگا جو خدا نے بتایا ہے تو انسان کی پوری زندگی عبادت بن جائے گی، اسکا سونا بھی عبادت بن جائے گا اور اسکا جاگنا بھی عبادت بن جائے گا،اسکا کھانا پینا بھی عبادت بن جائے گا اسکا بات کرنا بھی عبادت بن جائے گا، اسکا چلنا پھرنا بھی عبادت بن جائے گا حتی کہ بیوی کے پاس جانا اور بچے سے پیار کرنا بھی عبادت بن جائے گا۔غرض یہ کہ عبادت کا مفہوم بہت ہی وسیع ہے، عبادت کو نماز روزہ زکوۃ حج تک ہی محدود نہیں رکھا جا سکتا۔اگر کوئی شخص نماز روزہ زکوۃ حج وغیرہ کو ادا کرکے یوں ہی بیٹھ جائے اور لوگوں کو ظلم و زیادتی کرے، نا انصافی اور بدنگاہی کرے تو یقیناً وہ خدا کی بندگی سے منہ موڑ رہا ہے، اور بندگی کے مفہوم سے کافی دور ہے۔بہر کیف! معلوم ہوا کہ رمضان المبارک کا مہینہ صرف روزہ اور تراویح تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھ کر دیکھیں تو اس مہینے میں عبادت کو بھی ایک خاص جگہ حاصل ہے۔اس لئے ہمیں اور آپ کو چاہیے کہ ہم اس مہینے میں لفظ "عبادت” کو مدنظر رکھتے ہوئے اللہ کی اس قدر بندگی کریں کہ اس مہینے کا اثر پورے سال باقی رہے، اور خود کو خدا کا ایسا بندہ بناکر خدا کی بندگی کریں کہ ہمارا سونا بھی عبادت ہو جائے، ہمارا پینا بھی عبادت ہو جائے، ہمارا چلنا پھرنا بھی عبادت ہو جائے، گویا کہ ہماری ساری زندگی عبادت کے زمرے میں داخل ہو جائے۔چاند سے روشن ہو رمضاں تمہارا،عبادت سے بھرا ہو روزہ تمہارا،ہر روزہ اور نماز قبول ہو تمہاری،یہی اللہ پاک سے دعا ہے ہماری